بسم اللہ الرحمن الرحیم
تفصیل واقعہ شہادت :
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے بیعت لینے کا حکم :
حاکم مدینہ منورہ کے نام یزیدکا حکم پر حکم آنے لگا کہ جہاں تک ہوسکے جلد
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے بیعت لی جائے ،اگر وہ میری بیعت سے انکار
کریں تو ان کا سر کاٹ کر جلد میرے پاس روانہ کردو ،میں تجھکوبہت سرفرازکروں
گا۔حاکم مدینہ منورہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو بلاکر عرض کیا کہ آپ
کے قتل کے متعلق احکام چلے آرہے ہیں ،حیران ہوں کہ کیا کروں ،کچھ تدبیر
سوجھتی نہیں ،حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا یزید بدعتی ‘شارب خمر
(شرابی) ہے، اس کے ہاتھ پر کس طرح بیعت کروں ‘عام مسلمانوں سے رائے لی جائے
،جو سب کی رائے ہوگی اس سے مجھ کوگریزنہیں ۔پھر یزید کا تاکیدی حکم آیا کہ
بیعت یا قتل ‘دونوں میں سے ایک فوراً ہونا چاہئے ‘حاکم مدینہ منورہ نیک نفس
تھا ‘اس نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو اسکی بھی خبر دی ۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی روضہ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری اور
دعا:
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ روضہ شریف پر گئے اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی قبر شریف سے لپٹ کر اس قدر روئے کہ درودیوار بھی روئے ،حضرت
امام حسین رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ‘نانا جان !حسین آپ پر قربان ‘ وہی حسین
آپ کا نواسہ ہے ‘ظالم یزید جس کے خون کا پیاسا ہے ، وہی حسین ہے جو آ پ کے
کاندھے پر سوار رہتا تھا،ا ب جدھر دیکھو اسکے دشمن ہی دشمن نظر آتے ہیں ،ناناکب
تک دشمنوں کا ظلم سہوں‘آپ مجھے تنہا چھوڑدیئے ہیں ،میری ماں (سیدہ فاطمۃ
الزہراء رضی اللہ عنہا)بھی نہیں ہیں کہ ان سے کچھ دل کا دردکہوں،میرے باپ (سیدنا
علی مرتضی رضی اللہ عنہ ) نہیں ہیں کہ جن کے سا میں رہوں،میرے بھائی (امام
حسن رضی اللہ عنہ )کو بھی آپ نے بلالیا۔اب میں بے کس وتنہا رہ گیا ہوں،کوئی
مونس وغمگسار دکھ درد سننے والا نہیں …کیا آپ نے مجھ کو اسی لئے پالاتھا
‘اسی دن کے واسطے میری ماں (سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا)دودھ پلائی
تھیں۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا خواب اور ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
روتے روتے قبر شریف پر سر رکھ کر سوگئے،خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرشتوں کی فوج لئے ہوئے تشریف لائے اور حضرت
امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک چھاتی سے لگا کر فرماتے ہیں بیٹا!اب
قریب ہے کہ میری امت کے لوگ کربلا میں تم کو پانی سے ترساکر تیروں کی بارش
برسائیں گے تم کو شربت شہادت پلائیں گے ۔بیٹا حسین !جنت میں بڑے بڑے درجے
ہیں ،جب تک سر نہ کٹاؤگے وہ درجے نہیں مل سکتے، تمہارے ماں وباپ تمہارے
دیکھنے کو بے قرار ہیں ،تمہارے بھائی تمہارے دیکھنے کو تڑ پ رہے ہیں ۔خواب
ہی میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ‘ناناجان!پھر حسین کو دنیا
میں جانے کی کیا ضرورت ہے ‘اپنے قبر میں لے لیجئے ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا :پیارے حسین صبر کرو ‘سفر کی تیاری کرو‘سرکٹاؤ‘اللہ کی رضا پر
راضی رہو۔ خوشخبری سن کر آپ سب رنج وگم بھول گئے ۔
کوفہ کو روانگی اور اہل مکہ کی ہمدردی:
مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ تشریف لے گئے،جب مکہ معظمہ سے کوفہ کا ارادہ
فرمائے تو اہل مکہ نے بہت روکا‘مگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نہ رکے ،اس
