حقائق

وطن عزیز پاکستان لاکھوں قربانیاں دے کر حاصل کیا گیااسلئے کہ یہاں پر ہم قران وسنت کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کریں اور کسی کے محتاج نہ رہیں، اسی بات کے تناظر میں پاکستان کا ایک مقصد لا الہ الا اللہ رکھا گیا تھا ۔مگر دشمنان پاکستان اور غداران وطن کی سازشوں نے پورے ملک و قوم کو ایک ایسے شکنجے میں جکڑا کہ ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے بجائے ہاتھوں میں کشکول اٹھائے دنیا میں یوں در بدر پھرتے نظر آتے ہیں، حکمرانوں نے چند سکوں کے عوض پوری قوم کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھوادیا،قوم کے کرتا دھرتا اپنے ملکی اور غیر ملکی اثاثہ جات میں روزبروز اضافہ کر رہے ہیں۔پوری قوم کے ہاتھ پاﺅں باندھ کر اسے مہنگائی، کرپشن اور بلیک مارکیٹنگ کی چکی میں پیس ڈالا۔کیا ہمارے آباﺅ اجداد نے قربانیاں اسلئے دی تھی کہ ہماری آنے والی نسلوں کو قرض میں جکڑ کر اغیارکا غلام بنادیں؟ اعلٰی ترین اداروں میں اربوں روپے کی کرپشن ہورہی ہے اس کو روکنا کسی کے بس کی بات نہیں صرف اس کرپشن کی روک تھام کر دی جائے تو پھر کسی آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی ضرورت باقی نہ رہے اور نہ کشکول اٹھائے دربدر پھرنا پڑے، ہمیشہ ڈیم کی مخالفت کرنے والے جب حالیہ بدترین سیلاب کا شکار ہوئے تو پکار اٹھے کہ کاش ڈیم ہوتے تو یوں برباد نہ ہوتے۔ وطن عزیز پاکستان کو بجلی کے جس سنگین بحران کا سامنا ہے اس کے تناظر میں تو کسی بھی ڈیم کی تعمیر میں روڑے اٹکائے نہیں جاسکتے، واپڈا کے اعلٰی حکام نے پارلیمنٹ کی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے یہ اعتراف کیا کہ بھاشا ڈیم کی تعمیر پر بھارت کے اعتراضات کی وجہ سے کی وجہ سے ورلڈ بنک نے اس کی تعمیر کیلئے قرضہ دینے سے انکار کردیا تو اسے موخر کردیا گیا، لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ واپڈا اس سلسلے میں دیگر کیا اقدامات کر رہا ہے،دوسری طرف حکومت رینٹل پاورپلانٹ کی رٹ لگائے ہوئے ارو ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے کے ہی باور کرایا جائے کہ موجودہ حالات میں یہی اس کا حل ہے اور اس کے بغیر شاید ملک کو اندھیروں سے نکالنے کا اور کوئی راستہ نہیں لیکن اندرون خانہ دال میں کچھ کالا ہے، جبکہ رینٹل پاور پلانٹ سے اتنی مہنگی بجلی جنریٹ ہوگی جو غالباََ مہنگائی کے مارے عوام کیلئے ا یک تازیانہ ثابت ہوگی، جبکہ ہرماہ بجلی کی قیمتوں میں جو اضافہ کیا جا رہا ہے وہ کس کھاتے میں جارہا ہے، اس پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں، مہنگائی کی بدترین صورت حال نے لوگوں کوخود کشیوں پر مجبور کردیا ہے، لوگ آخر کب تک خودکشیاں کرتے رہیں گے؟ کب تک اپنے لخت جگر بیچتے رہیں گے؟ کیا کسی کو اس بات کی فکر ہے؟ دوسری طرف ہمارے نظام تعلیم کا یہ حال ہے کہ یہاں کے سرکاری سکولوں میں حکومت کے اعلٰی عہدیدار تو ایک طر ف پہلے سکیل کا ایک عام ملازم بھی اپنے بچوں کو ان سکولوں میں داخل کروانا پسند نہیں کرتا، ہمارے وزرا، بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کے بچے تو غیرملکی یونیورسٹیوں اور کالجز سے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور پھر کچھ ہی عرصہ بعد وطن عزیز واپس آکر یہی لوگ ملک و قوم کی تقدیر لکھ رہے ہوتے ہیں، جن لوگوں کو ملک وقوم کی مٹی سے اتنا بھی پیار نہیں کہ وہ یہاں تعلیم حاصل کریں وہ ملک و قوم کے سیاہ سفید کے مالک بن جاتے ہیں، کتنے افسوس کا مقام ہے۔ ایک بار برطانیہ کے وزیراعظم نے اپنے بچوں کیلئے ایک ٹیوشن پڑھانے والے کا انتظام کیا تو ملک بھر میں ایک طوفان برپا ہو گیا کہ ہمارے ملک کے تعلیمی ادارے اتنے گئے گزرے ہیں کہ اب بچوں کیلئے ٹیوٹر کا انتظام کیا جا ئے اور تعلیمی ادارون پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جائے، تو مجبوراََ ٹیوٹر کو فارغ کرنا پڑا، جبکہ ہمارے ملک میں گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے۔ پاکستان کس طرف جا رہا ہے اس بات کا اندازہ تو ٹرانسپیر انٹر نیشنل کی اس رپورٹ سے ہوگیا ہے جس میں انہوں نے پاکستان کو کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں دوبارہ شامل کرلیا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ موجودہ سیلاب میں ڈوبے پورے ملک و قوم کو کوئی امداد دینے کو تیار نہ ہے، یہ ایک عدم اعتماد ہے کہ پیسہ ملک وقوم پر خرچ ہونے کے بجئے کرپشن کی نزر ہوجاتا ہے۔ اب تو ہمارا اخلاقی معیار اس قدر گر چکا ہے کہ اچھے برے کی تمیز ہی ختم ہوگئی ہے، کھبی ملک کے اعلٰی ترین عہدے پر فائز شخصیت کسی جعلی ڈگری ہولڈر کے جلسے سے خطاب کرتی ہوئی نظر آتی ہے تو کبھی وزیر صاحب کے خلاف مقدمات میں فیصلہ آنے کے فوراََ بعد جناب صدر اس کی اپیل سے پہلے ہی انکی سزا معاف کرنے کا حکم صادر فرما رہے ہوتے ہیں یا پھر ان کے اپنے ہی محکمے کے لوگ مقدمہ واپس لینے کیلئے عالت میں پہنچ جاتے ہیں۔ سوئس کیسز میں حکومت عدلیہ کی بات ماننے کے موڈ میں نظر نہیں آتی اور ملک کی اعلٰی ترین عدلیہ کو بار بار حکم دینا پڑتا ہے کہ تاخیر کا سبب بتایا جائے۔ کرپشن کی روک تھام کر نے والے ادارے نیب پر دباﺅ ڈال کر غیر اخلاقی فیصلے کروائے جاتے ہیں۔ مہنگائی اور غربت کی چکی میں پسے عوام کو نظر انداز کرتے ہوئے ہمارے وزیرقانون کرائے کے طیارے میں گھوم کر ملک بھر کی ایسوسی ایشنز میں رقوم تقسیم کرتے نظر آتے ہیں، جبکہ وزیر موصوف کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری پر بھی سوالیہ نشان ہے، ایک جعلی یونیورسٹی جس پر امریکی عدالت نے لاکھوں ڈالر جرمانہ عائد کیا تھا،کہ یونیورسٹی گھر بیٹھے جعلی ڈگریاں جاری کرتی ہے لیکن سب کچھ ہی نظر انداز کردیا گیا، اور موجودہ سیلاب نے تو سب کچھ ڈبو کر ہی رکھ دیا ہے کہ اب اسے جانے دو، آگے دیکھو۔ادھر صوبہ خیبر پختونخواہ میں ایک بار پھر ڈرون حملے شدت اختیار کر رہے ہیں‘ کیا دنیا کے دعویدار ملک کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ دوسروں پر اپنی مرضی ٹھونسے؟ اگر وہ نہ مانے تو فضاء سے ہی اسے ملیا میٹ کردیا جائے، مانا کہ شدت پسند عناصر موجود ہونگیں لیکن جو بے گناہ مارے جارہے ہیں ان کا کیا قصور ہے، کیا ان کا خون اتنا ہی ارزاں ہے؟
Ghazi Shahid Raza Alvi
About the Author: Ghazi Shahid Raza Alvi Read More Articles by Ghazi Shahid Raza Alvi: 7 Articles with 5795 views Chief Executive: Ghazi Group of Newspapers.
Chief Editor: Mubaligh Islamabad.
Writer of Well known Article "Black Out"
Chairman Action Committee: A
.. View More