انسداد دہشت گردی کا قومی مرکز
فی الحال کولکتہ کی کالی ماتا یعنی ممتا بنرجی کی دہشت کا شکار ہے ۔ممتا
اور سونیا کے درمیان پائے جانے والے کھٹے میٹھے رشتوں کو ایک امیر کبیر ساس
اور خودسر بہو کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ
رہنا بھی نہیں چاہتیں اور ایک دوسرے سے جدا ہونا بھی نہیں چاہتیں اس لئے
تمام تر تو تو میں میں کے باوجود یہ سلسلہ وارڈرامہ ناظرین کو اپنی جانب
متوجہ رکھتا ہے ۔اگر ان کی آپسی چپقلش بند ہو جائے تو ناظرین کی دلچسپیوں
کا خاتمہ ہو جائے اوروہ اس ترنگے چینل کو چھوڑ کر دیگر نارنگی یا سرخ چینلس
کی جانب نکل جائیں لیکن اگر یہ ساس بہو جدا ہونےکا فیصلہ کرلیں تو سیرئیل
ہی کاخاتمہ ہوجائے گویا ہردو صورت فریقین کیلئے نقصان دہ ہےاسلئے نہ سانپ
مرتا ہے اور نہ لاٹھی ٹوٹتی ہے ۔ مداری کا کھیل چلتا رہتا ہے ووٹوں کی
برسات ہوتی رہتی ہے نوٹوں کی تھیلیاں بھرتی رہتی ہیں۔ منظر نامہ اس طرح
بُنا گیا ہے کہ گھر ساس کا ہے اس لئے اس میں مرضی تو اسی کی چلنی ہے لیکن
بہو چونکہ خودسر ہے اس لئے وہ ساس کی مان نہیں سکتی اور سسرال کی عیش و
عشرت سے استفادہ جاری رکھنے کیلئے گھر کو چھوڑتی بھی نہیں ۔
معاشرتی سطح پر اس طرح کا انتشار ساس بہو اور بیٹے تینوں کیلئے نقصان دہ ہو
سکتا ہے لیکن بھلا ہوجمہوری سیاست کا کہ جس کا بابا آدم ہی نرالا ہے ۔ یہاں
پر یہ آپا دھاپی تینوں کیلئے نہ صرف مفید بلکہ ان کے مشترکہ دشمنوں کیلئے
سم ِقاتل بھی ہے ۔ وی پی سنگھ نے ایک بار کہا تھا ہم کانگریس کو باقی رکھنا
چاہتے ہیں تا کہ عوام کے سامنے دوسرا متبادل بھی فسطائی نہیں بلکہ سیکولر
ہو ۔وی پی سنگھ کے زمانے میں تو یہ نہ ہوسکا اس لئے کہ خود جنتا دل کو اس
داخلی انتشار نے نگل لیا اور بی جے پی سب سے بڑا متبادل بن کر ابھر آئی
لیکن اتفاق سے اب وہ صورتحال پیدا ہو گئی جس کا خواب برسوں قبل وی پی سنگھ
نے دیکھا تھا ۔ مہنگائی کا مسئلہ ہو یا بیرونی سرمایہ کاری کا، لوک پال بل
ہو یا انسدادِ دہشت گردی کا مرکز ہر مسئلے میں کانگریس اور ترنمول کی نورہ
کشتی چلتی رہتی ہیں اور باقی حزبِ اختلاف حاشیہ پر کھڑا نظر آتا ہے ۔ ذرائع
ابلاغ میں فی الحال یہ ساس بہو اور سازش نامی ڈرامہ چھایا ہوا ہے
اوردیگرسیاسی جماعتوں کیلئے ساس کے خلاف بہو کی حمایت میں زندہ بادو پائندہ
باد کے نعرے لگانے کے علاوہ کچھ اورکام نہیں ہیں ۔
۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کے بعد عالمی سطح پر انسدادِ دہشت گردی کے نام بین الاقوامی
دہشت گردی کا آغاز ہوا ۔ جارج بش کو یہ غلط فہمی تھی کہ وہ اس بہانے سے
ساری دنیا کو اپنی قیادت میں متحد کرنے میں کا میاب ہو جائیگا لیکن ہوا یہ
کہ ساری دنیا تو درکنار امریکی رائے عامہ نے بھی وقت کے ساتھ اس کا ساتھ
چھوڑ دیا ہے اور وہ جاتے جاتے اپنی ری پبلکن پارٹی کی لٹیا ڈبو کر
اقتدارگئے ۔ہندوستان میں ۲۶نومبر۲۰۰۸ کو ممبئی پر دہشت گردانہ حملے کے بعد