پر حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بہت بے تاب ہوکررونے لگے اور عرض
کیا !امام (رضی اللہ عنہ )جب آپ کو مکہ سے سفر کرنا ضروری ہے تو آپ یمن کی
طرف چلے جائیں ‘دشمن آپ کو تکلیف نہیں پہنچا سکیں گے ، حضرت امام حسین رضی
اللہ عنہ نے فرمایا سب سچ ہے مگر کیا کروں اس سفر میں ایک راز ہے جو حضرت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ہے جومیں کسی سے نہیں کہہ
سکتا اوربغیر کوفہ جانے کے رک نہیں سکتا‘عنقریب وہ رازکھل جائے گا۔حضرت ابن
عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ‘امام!اگر آپ کو جاناہی ہے تو مردوں کو لے
جائے …عورتوں ‘بچوں کو یں چھوڑجایئے ، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے
فرمایا‘ بھی نہیں ہوسکتاکیونکہ اللہ تعالی کی مرضی سب کو ساتھ لے جانے کی
ہے ۔
میدان کربلا میں تشریف آوری اور وہاں کی سختی:
منزلیں طئے کرتے ہوئے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کربلا کے میدان میں آگئے
ہیں ‘دشمنوں کا دریائے فرات پر پہلے ہی سے قبضہ ہوچکا ہے۔
حاکم کا حکم ہے کہ پانی بشر پئیں
گھوڑے پئیں سوار پئیں اور شتر پئیں
جو تشنہ لب جہاں میں ہووہ آن کر پئیں
حیوان پئیں پرندہ پئیں جانور پئیں
کافر تلک پئیں تو نہ تم منع کیجیو
پرفاطمہ کے لعل کو پانی نہ دیجیو
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ریت کے لق ودق میدان میں ڈیرے لگادئے ہیں ‘جن
میں نہ پانی ہے نہ درخت ‘جدھردیکھو سنسان سناٹا ہے ،ھوکا عالم ہے ،ہائے وہ
ریت کی دوپہر کی گرمی ‘رات بھر کی اوپیاس ‘ہائے رے وہ بے کسی وبے بسی ‘ہائے
وہ بے سروسامانی ‘ہائے وہ پیاس ‘وہ چہرے اداس‘وہ گرمی کے دن ‘وہ ننھے ننھے
پیا سے بچے‘نہ سینہ میں دودھ رہا نہ آنکھوں میں آنسو‘زبان پر مارے پیاس کے
کانٹے پڑگئے‘دودھ پیتے بچے مچھلیوں کی طرح تڑپنے لگے۔ حضرت علی اصغر رضی
اللہ عنہ شیر خوار ‘حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ بیمار‘اس پر سفر کی
حالت جس میں تھوڑی تکلیف بھی بہت معلوم ہوتی ہے، نمونہ حضرت امام حسین رضی
اللہ عنہ کی مصےبت کا۔ہائے غضب ادھر تو حالت کہ ساقی کوثر کے نواسہ کو پانی
کا قطرہ نہیں ‘دشمن صراحیوں میں پانی لئے دکھادکھا کر پےتے اور ہنستے تھے ۔
وہی حسین رضی اللہ عنہ ہیں جن کی شادی میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے سید شباب اہل الجنۃ (نوجوانانِ جنت کے سردار)ارشاد فرمایا ،بچپنے
میں اگر وہ حسین کہیں اکیلے نکل جاتے تو فرشتے اپنے پروں میں لیکر آپ کی
حفاظت کرتے تھے ۔ہائے وہ آج دشمنو ں کے نرغے میں ہیں‘ہائے حسین رضی اللہ
عنہ آپ نے کیا حسن وجمال پایاتھاکہ اندھیرے میں بیٹھتے تو چہرہ مبارک کی
چمک سے اندھیرے میں اجالا ہوجاتاتھا،ہائے اےسے مبارک چہرہ پر بہتر زخم ہیں۔
صاحبو ! حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ
کے ساتھ جو محبت تھی اس کا اندازہ اس سے کرو کہ جو بچہ حضرت امام حسین رضی
اللہ عنہ کے ساتھ اکثر کھیلا کرتا وہ اگر کہیں مل جاتا تو حضور صلی اللہ
علیہ وسلم اس کوبھی پیار کرتے اورفرماتے میرے حسین کے ساتھ کھلا کرتا ہے اس
کےلئے میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے ماں وباپ کی بھی۔
جنت کو جب معلوم ہوا کہ وہ مسکن فقراء ہے تو وہ آزردہ ہونے لگی ،اللہ تعالی
کا ارشاد ہوا‘کیاتو اس پر راضی نہیں کہ تیرے ارکان حسن وحسین (رضی اللہ
عنہما)کو بناؤں گا ،پھرتو جنت خوش ہوکر فخر کرنے لگی ،اگر جنت ہے تواس کے
ارکان حسن وحسین (رضی اللہ عنہما)ہیں‘اگر عرش ہے تو اس کے گوشوارہ حسن
وحسین (رضی اللہ عنہما)ہیں،اگرمسلمانوں کا دل ہے تو اس کی روشنی حسن وحسین
(رضی اللہ عنہما)کی دوستی سے ہے۔
