بیسویں آئینی ترمیم کی منظوری
کیلئے36 کروڑ 61 لاکھ کا مُک مکا
پیر20فروری کو سینٹ میں بیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے جو شرمناک
ڈرامہ کھیلا گیا اور جس طرح حکومت نے 36کروڑ 61 لاکھ روپے کی ”سیاسی رشوت“
متروک فنڈبحالی کے نام پر سینیٹروں میں تقسیم کرکے دو بار موخر ہونے والی
یہ ترمیم منظور کرائی،اُس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ننگی،بہری اور بے شرم کرپشن
ہمارے سیاسی نظام کی نہ صرف وجہ شناخت اورطرہ امتیاز بن چکی ہے،بلکہ یہ
ہمارے معاشرے میں اِس بری طرح رچ بس گئی ہے کہ اِس سے چھٹکارا پانے کا کوئی
امکان نظر نہیں آتا،سچ کہتے ہیں مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑتی ہے،جب
حکمران طبقہ اور معزز ارکان ِپارلیمان ایمان داری،اعلیٰ کردار نگاری اور
اصول پرستی کی مثال قائم کرنے کے بجائے بے ایمانی اور بے اصولی کو اپنا حق
اور استحقاق سمجھنے لگیں تو پھر عوام الناس سے کسی بہتری اور اچھائی کی
توقع رکھنا کارِ عبث ہے،یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں ہر سطح پر لوٹ
مار،بدعنوانی اور کرپشن کی گنگا بہہ رہی ہے،ہر طرف لوٹ کھسوٹ اور خرید
وفروخت کا بازار گرم ہے اورلوگ بکاؤ مال بنے بے ایمانی اور ضمیر فروشی کی
بدترین مثالیں قائم کررہے ہیں ۔
اِس ترمیم کی منظوری میں سب زیادہ تکلیف دہ اَمر یہ رہا کہ منتخب ایوانوں
میں عوام کی نمائندگی کرنے والے اِن اراکین کی عوامی مسائل کے حل میں
دلچسپی کا اندازہ اِس اَمر سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومتی اتحاد ہی
نہیں،بارگیننگ کی پوزیشن پر آنیوالے اپوزیشن جماعتوں کے اراکین بھی 20ویں
آئینی ترمیم کو عوام کے روٹی،روزگار اورمہنگائی جیسے گھمبیر مسائل اور
توانائی کے درپیش سنگین بحران کے حل کے ساتھ مشروط کرانے کے بجائے صرف اپنے
ترقیاتی فنڈز کے اجراء میں دلچسپی لیتے نظر آئے،بدقسمتی سے اِس عمل میں
اسلامی انقلاب اور صالح و دین دارقیادت کی دعویدار جماعت اسلامی کے وہ
دوارکان بھی شامل تھے،جنھوں نے بظاہر تو ترمیم کی مخالفت میں ووٹ دیا،مگر
متروک ترقیاتی فنڈ کے اجراءکو اپنا استحقاق سمجھا اور جواز یہ پیش کیا کہ
حکومت نے یہ فنڈز کافی عرصے سے روک رکھے تھے،جو اب 20ویں آئینی ترمیم کے
موقع پر جاری ہوئے ہیں،لیکن جب بعد میں میڈیا کی طرف سے سوالات اٹھائے جانے
لگے تو جماعت اسلامی کے سینیٹر پروفیسر خورشید احمد فرمانے لگے کہ جماعت
اسلامی کے سینیٹر اپنے حصے کے ترقیاتی فنڈز وصول نہیں کرینگے،سوال یہ ہے کہ
کیا اب فنڈ وصول نہ کرنے سے وہ داغ دھل جائے گا جو لگ چکا ہے اور کیا اِس
وضاحت سے حقیقت تبدیل ہوجائے گی۔؟حد تو یہ ہے کہ اِن صاحب کردار اراکین میں
ملک کی متبادل قیادت سمجھی جانیوالی مسلم لیگ (ن) کے ارکان بھی شامل
