ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ
قومی اسمبلی کی جو کمیٹی پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کے لئے قائم کی گئی تھی،
اس کے اجلاس میں ارکان کو بتایا گیا کہ آئندہ ہفتے پٹرولیم کی قیمتوں میں
اضافہ کردیا جائے گا۔ خبر میں ارکان اسمبلی کے کسی رد عمل کی اطلاع نہیں ہے،
بعید نہیں کہ کوئی رد عمل ظاہر ہی نہ کیا گیا ہو۔ ایک رکن نے کہاکہ پٹرولیم
کی قیمتوں پر سیلز ٹیکس فکس کیا جائے، ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کی جائے خواہ
وہ علامتی ہی کیوں نہ ہو(؟؟)۔ سیکریٹری پٹرولیم نے بتایا کہ چونکہ عالمی
مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافہ ہوچکا ہے، اس لئے ہمیں بھی مجبوراًً یہ کام
کرنا پڑے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ”پارلیمانی کمیٹی کا رول صرف اپنے لئے
تالیاں بجھوانا نہیں ہونا چاہیئے، حکومت مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کے لئے ہر
ممکن اقدامات کئے جارہے ہیں، تمام فیصلے قومی مفاد میں ہونگے۔ موجودہ حکومت
عوام کو مشکل میں دیکھ کر تکلیف محسوس کرتی ہے، دوسری طرف حکومت کو مالی
مشکلات کے باوجود اقتصادی ترقی کے تسلسل کو برقرار رکھنا ہے۔ محدود وسائل
کے پیش نظر سبسڈی دی جاتی ہے، یہ یا تو عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر پور
ی کی جاتی ہے یا بیرونی دنیا کے آگے ہاتھ پھیلا کر حاصل کئے گئے قرضے اسی
مد میں خرچ کئے جاتے ہیں، دونوں صورتوں میں بوجھ آخر عوام پر ہی پڑتا
ہے“کمیٹی نے یہ بھی طے کیا کہ آئندہ اجلاس میں پٹرولیم کی قیمتوں سے متعلق
فیصلہ کر لیا جائے گا۔
ہم یہاں یہ اندازہ تونہیں لگا سکتے کہ قیمتیں کم کروانے والی کمیٹی جب
قیمتوں میں اضافہ کی خبر لے کر باہر آئی ہوگی تو ان کے دل و دماغ پر کیا
گزری ہوگی، وہ پریشان ہوئے یا پھر افسروں اور افسرنماوزیروں کی باتیں سن کر
لاجواب اور بے بس ہوگئے، یا ان حضرات کی ’مدلل‘ گفتگو سن کر ان کے نظریات
کے قائل ہوگئے۔ کمیٹی پر ایک اہم انکشاف یہ بھی کیا گیا کہ حکومت عوام کو
مشکل میں دیکھ کر تکلیف محسوس کرتی ہے اور یہ بات تو اور بھی دلچسپ ہے کہ
حکومت مالی مشکلات کا بھی شکار ہے اور محدود وسائل کے باوجود سبسڈی دے رہی
ہے ۔ خدایا ! جس ملک میں حکمرانوں کے لاکھوں روپے کے روزانہ مستقل اخراجات
ہوں، جن کی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے پر بھی لاکھوں ہی اجڑتے ہوں، جن کا
رہن سہن شاہانہ ہو، جن کی اربوں کی کرپشن کے قصے عام ہوں، جن کے آگے پیچھے
دسیوں گاڑیاں پروٹوکول کے نام پر سفر کرتی ہوں، ایسی حکومت مالی مشکلات کا
شکار ہے؟ یہ محدود وسائل کے لچھن ہیں، بھئی اگر وسائل محدود ہیں اور مالی
مشکلات کا سامنا ہے تو حکومت کچھ کفایت شعاری کا سوچے، کچھ فضول خرچی پر
قابو پانے کی کوشش کرے، کچھ اللے تللوں کو روکے، کچھ عیاشیوں میں کمی کرے ،
کچھ اپنو ں کو نوازنے سے ہاتھ روکے۔ کیا فرماتے ہیں سرکاری دانشور بیچ مالی
مشکلات کے مسئلے کے؟
کیا کمیٹی کے سربراہ ریاض حسین پیرزادہ نہیں جانتے کہ پٹرول گاڑیوں میں
جلتا ہے ، اور گاڑیوں کی عیاشی پر کس طرح کنٹرول کیا جاسکتا ہے، وہ خود تو
پروٹوکول کے قائل نہیں ہیں، تو پھر عیاشی کرنے ، دوستوں کو نوازنے اور
پروٹوکول وغیرہ کے نام پر چلنے والی گاڑیوں پر پابندی کیوں نہیں لگواتے،
اگر آج حکومت سنجیدگی سے تمام سرکاری گاڑیوں کو صرف سرکاری کاموں کے لئے
پابند کردے ، تو حکومت کو پٹرولیم کی قیمتوں پر سبسڈی دینے کی ضرورت بھی
نہیں رہے گی۔ یا پھر دیگر معاملات کی طرح سپریم کورٹ آف پاکستان از خود
نوٹس لے کر سرکاری گاڑیوں کے ذاتی استعمال پر نہ صرف پابندی لگا دے بلکہ
ایسے جرم کا ارتکاب کرنے والے افراد کو بھاری جرمانے اور جیل کی سیر بھی
کروادے تو قوم بھی سکھ کا سانس لے گی اور پٹرول کی قیمتیں بھی قابو میں
آجائیں گی۔جب حکومتیں خود کچھ نہیں کرتیں تو پھر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس
پر تنقید کرنے کا بھی انہیں کوئی حق حاصل نہیں۔یہ بھی خوب کہی کہ آئندہ
اجلاس میں فیصلہ کرلیا جائے گا، بھلا کمیٹیاں بھی کبھی فیصلوں کے لئے بنائی
جاتی ہیں؟ |