اس شان کے حسین رضی اللہ عنہ دشمنوں کے نرغہ میں اتمام حجت کےلئے یزید کے
لشکریوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں :لوگو! ایک دن اللہ کے پاس جانا ہے ،حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کو منہ دکھانا ہے ،دنیا چند روزہ ہے ‘آخرت ہمیشہ کا
ٹھکانہ ہے ۔سبھوں نے سر جھکالیا اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے ڈیرے
میں واپس ہوئے۔
حضرت امام رضی اللہ عنہ کی کرامت سے دشمنوں کو انفرادی سزا :
محرم کی نویں تاریخ ہے ‘اشقیاء نے طبل جنگ بجایا جب حضرت امام رضی اللہ عنہ
نے فرمایا‘دیکھو نقارہ کیوں بج رہاہے ،اگر جنگ کے لئے بج رہا ہے تو ان سے
کہدو آج ہزار سرپٹک جاؤ گے ہمارا سرنہ پاؤگے ،کل یوم عاشورہ ہے البتہ کل
ہمارے لئے خاک وخون میں ملنے کا دن ہے ،آج میرے لئے شہادت کی رات نہیں ہے
بلکہ آج عبادت کی رات ہے ،اب چھ سات پہر تو جینا ہے آج رات بھر عبادت
کرلینے دو۔الغرض اس روز جنگ ملتوی ہوگئی اور آپ عبادت الہی میں مشغول
ہوگئے۔
حضرت سیدناامام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام قرابت داروں ‘دوستوں اور
غلا موں سے فرمایا میں تم سے خوش ‘اللہ اور رسول تم سے خوش ۔میں اں سے نہیں
جاسکتا ‘تم سب کو خوشی سے اجازت دیتا ہوں ۔تم سب اں سے چلے جاؤ،میرے ساتھ
تم جان مت کھپاؤ۔ سبھوں نے عرض کیا !اگر آج ہم آپ کو دشمنوں کے نرغہ میں بے
کس وبے بس چھوڑجائیں گے تو کل اللہ اور رسول کو کیا منہ دکھائیں گے ،پہلے
ہم سب آپ پر قربان ہوں گے تب کہیں آپ کی باری آئے گی۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے ڈیروں کے اطراف خندق کھدوائی اوراس
میں آگ جلائی تاکہ اشقیاء نہ آسکیں۔یزید کے لشکرسے مالک بن عروہ
گھوڑادوڑاتاہواآیا اور کہا کیوں حسین دوزخ میں جانے کے پہلے آگ میں جل رہے
ہو،حضرت مسلم بن عولجہ رضی اللہ عنہ نے چاہاکہ اس کی گردن اڑادیں ‘اللہ رے
امام عالی مقام کا حلم…آپ نے منع فرمایا اور کہا جنگ میں ہماری طرف سے سبقت
نہ ہونی چاہئے ، کہہ کر امام ہمام نے عرض کیا!خداوندا:سنئے کیا کہتا ہے
فوراً اس کے گھوڑے کو ٹھوکر لگی ‘خندق میں اوندھا گرا ‘دونوں لشکروں کے
سامنے جل کر راکھ ہوگیا،اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی کرامت اس طرح
ظاہر ہوئی۔
ابن اشعث ملعون بڑھا کہا جب دیکھو آپ اللہ اور رسول کو پکارتے ہو‘رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی کیا قرابت ہے ‘کیوں ڈینگیں ماررہے ہو،حضرت
امام حسین رضی اللہ عنہ نے عرض کیا!یااللہ کیا کہہ رہا ہے ،معاً اس کے پیٹ
میں درد اٹھااور پائےخانہ کی حاجت محسوس ہوئی ‘گھوڑے سے اتر کررفع حاجت کے
لئے بیٹھا ہی تھا کہ پائےخانہ کی جگہ ایک سیاہ بچھو ڈنک مارا‘ڈنک مارتے ہی
اس کو کچھ اس بلا کا زہر چڑھا کہ بول برازمیں لوٹ پوٹ کر مرگیا۔
یزید کے لشکر سے اورایک ملعون جعدہ آگے بڑھا اور کہا حسین دریا ہمارے قبضہ
میں ہے ‘تمہیں ایک قطرہ پانی نہیں ملے گا‘یوں ہی پیاسے مرجاؤگے ، کہتے ہی
اس ظالم کو کچھ ایسی شدت کی پیاس ہوئی کہ اس نے دریا میں منہ ڈالا مگرپیاس
نہ بجھی،آخر پیاس پیاس کہہ کر مرگیا۔
جاںنثار امام رضی اللہ عنہ کی معرکہ آرائی
حضرت عبد اللہ کلبی رضی اللہ عنہ کی جان نثاری :
| دس محرم کو حضرت امام عالی مقام کے جان نثاروں اور یزیدیوں نے حضرت امام
ہمام اور ان کے جان نثاروں کا محاصرہ کرلیا ،اس وقت حضرت عبد اللہ کلبی رضی
اللہ عنہ نے جو قریب میں بکریاں چرارہے تھے اپنی ماں سے کہا ‘ماں اگر تم
اجازت دیں تو میں اس وقت امام مظلوم کی مددکرتا ہوں ،ماں نے کہا :بیٹا زہے
نصیب‘ جلدی جاؤ اور امام مظلوم پر سے قربان ہوجاؤ، عبد اللہ کلبی رضی اللہ
عنہ اپنی تمام بکریاں راہ خدا میں دیکر اپنی ماں کو لئے ہوئے حضرت امام