تھے،جنھوں نے قومی اسمبلی میں بھی حکومت کو اِس ترمیم پر اتفاق رائے والے”
مک مکا“ کی سہولت فراہم کی اورکسی نے بھی عوامی مسائل اور ملکی ابتری کے
خلاف کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں کی،محض اپنے ترقیاتی فنڈز کے اجراءکی
خاطر اپنی بارگیننگ پوزیشن مضبوط بنانے کیلئے دو روز تک20ویں آئینی ترمیم
موخر کراتے رہے،اِس تمام قضیئے میں مزید طرفہ تماشا یہ ہوا کہ سینٹ کے وہ
20 اراکین جن کی رکنیت آئندہ چند روز میں ختم ہونے جارہی ہے،وہ بھی قومی
خزانے کی اِس لوٹ مار اور بندر بانٹ میں اپنا حصہ بقدرِ جثہ وصول کرتے نظر
آئے،یوں عوام کی فلاح و بہبود کے نام پر اراکین سینٹ کی فلاح و بہبود کا یہ
کار ِثواب عین اُس وقت انجام پایا،جب ملک کے مفلوک الحال عوام 12 سے
18گھنٹے روزانہ کی اذیت ناک لوڈشیڈنگ کے ساتھ غربت،بے روزگاری اور مہنگائی
کے عذابوں کے ساتھ انتظامیہ کی لاٹھیاں اور آنسو گیس کے شیل بھی برداشت
کررہے ہیں ۔
لیکن چونکہ مفادات مشترکہ تھے،اِس لیے وزیر اعظم کے حکم پر60 اراکین سینٹ
کو ترقیاتی فنڈز کے نام پر قومی خزانے سے خطیر رقم جاری کرکے ایک نیا
ریکارڈ قائم کردیا گیا اور 20ویں آئینی ترمیم منظورکرلی گئی،حالانکہ یہ وہی
آئینی ترمیم تھی،جس پر سینٹ میں حکومتی اتحاد کی بعض جماعتوں نے شدید
اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے بعد
اسپیکر کی قائم کردہ کمیٹی کی ناکامی کی صورت میں نگران وزیراعظم کے تقرر
کا اختیار پارلیمنٹ کے بجائے الیکشن کمیشن کو کیوں دیا گیاہے؟ یہ اختیار
الیکشن کمیشن کو نہیں ملنا چاہیے،اِن اراکین کی جانب سے دوسرا اعتراض یہ
بھی اٹھایا گیا تھاکہ” اگر وزیراعظم یا وزیراعلیٰ اسمبلی توڑ دیتے ہیں تو
اسمبلی باقی نہیں رہے گی،ایسی صورت میں اسپیکر کیسے کمیٹی بناسگے گا؟ “یہاں
یہ اَمر بھی قابل ذکر ہے کہ حکومتی اتحاد کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں
اٹھائے جانے والے اعتراضات پر ارکان کو مطمئن نہیں کیاجاسکا،چنانچہ قائد
ایوان کی تجویز پر چیئرمین کو آئینی ترمیمی بل پر غور موخر کرنا
پڑا،صورتحال کا یہ دلچسپ پہلو بھی سامنے رہے کہ جو دو بڑے اعتراضات اٹھائے
گئے،وہ سرکاری ہینچوں کے بعض اراکین کی طرف سے پیش کئے گئے تھے، جس سے واضح
ہوتا تھا کہ قومی اسمبلی کی متعلقہ کمیٹی نے عجلت میں بعض ابہام چھوڑ دیئے
اور اِس کے تمام پہلوﺅں پر غور نہیں کیا،اب اگر ایوان بالا قومی اسمبلی کے
منظورکردہ اِس ترمیمی بل کے سقم کو دور کرنے کیلئے مزید کوئی ترمیم کرتاہے
تو اسے دوبارہ منظوری کےلئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کرنا ہوتا،یہ
صورتحال اِس اَمر کی غمازی کررہی تھی کہ سینٹ سے بل کی متفقہ منظوری بہت
مشکل ہے،مگر36کروڑ 61 لاکھ روپے کے متروک فنڈز کے اجزاءنے حکومت کی یہ مشکل
