بلوچستان میں امریکہ کی دلچسپیاں
بلاوجہ ہرگز نہیں ہیں۔ ہندوستان اور امریکہ کی دوستی ہے، دونوں حلیف ہیں،
ہندوستان اور اسرائیل کی بھی دوستی ہے اور دونوں حلیف ہیں جبکہ ایسی ہی
صورتحال ہندوستان اور افغانستان کی بھی ہے، نیز امریکہ کی پالیسیاں بھی
یہودیوں کے ہاتھوں میں ہیں، امریکہ، ہندوستان اور اسرائیل کی ”ٹرائیکا“کبھی
بھی ایک ایسے پاکستان کو برداشت کرنے کو تیار نہیں جو داخلی و خارجی لحاظ
سے امن کی حالت میں ہو، جہاں امن و امان کے مسائل نہ ہوں اور جہاں وفاق کی
ساری اکائیاں آپس میں تعلقات سے مطمئن ہوں۔ یہ ہمیشہ سے اس ٹرائیکا کی
اولین خواہش رہی ہے کہ پاکستان مسائل کے گرداب میں اسی طرح پھنسا رہے تاکہ
وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرتے رہیں، ظاہر ہے اگر ایسا
نہ ہو اور پاکستان کم از کم داخلی لحاظ سے مستحکم ہو جائے ، آپس کے
اختلافات باہمی بات چیت سے حل ہوجائیں تو نہ فوج کو دخل اندازی کی ضرورت نہ
ایجنسیوں کو من مانی کرنے کی حاجت لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم سب
کچھ امریکہ، ہندوستان اور اسرائیل کے ذمہ ڈال کر فارغ ہوجائیں۔ تینوں تو
ہمارے دشمن ہیں اور دشمن کا کام ہی یہی ہے کہ وہ دشمنی کرے، ہم جانتے بھی
ہیں کہ ہمارے دشمن کس قدر کمینے اور ”گھنے“ ہیں پھر بھی اگر ہم ان کو موقع
پہ موقع فراہم کریں اور یہ سوچیں کہ وہ ہمیں ایسے ہی چھوڑ دیں گے تو ہم سے
بڑا احمق کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ غلطی سراسر ہماری اور ہمارے بڑوں کی ہے
جنہوں نے اپنی بداعمالیوں، حریصانہ اور صرف اپنی ذات کے لئے سوچنے کی عادت،
برادری، مسلک کو اولیت دینے کی سوچ ، اپنے آپ کو بڑا اور دوسرے کو چھوٹا
سمجھنے کی سوچ کی وجہ سے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک کے ساتھ ایسے ایسے
گھناﺅنے افعال سرانجام دئے کہ بس اللہ کی پناہ! اب تک جو کچھ پورے پاکستان
کے ساتھ اور خصوصی طور پر بلوچستان کے ساتھ ہماری ”بہادر افواج“ ، ”معاملہ
فہم سیاستدانوں“ اور ”زیرک ایجنسیوں“ نے کیا ہے اس کا کفارہ شائد نہیں بلکہ
یقینا پوری قوم کو کئی برس تک ادا کرنا پڑے گا۔ متذکرہ بالا تینوں ادارے
ایسے ہیں کہ ان میں سے ایک نے بھی اپنا کردار پوری ایمانداری سے ادا کیا
ہوتا تو ہمیں آج اس طرح کے حالات سے واسطہ نہ پڑتا۔
اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے قطعی طور پر فرما دیا ہوا ہے کہ کسی گورے کو کالے
پر، عربی کو عجمی پر ہرگز کوئی فوقیت حاصل نہیں، اگر اللہ کے نزدیک فوقیت
کا کوئی معیار ہے تو وہ صرف اور صرف تقویٰ ہے۔ پاکستان کی ریاست اسی لئے
بنائی گئی تھی کہ یہاں اسلامی اصولوں کے مطابق آئین و قوانین مرتب ہوں گے
تاکہ ریاست کے سارے عوام آپس میں بھائی چارے کی فضاءبنا کر اپنی زندگیاں
گذار سکیں اور ریاست کو بہترین شہری مل سکیں۔ اگر اسلامی اصولوں کی روشنی
میں دیکھیں تو کم از کم مجھے تو شرم آتی ہے بلکہ گھن آتی ہے کہ ہم نے آج تک
نہ تو مشرقی پاکستان کے حادثے سے کوئی سبق سیکھا اور نہ پوری دنیا کے
مسلمانوں کے بارے میں امریکہ کے کردار سے۔ ہم اس مگر مچھ سے دوستی کے چکر
میں اپنوں کو قربان کئے چلے جارہے ہیں، ہمارے حکمران خواہ وہ سیاستدان ہوں
یا فوجی، ”ڈالرکی تلاش“میں اتنے دور نکل چکے ہیں کہ اب ان کی واپسی مشکل ہی
نہیں بلکہ ناممکن دکھائی دیتی ہے، اکبر بگٹی کی شہادت ہو، قبائل کے ساتھ
معاندانہ پالیسیاں ہوں یا بلوچستان کے باسیوں کے حقوق کی بات ہو، نہ ہماری
سیاسی قیادت کچھ سوچتی ہے نہ فوجی، نہ عوام کچھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں نہ
خواص، رہی بات ایجنسیوں کی تو آج تک یہ ہی پتہ نہیں چل سکا کہ آخر وہ
ایجنسیاں جو کسی بھی ریاست کی آنکھیں اور کان ہوتی ہیں، جو ہر وقت چوکس
