ہم کہاں کھڑے ہیں؟

یہ بھی ہمارا ایک بہت بڑا المیہ ہے،نہ جانے ہم کیوں اتنی فضول، بے تکی اور لغو باتوں،کاموں اور چیزوں پر بچوں کی طرح اچھل کود شروع کردیتے ہیں؟سچ تو یہ ہے کہ ہمیں صحیح طور پرترقی و تنزلی،عزت و ُ رسوائی ،عروج و منزلت اور پسپائی کا ادراک و احساس ہی نہیں ہے،ہم نے جنوں کانام خرد اور خرد کانام جنوں رکھ دیا ہے،اس وقت حالات ہی کچھ ایسے ہیں کہ مسکرانے کا جی نہیں چاہتا،ان چھوٹی چھوٹی ”کامیابیوں“پرکجا خوشیاں منائیں گے؟ آپ ایک لمحہ کے لیے اپنے اطراف میں دگرگوں ہوتی ملکی صورتحال،معاشی و معاشرتی ناگفتہ بہ حالت اور قومی مسائل کے انبار کا جائزہ لیںتو یقین کریں آپ کا کلیجہ منھ کو آنے لگے گا،آپ کو ہنسنے،مسکرانے بلکہ جینے تک کا دل نہیں چاہے گا،آپ اکتاہٹ ،بیزاری اور چڑچڑاپن کا شکار ہوجائیں گے،لیکن اگر ایسی حالت میں بھی شرمین عبید کوڈاکیومنٹری فلم بنانے کی وجہ سے ”oscar award“ ملنے پر بھنگڑے ڈالے جائیں، بڑے بوڑھے بھی بچوں کی طرح اُچھلیں کودیں، آسمان سر پر اٹھالیں تو یہ بات دل کو نہیں لگتی،اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے یہ کوئی ایوارڈ نہیں،بلکہ 64سالوں کی جدوجہد رنگ لے آئی ہے اور کشمیر فتح ہوگیا ہو،قوم ایسے خوش ہورہی ہے جیسے پاکستان بنانے کا مقصد حاصل ہوگیا ہو،گویا ہمارے ”بدنصیب“آباﺅاجداد نے یہ ”اوسکر ایوارڈ“حاصل کرنے کے لیے ہی یہ ملک بنایا تھا، جیسا کہ سوئس بینکس سے قوم کی لوٹی ہوئی اربوں کی دولت واپس آگئی ہو یاپھرعافیہ گھر آگئی ہو ،ابھی تادمِ ِتحریر شرمین عبید کو یہ ایوارڈ ملے چند ہی گھنٹے ہوئے ہیں،پل بھر میں پاکستان کا منظر نامہ ہی بدل گیا،آن لائن فورمز،بلاگزاور سوشل نیٹ ورکنگ کی سائٹس میں یوں اودھم مچی ہوئی ہے جیسے اس ایوارڈ سے پاکستان کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے،منٹوں میں فیس بک میں شرمین پر کئی کئی پیجز بن گئے ،آن کی آن میں بلاگز کا سب سے ہاٹ ایشو اور پسندیدہ موضوع بن گیا،یہاں تک کہ نیوز چینلز میں ایس ایم ایس کی سلائیڈز چلائی گئیں،ایک دوسرے کو مبارکبادی کے پیغامات بھجوائے گئے،خصوصی پروگرام نشر کیے گئے، پاکستانی سر پھرے نوجوانوں کو تو چھوڑیئے!ادب و صحافت کے کرتا دھرتا،ملکی صورتحال پر آنسو بہانے وا لے اور لاپتہ افراد کاکیس ہینڈل کرنے والے اینکرزاوراچھے خاصے سنجیدہ مزاج دانشوران بھی اس ”فتح“ پر بغلیں بجارہے ہیں، میں حیراں و پریشاں ہوں کہ جس ملک کے دوتہائی عوام روٹی، کپڑا اور مکان کے لیے ترس گئے ہوں،جہاں ہرہفتے کی ہڑتالوں نے جینا دوبھر کردیا ہو،جہاں بجلی تو پہلے ہی نہیں تھی، اب گیس بھی داغِ مفارقت دینے کو ہے،غریب کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں،جس ملک کا سب سے بڑا صوبہ تعصب کی آگ میں دہک رہا ہو،ملک کا منتخب صدر اپنی ہی فوج کے خلاف دشمن کے سپہ سالار کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رہا ہو،اسی ملک کے گدی نشین وزیراعظم پر مقدمہ چل رہا ہو،جہاں این آر او زدہ پارلیمنٹ ممبرز اس قوم کو مزید لوٹ کھسوٹ رہے ہوں،اس قوم کے سینکڑوں لاپتہ افراد کے لواحقین انصاف کی تلاش میں دربدر ٹھوکریں کھا رہے ہوں،معاشی زبوں حالی کا جادوسر چڑھ کر آسمان سے باتیں کررہاہوتو کیا ایک ایوارڈ جس کی حقیقت میں کوئی قیمت نہیں،اس کے ملنے پر قوم یوں ہلڑ بازی و تماشہ گری کرے،یہ ہمیں ہر گز زیبا نہیں۔