ہمام رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ،ماں نے کہا ‘یا امام رضی اللہ
عنہ میں اپنے لڑکے کو آپ پر سے قربان کرنے لائی ہوں ،آپ بہت خوش ہوئے اور
دعائیں دیں۔ عبد اللہ کلبی رضی اللہ عنہ آتے ہی اشقیاء پرحملہ آور ہوئے اور
ستر آدمیوں کو مارکرآئے اور اپنی ماں سے کہے ‘اماں پیاس بہت لگ رہی ہے ،ماں
نے کہا‘بیٹا حوران بہشت شربت کے پیالے لئے کھڑی ہیں ‘جلدی جاؤ اور شہید
ہوجاؤ،آپ لوٹ گئے اور پچاس اشقیاء کو قتل کرنے کے بعد یزیدی نامردوں نے
چوطرف سے حملہ کرکے آپ کے سر کو تن سے جدا کیااور انکی ماں کی طرف پھینک
دیا،ماں نے اپنے بےٹے کا سر لے کر چوما اور سرکے بال پکڑ کر یزیدیوں کی طرف
اس زور سے مارا کہ وہ سر عمران دمشقی کے سر کو جا لگا ‘وہ بہت بڑا پہلوان
تھا ‘ سر اس کے سر کو لگ تے ہی اس کا سر پھٹ گیا اور وہ مرگیا پھر وہ ضعیفہ
ایک لکڑی کا ڈنڈا لے کر ڈوڑی ‘حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ بہت کچھ روکے کہ
بڑھیا تیرا کام نہیں ہے بیٹھ جا ‘بڑھیا نے کہا امام !اللہ کے لئے مجھ کو نہ
روکو ‘میں اں سے زندہ نہ جاؤں گی بلکہ شہید ہوجاوں گی ،حضرت امام حسین رضی
اللہ عنہ رونے لگی اور اس نے یزیدیوں پر حملہ کرکے تین آدمیوں کو قتل کیا
اور خود بھی شہید ہوگئی۔
اہل بیت کا سلسلہ شہادت
حضرت زید بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت :
زیدبن علی رضی اللہ عنہ میدان جنگ میں جانے کی اجازت مانگے ،حضرت امام حسین
رضی اللہ عنہ نے فرمایا کے تم اپنی ماں کو رنجیدہ نہ کرو ‘انہیں تمہارے سوا
کوئی بچہ نہیں ہے ،ماں نے عرض کیا!امام میرے بچہ کو اجازت دیجئے آپ کے
بعدہم جی کر کیا کرینگے،امام حسین رضی اللہ عنہ نے ان سے بغلگیر ہوکر بادل
ناخواستہ اجازت دی ،آپ نے جواں مردی کے جوہر ظاہر فرماکر جام شہادت نوش
فرمایا ۔
حضرت جعفر بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت :
حضرت جعفر بن علی رضی اللہ عنہ نے میدان کارزار میں جانے کی اجازت
چاہی‘حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کوئی مرد توگھر میں رہے تم
ایسانہ کرو‘اس پر آ پ نے شعر پڑھا:
حیاتی بدون لقائک ضائع
میری زندگی تمہارے بغیر بےکار ہے
وعیشی بغیروجہک باطل
میرا جینا تمہارے بغیر کس کام ہے
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے باربارعرض کرنے سے مجبوراً حضرت امام نے آپ کو
بھی اجازت دی‘آپ نے بھی آبائی شجاعت اوربہادری کا ثبوت دیکر بالآخر جام
شہادت نوش فرمایا۔
حضرت سیدنا قاسم رضی اللہ عنہ کی شہادت :
حضرت سیدنا قاسم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا !چچا مجھے بھی اجازت دیجئے ،حضرت
امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا بھائی حسن رضی اللہ عنہ نے مجھے تم پر
شفقت کرنے کی وصیت فرمائی ہے ،کل تمہارے والد حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو میں
کیا منھ دکھاؤں گا۔حضرت قاسم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا !شفقت یہ ہے کہ آپ
مجھکو تنہا نہ چھوڑجائیے‘اپنے ساتھ جنت میں لے چلئے ،حضرت امام حسین رضی
اللہ عنہ نے آبدیدہ ہوکراجازت دیدی،جب اجازت ملی میدان جنگ میں ہل چل مچ
گئی ‘ہڑار ہا یزیدی فی النار ہوگئے۔
اس کے بعد ارزق پہلوان حضرت قاسم رضی اللہ عنہ کے مقابلہ کے لئے اپنے ایک
ایک بےٹے کوبھےجا‘ہرایک خوب بہادری سے لڑا مگرحضرت قاسم رضی اللہ عنہ کے
مقابلہ میں کچھ نہ چلا‘دونوں بری طرح مارے گئے ،اس وقت ارزق کو تاب نہ رہی
‘غصہ میں بھراہواحضرت قاسم رضی اللہ عنہ کے مقابلہ کے لئے خود میدان جنگ
میں اترآیا،دونوں فوجوں کی نگاہیں حضرت قاسم رضی اللہ عنہ اورارزق پرلگی
ہوئی تھیں،ادھرامام حسین رضی اللہ عنہ دعافرمارہے تھے کے الہ العالمین !
