جمہوری درویش اور فقیر پاکستانی

 شیخ شرف الدین سعدی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ شام کے بادشاہ ملک الصالح ایوبی کی ایک عادت تھی کہ رات کو بھیس بدل کر شہر میں گشت کیاکرتاتھا تاکہ لوگوں کے دکھ درد خود معلوم کرسکے ایک رات وہ حسب معمول شہر میں گھوم رہاتھا کہ اس نے مسجد میں دوررویشوں کو دیکھا جو ایک کونے میں بیٹھے سردی سے ٹھٹھر رہے تھے اوربادشاہ کو کوس رہے تھے ایک درویش دوسرے کو کہہ رہاتھا کہ ہمارا متکبر بادشاہ خود تو عیش کررہاہے اور ہم غریب زمانے کی سختیاں جھیل رہے ہیں اگر آخرت میں بھی اس بادشاہ کو بہشت میں جگہ ملی تو میں بہشت پر اپنی قبر کو ترجیح دو ں گا دوسرا درویش کہنے لگا کہ اگر ملک الصالح بہشت کی دیوار کے قریب بھی آئے گا میں جوتے مار کر اس کا سر پھوڑ ڈالوں گا بادشاہ ان کی باتیں سن کر چپکے سے واپس آگیا صبح ہوئی تو اس نے دونوں درویشوں کو دربار میں طلب کیا جب وہ حاضر ہوئے تو انکو بڑی تعظیم وتکریم دی اور پھر ان کو اتنا کچھ دیا کہ وہ عمر بھر کے لیے فکر معاش سے آزادہوگئے ان میں سے ایک نے بادشاہ سے عرض کی کہ جہاں پناہ ہم خادموں کا آپ کو ایسا کیا پسند آیا کہ اس قدر الطاف واکرام کے مستحق ٹھہرائے گئے بادشاہ ہنس پڑا اور کہنے لگا

من امروز کردم درصلح باز
تو فردا مکن در بردیم فراز

یعنی میں نے آج تم سے صلح کرلی ہے امید ہے کل تم مجھ پر جنت کا دروزاہ بند نہیں کرو گے

قارئین ”طبلے والی سرکار “بلی مارکہ کمانڈو جناب جنرل مشرف کے خلاف جب وکلاءنے آزادی عدلیہ کی تحریک کا آغاز کیا تو کسی کے بھی وہم وگمان میںبھی نہ تھا کہ اس قدر مضبوط آمر کی کرسی اقتدار کو کوئی خطرہ لاحق ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تحریک زور پکڑتی گئی اور جنرل مشرف کی غلطیوں ہی کی وجہ سے وہ دن آیا کہ جب لیاقت باغ میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا خون اس انداز سے گرا کہ جنرل مشرف کے اقتدار کا خاتمہ اسی خون سے تحریر کردیاگیا بینظیر بھٹو شہید کے قتل میں جنرل مشرف کو بھی مجرم گردانا گیا اور اس وقت کی برسراقتدار سیاسی قوت مسلم لیگ (ق) کو پیپلزپارٹی کے جیالوں اور ”کھپے والی سرکار “جناب زرداری نے پرنٹ والیکڑانک میڈیا کے سامنے ”قاتل لیگ “کہہ کر فرد جرم بھی عائد کردی ہاں نیرنگی سیاست دیکھیے کہ آج وہی ق لیگ جناب زرداری کے اقتدار میں حصہ دار بن کر دوبارہ طاقت کے مزے لوٹ رہی ہے خیر جو ہم عرض کررہے تھے اُسی طرف آتے ہیں پاکستان پیپلزپارٹی نے الیکشن میں تھوڑی سی برتری حاصل کرنے کے بعد حکومت بنائی اور مرشد پاک سید یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم کی حیثیت سے اقتدار کی کرسی پر بٹھایا اس وقت بھی کسی کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ جناب آصف علی زرداری مملکت خداداد کے صدر بن کر سامنے آئیں گے لیکن وہ دن بھی آیا اور آصف علی زرداری پاکستان کے سیاہ وسفید کے مالک بن بیٹھے اور ان کا سب سے پہلا جملہ جو ملکی اور غیر ملکی پرنوٹ کیاگیا وہ تھا کہ ”جمہوریت ہی سب سے بڑاا نتقام ہے “-