وزیر داخلہ چدمبرم نے انسدادِ دہشت گردی کا قومی مرکز قائم کرنے کا فیصلہ
کیا لیکن جب تین سال بعد یہ مرکز باقائدہ قائم کر دیا گیا تو ہنگامہ کھڑا
ہو گیا اور مندرجہ ذیل تین طرح کے اعتراضات سامنے آئے :
•اس طرح کے مرکز کا قیام ملک میں رائج دفاقی نظریہ کی خلاف ورزی ہے
•مرکزی حکومت اپنے مخالفین کے خلاف اس کا غیر واجبی استعمال کر سکتی ہے
•اس سے ریاستی حکومت کے حقوق و اختیارات میں دراندازی ہوتی ہے
سب سے پہلا اعتراض بے حد اہم اس وجہ سے ہے کہ اکثر و بیشتر ہمیں یہ بات یاد
ہی نہیں رہتی کہ دستور کی روُ سے مملکت ِ ہندایک دفاق ہے جس میں مختلف
اقوام جنہیں ریاستی اکائیوں کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے شامل ہیں اورمرکز
پر یہ لازم ہے کہ وہ ان کے تشخص اور حقوق کا احترام کرے ۔ اسی کے ساتھ یہ
بات بھی تسلیم کی جانی چاہئےکہ اگر کوئی اکائی جو اس میں شامل ہوئی ہے کسی
وجہ سے اپنے سابقہ فیصلے سے رجوع کرتی ہے اور الگ ہونا چاہتی ہے تو اسے اس
کا حق حاصل ہے لیکن ہمارے ملک جیسے ہی اس طرح کی مطالبہ سامنے آتا ہے ہم
لوگ جذباتی ہوجاتے ہیں پچھلے دنوں کشمیر سے متعلق پرشانت بھوشن کے نہایت
محتاط بیان کا جو حشر ہوا سب دیکھ چکے ہیں۔ ان پر ہونے والے تشدد کی مذمت
کو ئی نہ کر سکا۔میزو رم اور ناگا لینڈ میں جس بیدردی کے ساتھ ان مطالبات
کو کچلا گیا وہ بھی سامنے ہے ۔ اس معاملے میں علاقائی جماعتوں سے قطع نظر
کانگریس اور بی جے پی کا رویہ نہایت غیر معقول ہوتا ہے ۔وہ لوگ اسے قوم کی
غداری قرار دے کر باؤلے ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ مغربی قوم پرستی کی اتباع
میں کیا جاتا ہے وگرنہ انڈونیشیا اور سوڈان کی مثالیں جگ ظاہر ہیں جہاں
علٰحیدگی پسندوں کے ساتھ بھی نہایت حلم و بردباری کا سلوک کیا گیا ۔ عوامی
استصواب کے بعد بغیر کسی خون خرابے کے ملک تقسیم ہوا اور وہ ایک اچھے پڑوسی
بن گئے ۔ اس بار بی جے پی کے رہنما ارون جیٹلی نے بھی این ٹی سی ٹی کے باب
میں دفاقی ڈھانچے کا حوالہ دیا ہے یہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔
ارون جیٹلی کو اپنے خاص دوست نریندر مودی کے سر پر لٹکنے والی مرکزی حکومت
کی تلوار نے شاید مذکورہ بیان کیلئے مجبور کیا ہو ۔ نریندر مودی نے اپنے
خلاف مرکزی اداروں کے استعمال کا واویلا پہلے ہی سے مچا رکھا ہے۔ اس کا
الزام ہے کہ کانگریس پارٹی مرکزی حکومت کے تحت کام کرنے والے تمام تفتیشی
اداروں کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر استعمال کرتی ہے اور اگر وہ اس
قدر توانائی اس کے بجائےپاکستان کے خلاف صرف کرے تو دہشت گردی کا مسئلہ
اپنے آپ حل ہوجائے ۔لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ نریندر مودی نے بھی گجرات
کے ہرسرکاری ادارے کو اپنے مقاصد کی خاطر بے دھڑک استعمال کیا ہے ؟ اس کا
دست راست وزیر داخلہ قتل و غارتگری کے سنگین الزامات کے تحت ریاست بدر ہے ۔
