اگر پاکستان بچانا ہے تو امریکہ سے تعلقات ختم اور سفیرکو ملک بدر کیاجائے

تحریر : محمداسلم لودھی

ایرانی صدر نے بالکل بجا کہاہے کہ پاکستان امریکہ کو بلوچستان میں قونصل خانہ قائم کرنے کی اجازت نہ دے ۔ ایرانی صدر کے بقول امریکہ نہ صرف بلوچستان میں جاری علیحدگی کی تحریک کو مزید شدت میں بدل کر بلوچستان کو الگ کر سکتا ہے بلکہ ایران کو ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچا سکتا ہے ۔اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ امریکہ پاکستان کا بدترین دشمن اور ایران بہترین دوست ہے جو ماضی حال اور مستقبل میں بھی آزمائش کی ہر گھڑی میں پاکستان کے شانہ بشانہ ساتھ کھڑا ہوسکتا ہے ۔ جبکہ امریکہ دوستی کی آڑ میں ہمیشہ کی طرح پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا تا چلا آیاہے اس کے برعکس ایران سے دوستی نہ صرف پاکستان کے بنیادی مسائل کا حل ثابت ہو سکتی ہے بلکہ دفاعی اور معاشی اعتبار سے بھی پاکستان کو ایک با اعتماد اور قابل بھروسہ دوست میسر آ سکتاہے ۔ ماضی میں پاکستان کے خلاف جتنی بھی علیحدگی کی تحریکیں چلیں ان کی پشت پر امریکی کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے ہی دکھائی دیتی ہے ۔ امریکہ نے پہلے پاکستان کو اپنی جنگ میں ملوث کرکے معاشی اور سیاسی اعتبار سے تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کیا ہے اور اب بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بہانہ بناکر کانگریس میں قرار داد پیش کرکے پاکستان کی سا لمیت کے خلاف کھلی جنگ کا اعلان کردیا ہے بظاہر قرار داد کے تناظر میں امریکی رہنماﺅں کے بیانات معاملے کی سنگینی کم کرنے کے درپے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں موجود امریکی سفارت خانہ اور قونصل خانے وطن عزیز کے خلاف ہر سطح پر سازشوں کا جال بچھاکر اسے جلد سے جلد ختم کرنے کا پختہ عزم رکھتے ہیں ۔اس کے باوجودکہ ایرانی صدرکے دورے کے موقع پر پاکستانی رہنماﺅں کی جانب سے اس امر کا اظہار باعث تشکر ہے کہ ایران پر حملے میں وہ امریکہ کی عملی اور اخلاقی حمایت نہیں کریں گے اورنہ ہی ایران سے گیس حاصل کرنے کے پراجیکٹ کو امریکی دباﺅ پر منسوخ کریں گے لیکن امریکی کانگریس میں بلوچستان کے حوالے سے پیش کی جانے والی قرار داد کی صرف مذمت ہی کافی نہیں ہے بلکہ پاکستان کی سلامتی اور بقا کے حوالے سے یہ معاملہ اس قدر سنگین ہے کہ سفارتی تعلقات کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے امریکی سفیر کو فوری طور پر پاکستان چھوڑ دینے کا حکم دے دینا چاہیئے تھا تاکہ امریکہ کو پاکستان کے خلاف کی جانے والی اپنی مکروہ حرکتوں کی سنگینی کااحساس ہو جاتا ۔ بلکہ موقع غنیمت جانتے ہوئے دہشت گردی کی نام نہاد جنگ سے ہاتھ کھینچتے ہوئے نہ صرف ڈرون حملوں کی مزاحمت کااعلان کردیا جاتا اور ساتھ ساتھ زمینی اور فضائی حدود کے ذریعے نیٹو سپلائی کو یکسر بند کردیناچاہیئے تھا ۔ لیکن افسوس کہ ابھی تک پاکستان کی جانب سے انتہائی نرم زبان میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور قائمقام امریکی سفیر کو احتجاجی مراسلہ تھما کر معاملے کو رفع دفع کردیاگیا ہے لیکن حقائق بتاتے ہیں کہ احتجاج کے باوجود امریکہ بلوچستان میں انسانی حقوق کا معاملہ کسی نہ کسی بہانے اقوام متحدہ میں ضرور اٹھائے گا اور پھر سلامتی کونسل سے قرار داد منظور کرواکے پاکستان پر فوج کشی بھی کر کے دوستی کی سزا بھی دے گا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایرانی صدر نے یہ کہہ کر پاکستانی حکمرانوں کو متوقع حالات کی سنگینی سے بروقت آگاہ کردیا ہے کہ پاکستان کو بلوچستان میں امریکی قونصل خانہ قائم کرنے کی اجازت ہرگزنہیں دینی چاہیے وگرنہ نتائج کا ذمہ دار پاکستان خود ہوگا ۔ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ دنیا بھرمیں امریکی سفارت خانے تخریب کاری اور سازشوں کاگڑھ بن چکے ہیں اوراس کا عملی اظہار پاکستان میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے جہاں سفارت کاروں کے روپ میں سی آئی اے کے ایجنٹ نہ صرف زر خرید غلام سیاست دانوں اور سیکورٹی اداروں میں ایجنٹوں کا جال بچھا چکے ہیں بلکہ بدنام زمانہ بلیک واٹر تنظیم کے ہزاروں خونخوار کارندے سرزمین پاک پر اپنی کاروائیاں ملک بھر میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔جی ایچ کیو مہران نیول ائیربیس سمیت افواج پاکستان کے افسروں اور جوانوں پر کامیاب حملوں میں یہی امریکی ملوث ہیں جو سفارت کاروں کا لیبل ماتھے پر چسپاں کرکے اپنی مذموم کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور سفارت خانہ انہیں ریمنڈ ڈیوس کی طرح مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے ۔ کیا یہ بات افسوس ناک نہیں کہ ایک جانب امریکہ جانے والے ہر پاکستانی مرد و زن کی جسمانی سکینگ کی جاتی ہے تو دوسری جانب پاکستان میں اسلحے سمیت واردات کرتے ہوئے جوامریکی پکڑے جاتے ہیں انہیں امریکی سفارت خانے کے حکم پر باعزت طور پر رہاکردیا جاتا ہے ۔ اب جبکہ یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ امریکہ پاکستان کو نہ صرف معاشی اوردفاعی اعتبار سے ناقابل تلافی نقصان پہنچانا چاہتا ہے بلکہ بلوچستان کو الگ کرکے پاکستان کی سا لمیت کو تباہ کرنے کا تہیہ کرچکا ہے ۔ ان حالات کا تقاضا یہی ہے کہ پاکستان کو ایران ترکی ٬ چین اور سعودیہ سے دفاعی معاہدہ کرتے ہوئے امریکہ سے مکمل طور پر قطع تعلق کرلینا چاہیئے کیونکہ جب تک سرزمین پاک پر امریکی سفارت خانہ اور قونصل جنرل کے دفاتر موجود رہیں گے ملکی سا لمیت کے خلاف سازشوں کے جال بنے جاتے رہیں گے ۔ایران اگر اب تک امریکی سازشوں سے محفوظ ہے تو اس کی وجہ سرزمین ایران پر امریکی سفارت خانے کی عدم موجودگی ہے ۔ اگر اب بھی پاکستانی حکمرانوں نے نرم لہجے میں امریکہ سے احتجاج تک خود کو محدود رکھا تو مجھے ڈر ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ ( جو اس کا ذیلی اور طفیلی ادارہ ہے) کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں کوئی قرار داد نہ پاس کروا لے اور اگر ایساہوگیا تو بلوچستان میں مداخلت کا موقعہ امریکہ کے ہاتھ لگ جائے گا اور بلوچستان( جسے کھربوں ڈالر کی معدنی دولت کے حوالے سے سونے کی چڑیا کا خطاب دیاجاسکتا ہے) وہ پاکستان سے خدانخواستہ علیحدہ ہوکر ہمیشہ کے لیے امریکہ کے تسلط میں چلاجائے گا اور باقی ماندہ پاکستان اپنی اہمیت اور افادیت خود بخود کھو دے گا ۔حکمران حالات کی سنگینی سے نظریں چراتے ہوئے 20 ویں ترمیم پاس ہونے کا جشن منا رہے ہیں لیکن وطن عزیز کو درپیش چیلنج اور بحران دن بدن کچھ اس طرح بڑھتے جارہے ہیں کہ ان پر قابو پانا شاید اب کسی کے پاس کی بات نہ ہو ۔بہتر یہی ہے کہ حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے امریکہ سے مکمل طور پر جان چھڑا لی جائے اور پاکستان میں اس کا سفارت خانہ اور قونصل خانے ہمیشہ کے لیے بند کردیئے جائیں ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 126787 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.