حل کردی اور محض پانچ گھنٹوں کے اندر اندر 20ویں آئینی ترمیم دوتہائی
اکثریت سے منظورکرلی گئی ۔
لیکن 20ویں آئینی ترمیم کے اِس موقع پرحکومت کی جانب سے متروک فنڈز کا
اجراءشکوک و شہبات کے ساتھ کئی سوالات کو بھی جنم دیتا ہے،کیایہ فنڈز پہلے
جاری نہیں ہوسکتے تھے،یہ بھی ہوسکتا تھا کہ آئینی ترمیم کی منظوری کے چند
دن بعد جاری کردیئے جاتے،ایسی کوئی ہنگامی صورتحال تو نہ تھی،جب گذشتہ تین
سال سے پیپلزورکس پروگرام کی مد میں یہ ترقیاتی اسکیمیں متروک تھیں تو اب
اچانک اِن متروک ترقیاتی اسکیموں کی منظوری کس بنیادپر دی گئی،اگر یہ
منصوبے عوامی فلاح و بہبود کے تھے توکیوں تین سال تک عوام کو اِن منصوبوں
سے محروم رکھا گیا،کیوں اِس فنڈ کو عین 20 آئینی ترمیم کے موقع پر جاری کیا
گیا،کیوں اُن سینیٹرز کو بھی اِس فنڈز کا حصے دار بنایا گیا جن کی رکنیت
آئندہ چند روز میں ختم ہونے والی ہے،ایسے میں ریٹائر ہونے والے سینیٹرز کے
ترقیاتی فنڈزکے استعمال کی نگرانی کون کرے گا؟اور اِس بات کی کیا ضمانت ہے
کہ یہ فنڈز عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر ہی خرچ ہونگے۔؟یقینا یہ سارا
عمل شکوک و شبہات سے بالاتر نہیں،خود سینیٹرطاہرمشہدی فنڈزکے اجراءپر حیرت
کا اظہار کرتے ہوئے تصدیق کرتے ہیں کہ کچھ سینیٹروں نے فنڈز کے اجراءکو
بیسویں ترمیم کی منظوری سے مشروط کیاتھا،سینیٹر مشاہد اللہ کہتے ہیں کہ کچھ
سیاسی جماعتوں نے فنڈز جاری کرنے کا مطالبہ کیاتھا،وہ خود بھی اِس فنڈ کو
اپنا حق قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت کواختیارہے کہ وہ ”لیپس“ ہوجانے
والے فنڈز دوبارہ جاری کرسکتی ہے،اِس تناظر میں سینئرمسلم لیگی رہنما
کبیرعلی واسطی کی جانب سے اٹھایا گیا سوال نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ
سینیٹروں نے ایسا کون سا کارنامہ سرانجام دیاہے کہ اُن کو یہ انعام دیا
گیا؟ کبیرعلی واسطی تو سارے عمل کو قبل ازوقت انتخابی دھاندلی قرار دیتے
ہوئے عدالت عظمیٰ سے نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں،انہوں نے یہ پیش
گوئی بھی کی ہے کہ پیپلزپارٹی انتخابات سے قبل دھاندلی کے حوالے سے ایسے
کئی اعلانات کرے گی جس سے آنے والی حکومت کیلئے مسائل میں اضافہ ہوگا ۔
اَمرواقعہ یہ ہے کہ وزیراعظم صاحب لاکھ دعویٰ کریں کہ 20 ویں آئینی ترمیم
کی منظوری سے جمہوریت مضبوط ہوئی ہے اور آئندہ انتخابات صاف و شفاف ہوں
گے،وزیراعظم اورقائد حزب اختلاف اپنی ”داڑھی“ کسی اورکے ہاتھ میں نہیں دیں
گے،اب کسی پر دھاندلی کا الزام نہیں آئے گا،لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِس ترمیم
کے ذریعے ایک آزاد اور طاقتور الیکشن کمیشن کے قیام اور غیرجانبدارنگران
حکومت سے زیادہ اُن 28ارکان پارلیمان کی بحالی ممکن ہوئی ہے جنہیں سپریم
