طاغوت1
(Khalid Mahmood, Bahawalpur)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ ڐ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ
فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ
بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى ۤ لَا انْفِصَامَ لَهَا ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ
عَلِيْمٌ ٢٥٦
اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ
اِلَى النُّوْرِ ڛ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِيٰۗــــــُٔــھُمُ
الطَّاغُوْتُ ۙ يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ ۭ
اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ٢٥٧ۧ
دین میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے، ہدایت گمراہی سے الگ واضح کر دی گئی ہے
پس جس نے طاغوت سے کفر کیااور اللہ پر ایمان لایا وہ ایک مضبوط سہارے سے
یوں وابستہ ہو گیا کہ کبھی اس سے جدا کیا جانے والا نہیں ہے اور اللہ سنتا
وجانتا ہے۔ اللہ ان کا ولی ہو جاتا ہے جو ایمان لے آتے ہیں ،وہ اُنہیں
اندھیروں سے نکال کر روشنیوں میں لے آتا ہے۔ اور جو انکار کرتے ہیں طاغوت
ان کے ولی ہوتے ہیں جو انہیں روشنیوں سے نکال کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں
۔ یہ جہنم میں جانے والے لوگ ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے۔
(۲: البقرہ ۔۲۵۶،۲۵۷)
آیاتِ بالا سے حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اللہ کا مضبوط سہارا صرف اس شخص کو
میسر آتا ہے جو طاغوت سے کفر کر نے ( طاغوت کو ردّ(Reject)کرنے )کے ساتھ
اللہ پر ایمان لائے۔ اس سے’’طاغوت سے کفر کرنا‘‘ اللہ پر ایمان کی بنیادی
اور اوّلین شرط قرار پاتا ہے، ایسا ایمان رکھنے والوں ہی کااللہ ولی(حامی
وناصر،دوست وسرپرست) ہو جاتا ہے اور انہیں گمراہی کے اندھیر وں سے نکال کر
نور ِہدایت میں لے آتا ہے ۔ اس کے برعکس اللہ پرایسا ایمان لانے سے انکار
کرنے والوں(یعنی اللہ پر ایمان سے پہلے طاغوت سے کفرکرنے سے انکارکرنے
والوں) کے ولی طاغوت ہی ہوتے ہیں جو انہیں نورِ ہدایت سے گمراہی کے
اندھیروں میں کھینچ لے جاتے ہیں۔ یہ جہنم میں جانے والے لوگ ہیں جہاں یہ
ہمیشہ رہیں گے۔
طاغوت !
طاغوت ’’ طغیٰ‘‘ سے ہے جس کا مطلب ہے حد سے تجاوز کرجانا، سرکش ہو جانا۔
اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى 17ڮ
یہ کہ تم فرعون کے پاس جاؤ اس نے سرکشی اختیار کر لی ہے۔ سورۃ النازعات آیت
نمبر ۱۷
اوپردرج آیت میں ’’ ہدایت کے گمراہی سے الگ واضح کر دیئے جانے‘‘ کی بات
کہنے کے بعد کہا گیا ہے کہ ’’ پس جس نے طاغوت سے کفر کیااور اللہ پر ایمان
لایا ․․․․․․۔‘‘ یہ بات واضح ہے کہ ہدایت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے
اور اُس نے ’’کتابُ اللہ(قرآن مجید) اور سنت ِرسول اللہﷺ ‘‘ کی صورت میں
لوگوں کی ہدایت کے لئے ’ ’برحق علم‘‘نازل کردیا ہواہے اور’’حق ‘‘کے علاوہ
جو کچھ بھی ہے اسے گمراہی قرار دیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں
کہ
قُلْ اِنَّ ھُدَى اللّٰهِ ھُوَ الْهُدٰى ۭ وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ
اَھْوَاۗءَھُمْ بَعْدَ الَّذِيْ جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ
اللّٰهِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ ١٢٠ تم کہہ دو کہ بے شک اللہ کی
ہدایت ہی حقیقی ہدایت ہے۔ اور اگر کہیں اتباع کر لی تم نے ان کی اھواء کی
اس کے بعد بھی کہ آچکا ہے تمہارے پاس’’ علم‘‘ (اللہ کی نازل کردہ ہدایت)تو
تمہارے لئے اللہ سے (بچانے والا)کوئی دوست اور کوئی مددگار نہ ہو گا۔
(۲: البقرہ۔۱۲۰
فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ ښ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ 32
پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے؟ (۱۰: یونس۔۳۲
سورۃ بقرہ کی آیت ۲۵۶میں ہدایت و گمراہی کے حوالے سے اللہ(جس کی طرف سے
ہدایت نازل کی گئی ہے) کے مقابل ذکر ہونے سے طاغوت ’’گمراہی‘‘پھیلانے والے
کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اُس کو یہ مقام معاملات ِ زندگی میں لوگوں کے
سامنے اللہ کی نازل کردہ ہدایت کی بجائے اھواء پیش کرنے کی بناء پر ملتا ہے
اور ایسا کرنے کی وجہ ہی سے وہ حد سے تجاوز کرنے والا(طاغوت) قرار پاتا ہے
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
"]وَ اِنَّ کَثِیْرًا لَّیُضِلُّوْنَ بِاَھْوَآ ئِھِمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ ط
اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْن ﴿
اوراکثرلوگ دوسروں کو ’’علم‘‘(اللہ کی نازل کردہ ہدایت) کی بجائے، اپنی
اھواء کی بنا پر گمراہ کرتے ہیں۔بے شک تیرا رب ان حد سے تجاوزکرنے
والوں(طواغیت) کو خوب جانتا ہے۔
(۶: الانعام۔۱۱۹)
اوپر درج آیت سے واضح ہوتا ہے کہ لوگوں کی گمراہی کی وجہ طواغیت کی طرف سے
پیش کردہ’’ اھواء‘‘ کی اتباع (اطاعت وپیروی) ہوتی ہے۔ کتاب و سنت سے ’’
اھواء‘‘مخلوق کی خواہش ومرضی،اس کے ظن وگمان اورہراُس بات کے طور پر سامنے
آتی ہیں جوخالق کی نازل کردہ ہدایت کو چھوڑکر محض مخلوق کی خواہش ومرضی اور
اس کے ظن وگمان سے اخذ کردہ ہوں اور محض اس کی ذہنی اختراع کی صورت میں
ہوں۔ یوں ہر وہ شخص طاغوت قرار پاتا ہے جولوگوں کو اتباع کے لئے اللہ کی
نازل کردہ ہدایت (کتاب و سنت)کی بجائے اپنی ’ ’اھواء ‘‘پرمبنی کوئی بات(
حکم، قانون، فیصلہ، فتویٰ،فلسفہ ، نظریہ ،طریقہ و نظام ِزندگی وغیرہ)پیش
کرے خواہ وہ والدین میں سے کوئی ہویا قبیلے کاسردارہو، ملک کا حکمران و سپہ
سالار ہویا کوئی قانون ساز،جج و قاضی ہو ، کسی پارٹی کاسربراہ ہو یا علاقے
کا سرپینچ ہو، عالم و مفتی ہو یاکوئی پیر و درویش ہو یا کوئی بھی اور ہو۔ |
|