پولیس فورس کو نریندر مودی نے انڈر ورلڈ مافیا بنا دیا اور خود اس کا ڈان
بن بیٹھا۔ گجرات کے اندرایسےکئی پولیس افسران جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑ
رہے جو مودی کے اشارے پر معصوموں کے جان و مال کے ساتھ کھلواڑ کیاکرتے تھے
۔ ان باوردی غنڈوں کی مدد سے مودی نے غیر تو غیر اپنے بچپن کے دوست ہرین
پنڈیا کا بھی قتل کروا دیا۔ سنجے بھٹ جیسے باضمیر پولیس افسر کو ڈرانے
دھمکانے کی کو شش کی ۔ عدالت کو بسٹ بیکری کا مقدمہ ریاست سے باہر ممبئی
منتقل کرنا پڑا اس لئے گواہ اور سرکاری وکیل تو کجا جج صاحبان پر بھی بے
شمار دباؤ ڈالا جاتا تھا ۔جوشخص خود تمام سرکاری اداروں کے ساتھ کٹھ پتلی
کا کھیل کھیلتا ہے وہ کس منہ سے دوسروں پر ان کے بیجا استعمال کا الزام
لگاسکتاہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ نام نہاد پاکستانی دہشت گردی کے
ہاتھوں ہونے والا جانی ومالی نقصان نریندرمودی سے بہت کم ہے ۔
ملک کے اندر فی الحال دہشت گردی سے مقابلہ کرنے والے کئی ادارے موجود ہیں
مثلاً ریسرچ اور انالیسس ونگ جیسے رآ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انٹلیجنس
بیورو یعنی آئی بی، نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے)،نیشنل
سیکیورٹی گارڈس اور ایس آئی ٹی وغیرہ لیکن اس کے باوجود رآ کےسابق سربراہ
وکرم سود نے اس نئے ادارے پر اعتراض جتایا ہےان کے خیال میں اس کو دیگر
اداروں پر یک گونہ فوقیت حاصل ہو جائیگی جس سے ان کی کارکردگی متاثر ہوگی ۔
ریاستی حکومتوں کی مخالفت اس لئے ہے کہ وزیر داخلہ نے انہیں اعتماد میں
لینے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کی اور اس نئے ادارے کو تفتیش کے علاوہ
گرفتاری کا بھی اختیار حاصل ہونے والا ہے ۔ریاستی حکومتیں بجا طور پر اسے
اپنے حقوق میں مداخلت گردانتی ہیں اس لئے کہ امن وامان برقرار رکھنا بنیادی
طور پر ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔اس کے علاوہ مرکز کی جانب بین
الریاستی ٹیم کا قیام صوبائی اختیار کو مکمل طور پرختم کردیتا ہے۔
ایمرجنسی کے دوران جبکہ مرکزی ایجنسیوں کو اس یہ حق حاصل نہیں تھا اس کے
باوجود اندراگاندھی نے اپنے مخالفین کے خلاف انہیں استعمال کیا جس کی
تفصیلات شاہ کمیشن کی رپورٹ میں موجود ہے لیکن بہر حال وہ قانون کی خلاف
ورزی تھی۔ این ٹی سی ٹی کو یہ اختیار دے دینے سے اس مداخلت کو دستوری جوازو
تحفظ فراہم ہو جائیگا۔یہ ایک ایسی زیادتی ہے کہ انگریزوں نے بھی اپنے
سامراج میں اس کی جرأت نہیں کی تھی ۔ آزادی کے بعد کسی مرکزی حکومت کو اس
کا خیال نہیں آیا ۔ اس طرح کا کالا قانون سب سے پہلے روس میں لینن اور
اسٹالن نے انقلاب کے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبانے کیلئے بنایا جس نے آگے
چل کر بدنام ِ زمانہ کے جی بی کا روپ دھار لیا۔ اس لئے اس سے نہ صرف دفاقی
ڈھانچہ بلکہ دستور کے ذریعہ تسلیم شدہ انسانی حقوق کی بھی بے دریغ پامالی
