یہ کالم ضمنی الیکشن کے ضمن میں
ضرور ہے مگر الیکشن پر ماہرانہ رائے ہر گز نہیں کہ ہم مہارت سے یکسر تہی
دامن ہیں۔ یہ کارِ خیر اداریہ نویس ، کالم نگار ، دانشوراورٹی وی پروگراموں
کے میزبان اور خود عوام بھی کافی بہتر طریقے سے سرانجام دے سکتے ہیں اور دے
رہے ہیں۔ ہمیں تو وزیرا عظم پاکستان جناب سید یوسف رضا گیلانی سے اظہار
ہمدردی کے لئے چند الفاظ لکھنے ہیں، سو لکھ رہے ہیں۔ الیکشن کے نتیجے کے
بعد ایک خبر یہ بھی دی گئی کہ وزیراعظم واحد فرد ہیں جن کے گھر سے چار
افراد اسمبلیوں میں موجود ہیں، وزیراعظم موصوف کے علاوہ ضمنی الیکشن میں
کامرانی پانے والے ان کے لخت جگر موسیٰ گیلانی قومی اسمبلی میں رونق افروز
ہیں، جبکہ ان کے برادرِ خورد مجتبےٰ گیلانی اور خلف الرشید عبدالقادر
گیلانی پنجاب اسمبلی میں جلوہ گر ہیں۔ اتنی مقبولیت اور پذیرائی مقدر والوں
کو ہی ملتی ہے۔
یہ ضمنی الیکشن عوام کی دلچسپی کا سبب نہ تھا، ٹرن آؤٹ سے بھی یہی ظاہر
ہورہا ہے، کیونکہ حکومت اگر اپنی مدت ختم ہونے تک بھی قائم رہی تو بھی شام
کے سائے گہرے ہوچکے ہیں اورمنزل سامنے نظر آرہی ہے۔ امیدوار بھی گومگو کا
شکار تھے ، سیاست میں میدان خالی چھوڑنا کوئی اچھا شگون نہیں ہوتا ، نیا
آنے والا قدم جما بھی سکتا ہے ، پرانے برجوں کو ہٹا بھی سکتا ہے، اپنا مقام
بنا بھی سکتا ہے، اس لئے مجبوراً میدان میں کودنا پڑتا ہے، جاوید ہاشمی یا
شاہ محمود قریشی کا معاملہ تو ذرا مختلف ہے کہ ان کی نئی جماعت نے قومی
الیکشن کا بائکاٹ کیا تھا، اب ضمنی الیکشن میں حصہ لینا بلاجواز تھا، لیکن
جس پارٹی کی سیٹ تھی ، فی الحال تو اسی کو مل گئی،اس الیکشن میں وراثتی
سیاست کی جھلکیاں بھی نمایاں نظر آئیں، گیلانی ، مخدوم اور مرزا اپنا
کاروبارِ سیاست اپنی اولاد کو منتقل کرنے میں کامیاب ٹھہرے ، کمال ہے
جمہوریت کا لبادہ بھی قائم ہے اور موروثی سیاست بھی اپنا رنگ دکھا رہی ہے
۔دیکھیں اگلے الیکشن تک سونامی اور انقلاب اور خدمت کے دعویدار کس تناسب سے
کامیابیاں حاصل کرتے ہیں۔
وزیر اعظم سے اظہار ہمدردی کی اہم وجہ تو یہی ہے کہ موجودہ حکومت اپنی
آئینی مدت پوری کرنے کو ہے، اب اس موقع پر اپنی اولادوں کو کروڑوں روپے خرچ
کرکے اسمبلیوں میں لے جانا زیادہ مفید کام نہیں، لیکن اصل پریشانی یہ ہے کہ
اب اگلے بچے کھچے وقت میں کوئی سیٹ خالی ہوتی نظر نہیں آتی جس پر ضمنی
الیکشن کروایا جاسکے، کیونکہ گیلانی صاحب کے پاس ابھی دوتین افراد ایسے
موجود ہیں جو اگرچہ وزارت عظمیٰ سے تو لطف اندوز ہورہے ہیں لیکن خود براہ
راست اس مزے سے محروم ہیں جو اس خاندان کے دیگر افراد لے رہے ہیں۔ دختر نیک
اختر تو میدان ِ سیاست میں اتر چکی ہیں، خواتین کے معاملات میں خیر سگالی
سفیر بھی ہیں، یہی تو فائدہ ہوتا ہے، اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی اگر سیاسی
تربیت نہ ہوئی تو کب موقع ملے گا؟
اب یا تو سپریم کورٹ کسی معزز ممبرکو جعلی اسناد کی بنا پر رکنےت سے فارغ
کردے ، یا کوئی ایمانداررکن اسمبلی سونامی والوں سے مل کر اپنی سیٹ ان عوام
کے حوالے کردے جنہوں نے انہیں اقتدار کے ایوانوں میں بھیجا تھا، ایک اور
ذریعے سے بھی کوئی نشست خالی ہوسکتی ہے ، مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ کام کسی کے
کرنے سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہوگا، یہ صورت اتنی پرکشش اس لئے
بھی نہیں ہے کہ جس کی سیٹ خالی ہوتی ہے وہ اسی کے لواحقین کو دی جاتی
ہے۔ہماری ہمدردیاں اپنے وزیرا عظم کے ساتھ ہیں، کہ شاید اب ان کے خاندان کے
رکن پارلیمنٹ بننے کا ریکارڈ مزید بہتر نہ ہوسکے ، بظاہر کوئی سیٹ خالی
ہوتی نظر نہیں آتی ، ان کا بیٹا ، بیٹی اور خاتون اول اب اگلے الیکشن کا
انتظار کریں، لیکن خاندان کے تمام افراد یہ ضرور یاد رکھیں کہ اپنی حکومت
کے دوران ضمنی الیکشن اور آزادانہ قومی الیکشن میں بہت فرق ہوتا ہے۔ |