میں مانتا ہوں کہ شرمین عبید کی دستاویزی فلم”saving face“ ہمارے معاشرے کی ایک بہت بڑی خامی کو پوائنٹ آؤٹ کرتی ہے، اگر آپ اس کو ”اوسکر“کے مستحق قرار دینے پر تُلے ہوئے ہیں تو میں یہ بھی مان لیتا ہوں کہ وہ اس قابل ضرور ہے،آپ کے کہنے مطابق چونکہ یہ ایوارڈ پہلی بار پاکستان کے حصے میں آیا ہے اور یقیناً اس کا سہرا شرمین کے سر جاتا ہے،لیکن بھئی! آپ ذرا غور تو کریں کہ حقیقت میں اس کی کیا وقعت ہے؟کیا یہ”اوسکر ایوارڈ“ ہمارے مسائل کا مداوا کرسکے گا؟کیا ہم یہ بھی بھول گئے ہیں کہ فلم کاری و فنکاری ہماری وراثت نہیں،یہ تو وہ گورکھ دھندے ہیں جن میں مشغول ہوکر ہم اپنا پیسہ،وقت اور صلاحیت برباد کررہے ہیں،یہ کوئلے کی دلالی کے مترادف ہے جس میں ملوث ہو کر ہم اپنے ہاتھ بھی کالے کررہے ہیں،ذرا سوچیے!شرمین نے یہ ایوارڈ حاصل کرکے پاکستان کا نام روشن کیا،یہ اب ہماری قومی شخصیت کا رُوپ بھی دھار چکی ہیں،وزیراعظم نے تو شرمین کو اعلیٰ سول ایوارڈ دینے کا اعلان تو کرہی دیا،مارچ میں صدارتی ایوارڈ پانے والوں میں شرمین کے نام کابھی اضافہ ہوجائے گا،اس کو قومی سطح پر سراہابھی جائے گا، اخبارات میں اس کے انٹرویوز،ٹی وی چینلز میں اسپیشل شوزاور بھی بہت کچھ ....لیکن پھر ہوگا کیا؟اس سے قوم کی بھوک تونہیں مٹ سکتی، نہ ہی یہ ہمارے اور کسی کام آسکتاہے،کیا یہ ہم اپنے آپ کوبرباد نہیں کررہے؟

یہ باتیں شاید آپ کو ناگوار گزریں لیکن افسوس ہوتا ہے ایسی بے حسی و غفلت پر کہ پوری قوم تو تباہی کے دہانے پر آکھڑی ہے،ملک خانہ جنگی کی آگ میں جھلس رہا ہو،ملک و قوم کا سوفٹ امیج برباد ہورہا ہو،جان و ایمان کے لالے پڑے ہوں اور ہم بے وقعت چیزوں سے دل بہلا رہے ہوں،ہمیں حالات کی سنگینی کا احساس ہی نہیں ہے،ہم ایک ایسی بے حس ، غافل اوفارغ قوم بن گئے ہیںکہ ہمیں اس کا اندازہ ہی نہیں ہے کہ ہم ان دھندوں میں ملوث ہوکراپنا کتنا بڑا نقصان کررہے ہیں؟

آپ تازہ ترین مثال لے لیں!ہمارے پڑوسی ملک میں گزشتہ دنوں نیٹو فورسز نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی،جس پر تاحال افغانستان شعلہ زن ہے،لیکن ہمارے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی،رینگتی بھی کیسے؟ہم نے اس معاملہ میں”بلیک آﺅٹ“ کا فریضہ سرانجام جو دیا تھا،حیرت ہوتی ہے کہ چند اخبارات کے سوا کسی میڈیا گروپ میں یہ دم خم نہیں تھا کہ وہ اس مسئلہ کو پرائم نیوز کا درجہ دیتے،اسی طرح ثانیہ شعیب کی شادی ہو یا پاکستان کی عبرت گاہ”موہالی“ میں پاک بھارت سیمی فائنل،ہم نے ہمیشہ اہنے مذہب،اپنی روایات اور اپنے اقدار کے ساتھ بے رخی روا رکھی،ذرا ہم ان تمام فضولیات میں خرچ ہونے والی انرجی کو اپنے مسائل کے حل کرنے میں صرف کرتے تو بھلا ہمارا ہی ہوتا،نہ جانے ہمیں کیا ہوتا جارہا ہے؟ ہم کہاں کو منھ اُٹھائے چل رہے ہیں؟زمانے میں قیامت سی بپا ہونے والی ہے اور ہم ہیں کہ حقائق سے منھ چھپائے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ اس طرح کرنے سے تمام اندیشے رفع ہوجائیں گے۔
Muhammad Zahir Noorul Bashar
About the Author: Muhammad Zahir Noorul Bashar Read More Articles by Muhammad Zahir Noorul Bashar: 27 Articles with 28923 views I'm a Student media science .....
as a Student I write articles on current affairs in various websites and papers.
.. View More