میراقاسم تجربہ کار دشمن کے مقابلہ میں ہے ،آپ میرے قاسم کی مددکےجئے۔ارزق
کامقابلہ حضرت قاسم رضی اللہ عنہ سے شروع ہوا ‘ہرایک اپنی اپنی بہادری
دکھارہاتھا‘ارزق جووار کرتا حضرت قاسم رضی اللہ عنہ اس کو بہت پھرتی سے روک
دےتے تھے ،اس وقت حضرت قاسم رضی اللہ عنہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کی حدیث شریف یادآگئی کہ جنگ میں دھوکہ دیناجائزہے ،اس وقت حضرت قاسم رضی
اللہ عنہ نے ارزق سے فرمایا:اے ارزق!اے تجربہ کار پہلوان دیکھ تیرے گھوڑے
کا تنگ ڈھیلا ہوگیا ہے ‘عنقریب توزمین پرآتا ہے ‘وہ پریشان ہوکرجھک
کردیکھا‘حضرت قاسم رضی اللہ عنہ اس پر تلوار چلادئے،حضرت قاسم رضی اللہ عنہ
کے وار کو نہ روک سکا ‘اس کا سرکٹ کر زمین پرگرا‘حضرت قاسم رضی اللہ عنہ کی
پھرتی کو دیکھ کردشمن بھی تعریف کرنے لگے۔
پھرتو سب یزیدیوں نے چوطرف سے ایک بار حملہ کردیا،یہ خدا کے شیرحضرت قاسم
رضی اللہ عنہ جدھر رخ کرتے ادھر دشمن (شیرکے سامنے جیسے بکریاں بھاگتے ہیں
ویسا)بھاگتے تھے ‘آخر چوطرف سے تیروں کی بوچھاڑہونے لگی ،بالآخر حضرت سیدنا
قاسم رضی اللہ عنہ جام شہادت پی کرزمین پرآرہے۔ اسکے بعد آپ کے بھانجہ عون
جعفر رضی اللہ عنہ بھی دادشجاعت دے کرجنت کوسدھارہے۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی شہادت:
:حضرت سکینہ رضی اللہ عنہا کا پیاس سے تڑپنا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے
دیکھانہ گیا‘بھیڑچیرتے د ریائے فرات پر پہونچے ‘خود کو پانی پینے کاخیال
آیا مگرنہ پیئے اورفرمایا:آہ سکینہ پیاسی ہواورمیں پانی پیوں،پانی کی مشک
لئے آرہے تھے کہ ظالم نے ایک ہاتھ قلم کردیا تو دوسرے ہاتھ میں مشکیزہ لے
لیا‘جب وہ بھی قلم ہوگیاتودانتوں سے تھام کرلارہے تھے ،تھوڑی دور بھی نہ
جاسکے تھے کہ ظالموں نے مشکیزہ کوتےروں سے چھید دیااور حضرت عباس رضی اللہ
عنہ کوشہیدکردیا،پانی ڈیرے تک نہ پہونچ سکا‘حضرت سکینہ رضی اللہ عنہا رورہی
تھیں کہ افسوس پانی کے لئے میں نے چچاکوکھودیا۔
حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ کی شہادت :
رَن (لڑائی )میں پھرایک شیر کے آنے کی دھوم ہے ،ارے وہ کون؟رسول اللہ صلی
اللہ علیہیہ وسلم کے ہم شکل کے آنے کی دھوم ہے۔سب کا خاتمہ ہوگیا ‘علی اکبر
رضی اللہ عنہ نے بڑھ کر عرض کیا!سب قربان ہوچکے اب غلام باقی ہے ‘مجھے آپ
کی تنہائی دیکھی نہیں جاتی ‘مجھے بھی اجازت دیجئے ،حضرت امام حسین رضی اللہ
عنہ نے فرمایا بیٹا ! اٹھارہ سال کی کمائی کیا کربلا میں لاتے ہو ‘مدینہ
منورہ جاؤ۔
حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا! آپ کے بغیر ایک لحظہ بھی دنیا میں
نہ رہوں گا۔کیا ظالموں کے ہاتھ مجھکوتنہا چھوڑکرجاتے ہو؟ ادھر ماں بھی تڑپ
کر رونے لگیں تو حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
سرکو کٹانا کام ہے ہمارا اماں جان
گھرکو لٹانا کام ہے ہمارا اماں جان
تلواریں کھانا کام ہماراہے اماں جان
امت چھڑانا کام ہمارا ہے اماں جان
پیاسے کھڑے ہیں دشت میں اسوقت بابا جان
چاروں طرف سے تیروں کی بوچھار ہے اماں جان
جب حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ کی آہ وزاری اور عاجزی حد سے بڑھ گئی تو
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ خود اپنے دست مبارک سے آپ کے جسم اطہر
پرہتھیار باندھے اوراجازت دی ۔
حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ رخصت ہوکر میدان جنگ میں آئے ‘ہم شکل پیغمبر کی
آمد آمدہے ‘وہ آتے ہیں کہ جب کسی کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد آ
تی توحضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ کودیکھ لیتے اور انکی باتیں سنا کرتے ۔غرض
حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ رخصت ہوکر میدان جنگ میں آئے۔
عبداللہ بن زیاد نے ایک شخص سے کہا کہ حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ سے کہو
ذرا اپنے چہرے سے نقاب اٹھائیں ‘اس لئے کہ جمال مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
کے دیکھنے کا بے حد اشتیاق ہے ،حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ جب چہرۂ مبارک
سے نقاب اٹھایا‘یزید کے تمام لشکری آپ کی صورت دیکھ کر روپڑے‘ہرطرف سے رونے
کی آوازےں آنے لگیں،شمر لعین نے غضبناک ہوکر کہااےسی شفت تھی توتم نے ےہ
کام کیا ہی کیوں اور انکے اتنے آدمی کیوں مارے…چلوہوشیارکہہ کر اپنی فوج
کوحملہ کا حکم دیدیا۔حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ نے بھی وہ حےدری زور
دکھایاکہ دوسونابکاروں کوجہنم رسیدکرکے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس
آئے اور کہے :اباجان!پیاس کی سخت تکلےف ہے ،حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے
انکواپنی زبان چسوائی ‘آپ پھر میدان میں تشریف لاکر مرد مقابل طلب کیا‘کسی
کوجرأت نہیںہورہی تھی ‘خود لشکر پرگرے بجلی تھی کہ چمک رہی تھی ‘جس طرف رخ
کرتے الامان کی صدابلندہوتی، مردوں کے ڈھےرلگ گئے ‘گھوڑا موڑکرتشریف لائے
اور عرض کیا‘اباجان!پیاس سے جان جارہی ہے ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی چسائی‘کچھ تسلی ہوئی ۔
پھرمیدان جنگ میں آئے ‘طارق بن مثبت کوسپہ سالارنے کہا تجھے اس شرط پرموصل
کی حکومت دلاتا ہوں کہ اس شاہ زادہ ٔ حسین رضی اللہ عنہ یعنی علی اکبر رضی
اللہ عنہ کوشہید کردے ‘سپہ سالار نے قسم کھائی اور اپنی انگوٹھی طارق کودی
،تب کہیں موصل کی حکومت کی آرزومیں طارق حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ کے
مقابل آیااور حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ پرنیزہ چلایا،آپ نے اس کا نیزہ
روک کراس پھرتی سے اپنانیزہ چلایا کہ طارق کے سینہ سے پارہوگیا،حضرت علی
اکبر رضی اللہ عنہ گھوڑے کوایڑھ دےکر چلے ‘طارق نیزہ کولگاہواتھا‘گھوڑے کی
دوڑمیں طارق چورچور ہوگیا۔طارق کا بیٹا مارے غصہ کے میدان میں آیا‘حضرت علی
اکبر رضی اللہ عنہ کا دامن پکڑ کرکھینچنا چاہتاتھا کہ آپ نے اس چستی
وچالاکی سے اس کوزین سے اٹھاکر زمین پردے مارا کہ لشکر سے شور اٹھا‘مارے
ہیبت کے کسی میں سامنے آنے کی تاب نہ رہی ،پھر سپہ سالار نے مصراع کو
بڑھایاوہ بھی نیزہ چلایا‘حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ نے اس کے نیزہ کوتلوار
پر اس طرح لیا کہ اس کا نیزہ کٹ گیا‘وہ تلوار پرہاتھ ڈالا‘ابھی کھینچ نے
بھی نے پایاتھا کہ حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ نے اےسی تلوار چلائی کہ وہ
مع زین کے دوٹکڑے ہوکر زمین پر گرپڑا۔
اب نابکار اکیلے نہ آسکے ‘دوہزار سواروں کوحکم ہوا کہ ایک ساتھ حملہ کردیں
،حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ ایسے معلوم ہورہے تھے کہ بھوکا شےربکریوں