قارئین گزشتہ چار سال کے دوران عوامی خدمت کے نام پر اس جمہوری حکومت نے عوام کی جو مرمت کی ہے اب 18کروڑ سے زائد پاکستانی عوام اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ واقعی ”جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے “ان جمہوری خادموں نے اس قوم کے کپڑے تک اتروا لیے ہیں ،روٹی سے محروم کردیا ہے، رہی چھت تو وہ قبر کی مٹی اور دیواروں کے معنی میں سمجھ آرہی ہے آج پاکستان تعلیم کے معاملے میں دنیا کے ممالک میں 128ویں نمبر پر موجو د ہے ،ڈاکٹر عطاالرحمن سابق وزیر سائنس وٹیکنالوجی نے راقم کو FM 93میرپور ریڈیو آزادکشمیر پر براہ راست انٹرویو دیتے ہوئے یہ خوفناک انکشاف کیا کہ ملائیشیاءاس وقت گزشتہ تیس سالوں سے تعلیم کے لیے 30فیصد بجٹ خرچ کررہاہے ،بھارت 10فیصد کے قریب رقم تعلیم پر خرچ کرتاہے ،امریکہ یورپ اور تمام ترقی یافتہ ممالک 9فیصد وسائل تعلیم کیلئے مختص کیے بیٹھے ہیں اور ہمارا پیاراپاکستان اور اس کی پیاری جمہوری حکومت تعلیم پر صرف 1.8فیصد رقم خرچ کرتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں 87فیصد سے زائد ہائی ٹیکنالوجی پراڈکس ایکسپورٹ صرف ملائیشیا کررہاہے اور پاکستان سمیت دیگر 56اسلامی ممالک مل کر بچی کھچی 13فیصد ایکسپورٹ کرتے ہیں بھارت کی سافٹ ویئر کمپیوٹر ایکسپورٹ 60ارب ڈالر ز سالانہ ہے اور پاکستان کی 30ہزار ڈالرز سالانہ تھی جو ڈاکٹر عطاالرحمن کی کوششوں سے ایک ارب ڈالر سالانہ تک بمشکل پہنچی تھی بھار ت اس وقت جینز ٹیکنالوجی کی ریسرچ پر اربوں ڈالرز سالانہ خرچ کررہاہے جبکہ پاکستان میں ابھی تک مدہوشی طاری ہے ۔

قارئین پاکستان کی طرح آزادکشمیر میں بھی ”جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے “کے فیوض وبرکات اس طرح سے پہنچے ہیں کہ یہاں پر بھی پاکستان پیپلزپارٹی کی جیالا حکومت برسراقتدارآچکی ہے اور اس حکومت کے وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید نے برسراقتدار آتے ہی کشمیری قوم کوجو سلوگن دیا وہ یہ تھا ”ہم وزیر اعظم اور وزیر بعد میں ہیں پہلے نوڈیرو کے شہداءکے مجاور ہیں “چوہدری عبدالمجید نے وزیر اعظم کے عہدے کو ”مجاورِاعظم “کے نئے اور عظیم معنی بخش دیے اور وہ دن ہے اور آج کادن مجاور اعظم کی گدی سے نت نئے احکامات اور لطیفہ نما فیوض وبرکات سامنے آرہے ہیں کھپے والی سرکار کے قریبی دوست چوہدری یاسین سینئر وزیر اور مجاور اعظم کے درمیان گزشتہ چھ ماہ کے درمیان مختلف مواقع پر تلخ جملوں کے ساتھ ساتھ شنید ہے کہ گالیوں اور ہاتھا پائی تک کی نوبت بھی پہنچنے کی خبریں ہیں کہاجاتاہے کہ ایک سیاسی شخصیت نے وزارت عظمیٰ کی گدی حاصل کرنے کے لیے کھپے والی سرکار کی ایک انتہائی قریبی شخصیت کو اربوں روپے کی ادائیگی بھی کردی تھی لیکن راز فاش ہونے کی وجہ سے ہما کا پرندہ اُڑ کر چوہدری عبدالمجید کے سر پر جا بیٹھا اب ڈوبی ہوئی رقم واپس حاصل کرنے کے لیے کبھی تو آزادکشمیر کے سب سے کماﺅ ضلع میرپور کی جائیدادیں اور زمینیں جو پبلک پراپرٹی ہیں انہیں نیلام کرنے کی بات کی جاتی ہے اور کبھی اربوں کھربوں روپے کے اثاثے رکھنے والے ادارے میرپور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی چیئرمین شپ کے لیے ٹانگیں کھینچی جارہی تھیں اور ڈراپ سین ایک صاف شفاف شخصیت مرزا جاوید کی شکل میں ہوگیا اس سے کہاجاتاہے کہ سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور موجودہ مجاور وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید کے درمیان شدید ترین اختلافات جنم لے چکے ہیں کیونکہ بیرسٹرسلطان اپنے قریبی ساتھی چوہدری ایوب کو ایم ڈی اے کا چیئرمین بناناچاہتے تھے ۔