امکان ہےاور آزادی وجمہوریت کو اس خطرات لاحق ہیں ۔ اس طرح کے اقدامات سے
دہشت گردی کا خاتمہ نہیں بلکہ اس میں اضافہ ہوسکتا ہے۔یہ محض خیالی اندیشے
نہیں ہیں بلکہ گزشتہ چند سالوں کے اندر عالمی سطح پر اس کے بے شمار مظاہر
سامنے آچکے ہیں۔
انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والے عالمی ادارے نے اکتوبر ۲۰۰۱یہ بات کہی
تھی کہ بین ا لاقوامی دہشت گردی کا بہانہ بنا کر حکومتیں ایسے ظالمانہ
اقدامات کرنے لگی ہیں جن سے انکے اپنے شہریوں کی اور مہاجرین کے حقوق کی
پامالی ہوتی ہے۔حکومت کی یہ ذمہ داری ضرور ہے کہ عوام کو تحفظ فراہم کرے
لیکن اس کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ اس کی آڑ میں وہ انہیں بنیادی حقوق سے
محروم کردے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جن اقدامات پر غور کیا جارہا ہے وہ
انسانی حقوق کو سلب کرتے ہیں اور اندرونی مخالفت کو دبانے کیلئے انہیں
اختیار کیا جارہا ہے ۔۲۰۰۳ کے آتے آتے یہ اندیشے حقائق میں بدل گئے
ایمنسٹی نے تسلیم کیا کہ دہشت گردی کے خلاف چھیڑی گئی جنگ دنیا کو ایک
محفوظ تر مقام بنانے میں ناکام رہی بلکہ انسانی حقوق پر پابندیاں لگا کر
اور حکومتوں کو بین الاقوامی قوانین سے مبرّا کرکے اس نے دنیا کو مزید پر
خطر بنا دیا ہے ۔ اس نے مختلف عقائد اور نسلوں کے لوگوں کے درمیان تفریق کو
گہرا کیا ہے، تنازعات کے بیج بوئے ہیں اوراس کے باعث خوشحال و نادار دونوں
طبقات کے اندربجا طور پر خوف پیدا ہوا ہے۔
ایمنسٹی انٹر نیشنل کی ۲۰۰۴ کی رپورٹ ان حقائق کو مزید تفصیل کے ساتھ بیان
کرتی ہے ۔ اس کے مطابق حکومت اور اسلحہ بردار گروہوں نے عالمی ا قدار کے
خلاف جنگ چھیڑ دی ہے اور عوام کےانسانی حقوق کو برباد کردیا ہے ۔اسلحہ
بردار گروہوں کا تشدد اور حکومتوں کی روز افزوں پامالی سے گزشتہ پچاس سالوں
کے اندر انسانی حقوق پر عالمی سطح پر یہ سب سے بڑا حملہ ہے ۔جس سے لوگوں کے
اندرتفریق ،بے اعتمادی اور خوف کا اضافہ ہورہا ہے ۔حکومت خیالی عمومی تباہی
کے اسلحہ کا بہانہ بناکر حقیقی تباہی کے اسلحہ کا بے دریغ استعمال کرر ہی
ہے جس سے ناانصافی ،بغاوت،غربت ،امتیاز،اسلحے کی تجارت،خواتین اور بچوں پر
ہونے والے مسائل کی جانب توجہ نہیں ہو پارہی ہے گویا دہشت گردی کے خلاف
چھیڑی گئی یہ جنگ اب آزادی وحریت کے خلاف ہو رہی ہے ۔ اس رپورٹ میں
انسانیت کی دگر گوں حالت کی بنیادی ذمہ داری بالواسطہ امریکی حکومت پر ڈالی
گئی ہے ۔
اس موقع پر اگر امریکی حکام خود اپنے رہنما مارٹن لوتھر کنگ کی مندرجہ ذیل
نصیحت کو یاد رکھیں تو وہ ان کے حق میں بہتر ہو گا ۔ "تشدد کی سب سے بڑی
کمزوری یہ ہے وہ اسی شۂ کوفروغ دیتی ہے جس کے خاتمے کیلئے اس کا استعمال
کیا جاتا ہے ۔وہ برائی کو مٹانے کے بجائے اس کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ تشدد
کا استعمال کرکے آپ نفرت کرنے والے کا قتل تو کر سکتے ہو لیکن نفرت کا قتل