پرگراہے ،قلب لشکر تک پہنچ گئے ‘پھر پلٹ کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے
پاس آئے ،پیاس کی شکایت کی ‘حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا
:بیٹاکچھ فکر نہ کرو ‘کوئی دم میں حوض کوثر پر پہونچ کر سیراب ہوجاؤگے ۔آپ
پھر لوٹے اور چوطرف حملہ کررہے تھے کہ ابن خمیر نامرد نے دھوکہ سے نیزہ
مارا ‘منقذ ملعون نے تلوار کا وار کیا ‘حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ گھائل
ہوکر گھوڑے سے گرپڑے اور اپنے والدسیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کوپکارے
…حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ آپ کو اٹھالائے اور لٹاکر سرگود میں لے کر
فرمائے بیٹا! میرے دل کے آرام ذرا باپ سے بات تو کرو،حضرت علی اکبر رضی
اللہ عنہ نے آنکھےں کھول دیں ۔دیکھا کہ باپ کے گود میں سرہے ،ماں اور بہنیں
روتی کھڑی ہیں ،فرمائے‘اباجان آسمان کے دروازے کھلے ہیں ‘حوران بہشت شربت
کے پیالہ لئے منتظر کھڑی ہیں ،یہ فرمارہے تھے کہ روح اطہر پروازکرگئی ۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا:بیٹا تم بھی دوسرے جہاں میں رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں پہونچ گئے ۔
حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ کی شہادت :
بے دودھ کے علی ا صغر پر پانی کے تین دن گذر چکے تھے ، حضرت امام حسین رضی
اللہ عنہ نے خیال فرمایا اشقیاء شاید معصوم بچہ پر تورحم کرینگے ‘ شقیوں کی
طرف لے چلے ‘ماں نے کہا ‘یاامام !علی اکبر کی طرح اس کو بھی کھوکر نہ آنا
‘حضرت سکینہ رضی اللہ عنہا نے اپنے والدحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے عرض
کیا کہ بھائی کوجلد لاؤ ‘اصغر کا جھوٹابچاہواپانی مجھ کو لاکر پلاؤ ،بچہ کو
لئے ہوئے میدان کارزار میں تشریف لائے اور فرمائے کہ لوگو!اس بچہ کا کیا
قصور ہے ‘پیاس سے اسکی جان نکل رہی ہے ‘ایک قطرہ توپانی کاٹپکادو‘ایک ظالم
نے تیرمارا حلق چھید گیا ‘اسی حالت سے خیمہ میں لائے،ماں نے پوچھا کیا پانی
پلاکر لائے؟ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں آب کوثر پلاکر لایا
ہوں۔
صاحبو!آپ سونچوسابق کی آیت میں جو(نقص من الاموال والانفس والثمرات
)مذکورہے ‘حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ پر حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ کی
شہادت سے ثمرات کی تباہی صادق آرہی ہے جواس آیت میں مذکور ہے سب کی آپ
پرآزمائش ہوچکی۔
ہاں ائے خلیل آتش نمرود دیدۂ
ایں شعلہ جبیں کہ درجگر شاہ کربلاست
حضرت خلیل نمرود کی آگ کے شعلوں کوآپ نے دیکھا ہے، شاہ کربلا کے جگرمیں
حضرت اصغر کی شہادت سے جوشعلے بھڑک رہے ہیں اس کوبھی دیکھئے،ان شعلوں کے
سامنے نمرود کی آگ کے شعلے کچھ بھی نہیں۔
حضرت شہر بانو کا خواب :حضرت شہربانو نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے
کہا کہ آج رات میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ
عنہا دامن کمرسے باندھے کربلا کی میدان میں جھاڑو دے رہی ہیں ،کنکر‘ پتھر‘
کچرا‘ کوڑا اٹھارہی ہیں ،میں نے عرض کیا کہ آپ یہ کیا کررہی ہیں
؟فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا نے فرمایا :میرابچہ حسین (رضی اللہ عنہ) کل
شہید ہوگا اور زخمی ہوکر اسی میدان میں گرے گا ،میں کنکر پتھر اس لئے چن