قارئین پردے کے پیچھے ہونے والی یہ چند باتیں پاکستان اور آزادکشمیر کی موجودہ سیاست کے تناظر میں آپ کے سامنے پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میں آپ اور ہم سب عوام یہ جان سکیں کہ ہماری فقیری کے پیچھے کون کون سے درویشوں اور جمہوری خادموں کی حرکتیں موجود ہیں آج پاکستانی اور کشمیری عوام غربت ،بیروز گاری ،دہشت گردی کی بلاﺅں میں گھرے ہوئے ہیں اور اقتدار کی کرسیوں سے عوامی خدمت اور مجاوری کے جھوٹے نعرے بلند ہورہے ہیں ہماری بقا ءاسی میں ہے کہ ہم جھوٹے درویشوں اور خادموں سے اپنی جان چھڑائیں اور ایک انقلابی قیادت لے کر آئیں بقول غالب
میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
چل نکلتے جومے پیئے ہوتے
قہر ہو یا بلاہو ،جو کچھ ہو
کاش کے تم مرے لیے ہوتے
میری قسمت میں غم گر اتنا تھا
دل بھی یار ب ! کئی دیے ہوتے
آہی جاتاوہ راہ پر غالب
کوئی دن اور بھی جیے ہوتے

قارئین مصیبت کے طوفانوں میں گھری یہ قوم دشمنوں سے زیادہ اپنے دوستوں کی مہربانیوں کی وجہ سے آج ابتلاءکی اس دور سے گزر رہی ہے کہ آئے دن ٹی وی اور اخبارات میں یہ خبریں دیکھتے ہیں کہ بھوک سے تنگ آکر کہیں تو خاندان کے خاندان خودکشیاں کررہے ہیں اور کہیں چند سکوں کی خاطر انسان اپناضمیر بیچ کر وطن دشمنوں کا ایجنٹ بن رہاہے یہاں ہم ایک اور درخشاں روایت نکل کردیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ زاروقطار رونے لگے اور کہنے لگے کہ اگر دجلہ کے کنارے کسی بھیڑکے بچے کو ٹھوکر بھی لگتی ہے تو اللہ تعالیٰ مجھ سے پوچھ سکتے ہیں کہ اے عمر ؓ تم نے وہ راستہ درست کیوں نہ کروایا تھا ۔

اس واقعہ میں ”جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے “اور ”مجاور وزیر اعظم “کیلئے سبق موجود ہے

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
نیوی میں ملازمت کے لیے ایک نوجوان کا انٹرویو لیاجارہاتھا پوچھا گیا ”اگر سمندر میں طوفان آجائے توتم کیاکروگے “
نوجوان نے جواب دیا
میں فوراً لنگر ڈال دو ں گا
اگر ایک اور طوفان آگیا تو ؟
میں ایک اور لنگر ڈال دوں گا
اگر چار طوفان اکٹھے آگئے تو ؟
میں چار لنگر ڈال دوں گا
لیکن تم اتنے لنگر لاﺅ گے کہاں سے ؟
نوجوان نے اعتماد سے جواب دیا
”جناب جہاں سے آپ اتنے طوفان لائیں گے “

قارئین یہ قوم درجنوں طوفانوں کا سامنا کرچکی ہے البتہ اس قوم کے بحری جہاز کا کپتان ایک بھی لنگر نہیں ڈال سکا ہمیں اپنا کپتان تبدیل کرنا ہوگا ۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374258 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More