پاکستانی عوام کی طرف سے میڈل
ملنے کے بعد ”خادم پاکستان“ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ
کے لارجر بنچ کی جانب سے بھی ”بد دیانت“ ہونے کا میڈل مل گیا‘ خبر کے مطابق
سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے قرار دیا کہ ”بادی النظر
میں وزیر اعظم دیانتدار ثابت نہیں ہوئے اور صدر پاکستان آصف علی زرداری نے
بھی حلف سے رو گردانی کی“ عوامی عدالت میں یہ بات بہت عرصہ پہلے ثابت ہو
چکی تھی کہ کون دیانتدار اور کون بد دیانت ہے‘ کس کس نے حلف سے رو گردانی
اور آئین کی خلاف ورزی کی‘ مزید برآں سپریم کورٹ کی جانب سے بد دیانت قرار
دیئے جانے کے بعد عوام کی عدالت کے ساتھ ساتھ آئینی عدالت نے بھی اس فیصلے
پر مہر لگا دی‘ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد صدر پاکستان اور وزیر اعظم نے
اتحادی جماعتوں و ممبران قومی اسمبلی سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں اور
”بچاﺅ“ کیلئے مشاورت کی‘ جبکہ دوسری جانب سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ
”تمام امور فریضہ سمجھ کر ادا کئے‘ بد دیانت کیسے قرار دیا گیا“؟ اب یہ بات
تو سپریم کورٹ کا لارجر بنچ ہی بتا سکتا ہے کہ اتنے ”دیانتدار“ وزیر اعظم
کو بد دیانت کیسے قرار دیا گیا‘ لالی ووڈ‘ بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کی طرح
پاکستان میں ایک سیاسی فلمی صنعت بھی ہے جس کو ”سیاسی ووڈ“ کہا جاتا ہے‘
سیاسی ووڈ میں بننے والی فلموں کا دورانیہ ”پانچ“ گھنٹے کا ہوتا ہے(یہاں
ایک گھنٹے سے مراد ایک سال ہے) پانچ گھنٹے کے دورانیے کی اس طویل فلم میں
اکثر یہ ہوتا آیا ہے کہ ”ولن “ یا تو فلم کا وقت ختم ہو جانے سے پہلے ہی مر
جاتا ہے یا پھر “ولن “ کو مجبوراََ فلم چھوڑنا پڑتی ہے جس کی وجہ سے ”سیاسی
ووڈ“ کی یہ فلمیں ماضی میں دو یا ڈھائی سال کے دورانیے کی ہی بنتی تھیں
لیکن 2008 ءمیں شروع ہونے والی ”سیاسی ووڈ“ کی نئی فلم ابھی جاری ہے اور اس
قدر طویل دورانیے کی فلم نے ناظرین (جن کیلئے یہ فلم دیکھنا مجبوری ہے) کو
اس قدر بور کر دیا ہے کہ وہ خود کشیوں پر مجبور ہو گئے ہیں۔
پھر اچانک سے ”سیاسی ووڈ“ کی اس شاہکار فلم میں ”ہیرو“ اپنا رول ادا کرنے آ
جاتا ہے اور وہ ”ولن“ کے گرد گھیرا تنگ کردیتا ہے اور ”ولن “ کے ”چیلے“ کو
6 آپشن ملتے ہیں جس کے مطابق قانون کے خلاف آئین سے انحراف پر کاروائی‘
یاران خاص کے خلاف توہین عدالت پر کاروائی‘ کرپٹ لوگوں کو پکڑنے والے ادارے
کے سربراہ کی رخصتی‘ کمیشن کا قیام یا فیصلے کو عوام پر چھوڑ دینا‘ ایسی
صورتحال میں ”ولن“ عوام کی طرف رجوع کرنے والے آپشن پر غور شروع کر دیتا ہے
کیونکہ اس کو اچھی طرح معلوم ہے کہ جس عوام کی وہ پہلے ہی اتنی ”دُرگت“ بنا
چکا ہے وہ عوام ان کے بارے میں کیا فیصلہ دے گی‘ اس تمام صورتحال پر گہری
نظر ڈالی جائے تو 2008 ءمیں شروع ہونے والی ”سیاسی ووڈ“ کی اس فلم کا
اختتام بھی مستقبل قریب میں ہوتا دکھائی دے رہا ہے‘ ناظرین (پاکستانی عوام)
کو اس فلم کے اختتام کا اتنی شدت سے انتظار ہے جیسے افریقی صحراء میں پیاسے
کو پانی ملنے کا انتظار ہو کیونکہ ناظرین اس فلم کو دیکھ دیکھ کر اس درجہ
ا’کتا گئے ہیں کہ وہ اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب کو بھی کاٹ کھانے کو
دوڑتے ہیں‘ فلم بنانے والے نے کمال فلم بنائی ہے اور ایک ہی فلم میں ناظرین
کی نفسیات پر اتنے گہرے اثرات چھوڑے ہیں کہ وہ حد درجہ کے نفسیاتی مریض بن
گئے ہیں۔
”سیاسی ووڈ“ کے فلمی حلقوں میں اس فلم نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کرنے میں
ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی تمام فلموں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے‘ مذکورہ فلم نے
”سیاسی ووڈ“ کی ٹاپ رینکنگ میں تا حیات پہلی پوزیشن حاصل کر لی ہے اور
گزشتہ 4 سالوں میں کھربوں ڈالر کا بزنس کرکے دنیائے سیاسے کو انگشت بدنداں
کر دیا ہے‘ سیاسی فلمی پنڈتوں کے مطابق اگر مستقبل قریب میں اس طرح کی ایک
اور فلم بن گئی تو ناظرین کو اللہ ہی حافظ ہے اور ناظرین کی خود کشیوں کی
رفتار 5000 میل فی گھنٹہ ہوجائے گی‘ فلم کی سب سے اہم بات جس نے ناظرین پر
سکتہ طاری کر دیا ہے وہ یہ ہے کہ جہاں فلم نے کھربوں ڈالر کا بزنس کیا وہیں
فلم کے کرداروں نے (ہیروکو چھوڑ کر) کھربوں ڈالر معاوضہ لیا اور ناظرین کو
روح افزاءتفریح مہیا کی‘ دوسری جانب ناظرین کے جوش و خروش کا یہ عالم ہے کہ
انہوں نے فلم کے اختتام کی دعا کیلئے اللہ کے حضور سر سجدے میں گرا دیئے
ہیں اور گڑگڑا گڑگڑا کر فلم کے اختتام کی دعا کر رہے ہیں‘ اس کے ساتھ ساتھ
ناظرین کو اس بات کا بھی انتظار ہے کہ ”ہیرو“ جو ان کی آخری امید ہے ناظرین
کو عذاب مسلسل سے نجات دلوانے کیلئے کونسا نیا قدم اٹھاتا ہے‘ امید ہے کہ
”ہیرو“ کی محنت اور ناظرین کی دعائیں ضرور ایک دن رنگ لائیں گی اور ناظرین
کو اس طویل ”بینڈ بجا دینے والی“ فلم سے چھٹکارا حاصل ہوگا۔ |