رہی ہوں کہ میرے لعل کوچبھنے نہ پائیں ،اس کے بعد حضرت شہر بانو نے عرض
کیا‘یاامام !آپ تو رن (میدان جنگ )میں جارہے ہیں مگر یہ خواب کچھ اور ہی
بات بتلارہا ہے، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ یہ سن کر خاموش رہے۔
شہادت سیدناحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ
صاحبو! ذرا مصر کی عورتوں کو دیکھوکہ ایک مخلوق کے عشق میں تو انکو اپنے
ہاتھوں کے کٹنے کی کچھ خبر نہ اس کے دردکی کوئی تکلیف ۔خالق کے عشق میں
ڈوبے ہوئے کوکیا پوچھتے ہو‘حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اس وقت غایت عشق
الہی میں وبے ہوئے ہیں،خوف ‘جوع ‘نقص ‘انوال ‘نقص ثمرات ‘سب کا امتحان
ہوچکا …اب جان کی باری ہے ‘جہاد اکبر میں توپہلے ہی شہید ہوچکے تھے ‘اب
جہاد اصغر میں شہید ہوتے ہیں ۔سب کو غم ہے مگر حضرت سیدنا امام حسین رضی
اللہ عنہ خوش ہیں کہ بہت دن سے ہجرکے صدمہ سہتے رہے،اب وصال ہوتا ہے :
عاشقاں را شاد مانی وغم اوست
دست مزدواجرت خدمت ہم اوست
غیرمعشوق گرتماشائے کہ بود
عشق نہ بود ہرزہ سودائے بود
عاشقان الہی کو عشق الہی میں جوتکلیف پہونچتی ہے اس سے ان کو تکلیف نہیں
ہوتی بلکہ خوشی ہوتی ہے ،عاشقان الہی کوعشق الہی میں جوجوتکلیف ہوتی ہے
اسکی اجرت اللہ تعالی ہی کوسمجھتے ہیں۔معشوق کے سواء اگر عاشق الہی کا کوئی
اورمقصود ہو تووہ عشق نہیں‘بےہودہ خیالات ہیں،اس لئے کہ عشق الہی میں سب
کچھ کھونا اور اس سے لذت لیناہی عشق ہے ۔
آپ کے جان نثار سب کے سب شہید ہوچکے ،اب کوئی رکاب پکڑنے والا بھی نہ رہا
،حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ڈیڑے کے پاس آکر رخصت ہوتے ہیں ،چھوٹی
صاحبزادی سیدہ سکینہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں بابا کہاں جاتے ہیں؟سب
بھائی‘سب چچا‘جاکر شہید ہوگئے،کیا آپ بھی جاکر شہید ہوجائینگے؟مرنے میں کیا
مزہ ہے ‘کیوں سب جاکر خوشی سے شہید ہورہے ہیں ۔سیدنا امام حسین رضی اللہ
عنہ نے کوئی جواب نہ دیا اور میدان جنگ میں تشریف لائے۔ یزیدیوں نے کہا ‘آپ
جنگ شروع کیجئے ،حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا:مجھے اپنے
ناناسیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شرم آتی ہے ‘ناناکل قیامت
میں فرمائیں گے ‘میری امت پرتلوار کیوں اٹھایا تومیں کیا جواب دوں گا…پہلے
تم ہاتھ چلاؤ‘پھرمیں مجبور ہوکرحملہ کروں گا۔ظالموں نے ان اخلاق حمیدہ کی
کچھ قدرنہ کی‘یہ اخلاق تھے اہل بیت کے۔
تن تنہا ایک امام ہیں،لاکھوں کی فوج سے مقابلہ ہے ۔چوطرف سے تیر‘بھالے
اورتلواربرس رہے ہیں ‘صرف چہرہ ٔ مبارک پربہتر(72)زحم آئے۔
الغرض آپ گھوڑے سے گرتے ہی شمر لعین سینہ مبارک پرچڑبیٹھا‘آپ نے پوچھاکیا
وقت ہے؟اس ملعون نے کہا آج جمعہ ہے ،خطیب خطبہ پڑھرہاہے،آپ نے
فرمایامنبرپرخطیب سوار ہے میرے نانا کاخطبہ پڑھ رہاہے اورتونبی صلی اللہ
علیہ وسلم کے نواسہ کے سینہ پرسوار ہے تجھے شرم نہیں آتی۔
شمرلعین نے جلدی سے گلاکا ٹنا چاہا‘ایک بال بھی نہ کٹا‘آپ نے فرمایا:تومیرا
گلا کیا کاٹ سکتا ہے جس حلق کومیرے نانانے بوسہ دیا ہے ‘وہ نہیں کٹ
سکتا،ٹھیرمیں نمازپڑھتاہوں اور امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے نماز شروع
فرمائی۔
حضرت امام رضی اللہ عنہ نے سجدہ کئے‘شمرلعین نے گردن کاٹ لی اورامام عالی
مقام نے جنت کی راہ لی۔
اناللہ واناالیہ راجعون |