ہوکر ریاست کی سلامتی اور تحفظ کے لئے کام کرتی ہیں، انہیں آخر ہو کیا گیا
ہے، کیا حکومتیں بنانا، انہیں پچھاڑنا اور فوجی گملوں میں سیاستدانوں کی
آبیاری کرنا ہی ان کا کام رہ گیا ہے یا اس ریاست، اس وطن کی سالمیت اور اس
کا تحفظ ان کا کام ہونا چاہئے؟
اگر بلوچستان کی موجودہ حالت کا ذکر کریں تو آخر بلوچستان کے باسیوں، وہاں
کے نوجوانوں کو یہ ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ وہ اسلحہ اٹھائیں، اپنے حقوق
حاصل کرنے کے لئے قتل و غارت کے بازار گرم کریں، مبینہ طور پر غیروں کے آلہ
کار بنیں؟ مان لیا کہ بلوچستان میں ہندوستان بھی سرگرم ہے اور امریکہ بھی
لیکن انہیں اتنی ”سپیس“ فراہم کس نے کی؟ ہم آخر یہ کیوں نہیں سوچتے کہ کیا
وجہ ہے کہ امریکن کانگریس میں بلوچستان کے متعلق قرار داد کے خلاف پورے ملک
میں احتجاج ہوالیکن بلوچستان میں نہیں۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ بلوچستان
میں دوسرے ملکوں کی خفیہ ایجنسیاں فوج اور ایف سی کے روپ میں کارروائیاں
کرتی ہیں اور وہاں سے لوگوں کو اٹھا لیتی ہیں، اگر یہ سچ ہے تو ہماری
ایجنسیاں اور سکیورٹی ادارے کیا نیند کی حالت میں ہیں کہ ان کو پکڑتے نہیں؟
یہ ہماری خفیہ ایجنسیوں اور سکیورٹی سے متعلقہ اداروں کی بہرحال ناکامی تو
ہے....! کیا یہ سچ نہیں کہ پچھلے چھیاسٹھ برس میں ہم سے مجرمانہ غفلتیں اور
کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں، ہمارے سیاستدانوں سے، ہماری اسٹیبلشمنٹ سے اور
ہماری فوج سے خاص طور پر! اگر صوبہ سرحد کا نام تبدیل کیا جاسکتا ہے، اگر
پنجاب میں سرائیکی صوبے کی بات سنجیدگی سے کی جاسکتی ہے، اگر ہزارہ صوبہ کا
سوچا جاسکتا ہے تو بلوچ عوام کے کیا مطالبات ہیں جو بندوق کی نوک پر ہی
رکھے جاتے ہیں؟ کیا صرف میڈیا کو روک کر ہم حالات صحیح ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ
سکتے ہیں جیسا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت ہوا تھا، نہیں ہرگز
نہیں!کیا ہماری عدلیہ کی بحالی میں بلوچ عوام کی جدوجہد اور قربانیاں شامل
نہیں تھیں، کیا بلوچستان پاکستان کا حصہ نہیں اور کیا بلوچستان کے لاپتہ
افراد انسان نہیں ہیں، اگر ایسا ہے اور یقینا ہے تو کیوں سپریم کورٹ بھی اس
بارے میں سنجیدگی سے کارروائی نہیں کرتی؟ چیف جسٹس صاحب سمیت تمام جج
صاحبان کو بھی ضرور غور کرنا چاہئے، ایجنسیوں کی طرف سے سیاستدانوں کو رقوم
دینے کا کیس بھی اب سماعت کے لئے آہی رہا ہے اس کے ساتھ بلوچستان پر ایسا
کمیشن بنایا جائے جس میں ایجنسیوں کے لوگوں کو ان کے ظلم و تشدد کی وجہ سے
ان کو ملزم ٹھہرانے، مجرم ثابت کرنے اور سزا دینے کا اختیار بھی ہو، بلوچوں
کو ان کے جائز حقوق کے ساتھ ساتھ ان پر ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ بھی
کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین اس ملک میں بہت ہیں، بس نیت ٹھیک کرنے، اغیار کی
پالیسیوں کو رد کرنے اور اپنے بھائیوں کو اولیت دینے کی ضرورت ہے۔ سلگتے
ہوئے بلوچستان پر پانی ڈالنے کی ضرورت ہے نہ کہ مزید پٹرول چھڑکنے کی،
پھونکوں سے یہ آگ نہیں بجھ سکے گی، اس کے لئے پانی درکار ہوگا، پوری قوم کے
آنسوﺅں کا پانی، محنت کے پسینے کا پانی، اس آگ کو بجھانے کے لئے اگر ہمیں
پاکستان کے قیام سے زیادہ محنت کرنا پڑے تو کرنی چاہئے، امریکہ میں پیش کی
گئی حالیہ قرارداد نے ہمیں بطور قوم شائدآخری موقع فراہم کردیا ہے کہ ہمارے
”بڑے“ سر جوڑ کر بیٹھیں، بلوچستان کے باسیوں کی جائز و ناجائز سنیں اور ان
کے حقوق انہیں دیں، ورنہ خاکم بدہن ہمیں سوائے پچھتاوے کے اور کچھ حاصل
نہیں ہوگا اور خدانخواستہ کہیں شرمندگی کا پسینہ اور لاحاصل پچھتاوے کے
آنسوہی نہ رہ جائیں۔ |