کورٹ نے غیر آئینی قرار دے کر معطل کر دیا تھا اور اُن کی بحالی آئینی
ترمیم سے مشروط کر دی تھی،ہم سمجھتے ہیں کہ اِس ترمیم کی منظوری کے دوران
حکومت نے ارکان کی حمایت حاصل کرنے کےلئے جو طریقہ اختیار کیا یا ارکان نے
جس طرح اپنے مطالبات منظور کروائے،اسے کسی طور بھی جمہوری اور شفاف نہیں
قرار دیاجاسکتا،یقینایہ ایسا افسوسناک عمل ہے جسے ارکان کی حمایت خریدنے یا
ارکان کی جانب سے بلیک میلنگ کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جاسکتا،جب
جمہوریت کی مضبوطی،صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد اور دھاندلی کے الزامات
سے بچاؤ کی بنیاد سینٹ اور اسمبلیوں میں موجود ارکان کو کروڑوں روپے کے
فنڈز جاری کرکے رکھی جائے اور پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں موجود حکومتی اور
اپوزیشن جماعتیں آئندہ انتخابات میں بھی اپنے اپنے حصے کی بندر بانٹ پر
متحد و متفق ہوں توا یسی صورت میں اِن انتخابات کے منصفانہ ہونے کی بھلا
کیسے توقع کی جا سکتی ہے۔؟
ہمارا سوال یہ ہے کہ کیااِس سے سیاست کو کاروبار بنانے کا تصور پختہ نہیں
ہوتا،جب خود حکمران طبقات قومی دولت و وسائل کی لوٹ مار کے کلچر کو فروغ
دینے کا سبب بنیں تو کسی صورت اِس کلچر کے سدباب کی صورت نہیں نکل سکتی اور
نہ ہی آئندہ میرٹ پر عوام کے حقیقی نمائندوں کے انتخاب کی توقع کی جا سکتی
ہے،کیونکہ مذکورہ آئینی ترمیم میں ایسا کوئی جادو پوشیدہ نہیں جس کی بنیاد
پر آئندہ صاف اور شفاف الیکشن ہوسکیں اورکسی پردھاندلی کا الزام بھی نہ
لگے،حقیقت یہ ہے کہ 20ویں آئینی ترمیم کے ذریعے جو” مک مکا“ ہوا ہے وہ عوام
کے نام پر باہمی مفادات کی رکھوالی ہے،سب نے قومی خزانے کی لوٹ مار میں نہ
صرف اپنا اپنا حصہ وصول کیا بلکہ عوامی مسائل کے حل کےلئے آواز اٹھانے
والوں کو جمہوریت کیخلاف سازشیں کرنیوالے عناصر کا لیبل لگا کر اُن پر
ایوان اقتدار کے دروازے بھی بند کر دیئے ہیں،ایسی صورت میں عوام اِس باہمی
مفاداتی کلچر کے ماتحت اپنے حالات میں کیونکر تبدیلی کی توقع کر سکتے ہیں
جبکہ عوام کے اِن منتخب نمائندوں نے ملک اور قوم کو درپیش گھمبیر مسائل کے
حل کیلئے کبھی بھی اتفاق رائے کا مظاہرہ نہ کیا ہو،اَمر واقعہ یہ ہے کہ
سلطانی جمہور کا کلمہ پڑھنے والوں نے ہمیشہ عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھ کر
نظرانداز کیاہے،ہمیشہ اپنے مفادات کے خاطر باہم متحد ومنظم اور شیروشکر رہے
ہیں اور کبھی بھی اِس معاملے میں اُن کے درمیان نظریاتی اور سیاسی اختلاف
آڑے نہیں آیا ہے،لہٰذا اِس تناظر میں اٹھارویں آئینی ترمیم ہو یا انیسویں،
بیسویں ترمیم ہو یا آنے والی 21ویں ترمیم،اِن تمام ترامیم سے صرف حکمران
طبقات کے باہمی مفادات کو تحفظ دینے والا نظام تو مضبوط ہوسکتا ہے،مگر ملک
و قوم کے مسائل حل نہیں ہوسکتے ۔ |