نہیں کرسکتے۔ تشدد سے نفرت میں اضافہ ہوتا ہے ۔نفرت کے جواب میں نفرت سے
نفرت میں بے تہاشہ بڑھ جاتی ہےیہ ایسا ہی ہے جیسے ستاروں سے خالی رات میں
مزید گہرے اندھیرے کو انڈیل دیا جائے۔ اندھیرا تاریکی کو دور نہیں کر سکتا
بلکہ اس کے لئے اجالا درکار ہوتا ہے ۔نفرت سے نفرت کو بھگایا نہیں جاسکتا
اس کیلئے محبت کی ضرورت ہوتی ہے "۔ تشدد کے ہتھیار کی ناکامی کا سب سے بڑا
ثبوت افغانستان کا جہاد ہے۔ ۲۰۰۱ میں طالبان کے اقتدار ایک محدود علاقے تک
سمٹ گیا تھا ۔ناٹو کی افواج نے گزشتہ ۱۱ سالوں میں اپنے سارے حربے آزما
لئے اور اب۳۴ میں سے ۳۱صوبے طالبان کے قبضے میں آچکے ہیں ۔لیکن افسوس کہ
مارٹن لوتھر کنگ کا یہ نسخہ امریکی سیاستدانوں کوانتخاب میں کامیابی نہیں
دلا سکتا اس کیلئے ان کے پاس نفرت پھیلانےکے سوا دوسرا چارۂ کار نہیں ہے
اور ہندوستانی سیاستدانوں کی بھی یہی مجبوری ہے۔اسی لئے وہ گاندھی جی کی
مالا تو جپتے ہیں لیکن ان کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے۔
بدعنوانی کے بعد اب ملک بھر میں دہشت گردی کا بول بالا ہے لیکن یہ بھی سچ
ہے کہ جس قدر لوگ دہشت گردی کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جاتے ہیں اس سے
کئی گنا زیادہ تعداد میں بچے خوراکی کمی کے سبب ہلاک ہوتے ہیں۔وطنِ عزیز
ميں روزانہ تین ہزار بچے اس کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ جنوب
ايشیا کے اوسط سے یہ تعداد ڈیڑھ گنا زیادہ ہے ۔ اس سنگین مسئلہ پر قابو
پانے کیلئے فوڈ سکیورٹی بل لانے کا اعلان کیا جا چکا ہےجو لوک پال بل کی
سیاست کا شکار ہو گیا ۔۔ اس بل کے تحت ۶۳ فيصد بھارتی باشندوں کو رعايتی
نرخوں پر چاول اور آٹا فراہم کئے جانے کی تجویز ہے ۔
آج ہندوستان ايشيا کی تيسری بڑی اقتصادی طاقت بن چکا ہے۔ ملک ميں فی کس
سالانہ آمدنی پچھلےبیس سالوں میں ۹۶ ڈالر سے بڑھ کر ۱۵۲۷ ڈالرتک پہنچ گئی
ہے اور قومی معیشت کا حجم بھی کئی گنا بڑھا ہے لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک
تلخ حقیقت ہے غریب عوام کی دگرگوں صورتحال کےباوجود سال ۲۰۰۹ ميں مجموعی
قومی پیداوار کا محض ۲ء۱ فيصد حصہ صحت کے شعبے پر صرف ہوا۔ہندوستان کے ان
قبائلی علاقوں کےعوام جو معدنیات کی دولت سے مالامال ہیں سب زیادہ مفلسی کا
شکارہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہاں نکسل تحریکوں کومقبولیت حاصل ہے چونکہ وزیر
اعظم نکسلیوں کے چیلنج کو سب سے بڑی دہشتگردی قراردیتے ہیں اور وزیر داخلہ
کے ان بین الاقوامی سرمایہ کاروں سے گہرے مراسم ہیں جو قبائلی زمینوں پر
اپنی نظریں جمائے ہوئے ہیں اس لئے ممکن ہے انسداد دہشتگردی کے اس مرکز کا
اصل نشانہ نکسل تحریکات اور ان کی حمایت کرنے والےمفلس لوگ ہوں ۔اگر ایسا
ہوا تو حکام کو یاد رکھنا چاہئے کہ :
توکیوں بے دخل کرتا ہے مکانوں سے مکینوں کو
وہ دہشت گرد بن جاتے ہیں جن کے گھر نہیں رہتے |