ایک خبر کے مطابق امریکی نائب
وزیر خارجہ رچرڈ باؤچر کو صدر آصف علی زرداری نے ہلال قائد اعظم کا تمغہ عطا
کیا ہے اور یہ تمغہ ان کو پاکستان کے لیے خدمات اور استحکام کے لیے ان کو عطا
کیا گیا، اگر جناب رچرڈ باؤچر کا تمغہ دیا جاسکتا ہے تو پھر جناب بش صاحب نے
کیا قصور کیا ہے جبکہ وہ تو زیادہ میڈل کے حق دار ہیں اسلیے کہ جس جس خطے میں
بد امنی، شورش، عدم استحکام، دہشت گردی، آزاد قبائل اور شمالی اور جنوبی
وزیرستان میں ڈرون حملوں اور بھارت کی جانب جنگ کی دھمکی کو پاکستان یا خطے میں
استحکام اور پاکستان کی خدمت کہا جاسکتا ہے تو پھر سابق امریکی صدر بش تو اس کے
سرخیل ہیں انہوں نے نہ صرف اس خطے بلکہ مشرقِ وسطیٰ اور بالخصوص فلسطین کے لیے
بے انتہا خدمات انجام دی ہیں (اور اس کا پھل آج کل بھی اہل فسطین اسرائیلی
جارحیت کی صورت میں بھگت رہے ہیں) تو پھر ہم یہ بات پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ
جناب بش کو کوئی تمغہ کب دیا جارہا ہے اور ان کو نہ صرف ہلال قائد سے نوازا
جائے بلکہ ان کو تو پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز تمغہ امتیاز عطا کردیا جائے
ویسے ہمارے حکمرانوں کے نزدیک تو وہ اس سے بھی زیادہ کے مستحق ہیں لیکن وہ اس
سے آگے کچھ دے نہیں سکتے(البتہ عراق کے بہادر صحافی منتظر الزیدی نے بش کو اس
کی شان کے شایان تحفہ دیدیا ہے)اور جس طرح بھارت کی ساٹھ سالہ پاکستان دشمنی،
تین جنگوں، اعلانیہ سازشوں، کے باوجود جناب صدر آصف علی زرداری صاحب نے جب یہ
کہا ہے کہ پاکستان کو بھارت سے کبھی کوئی خطرہ نہیں رہا تو پھر یہ بھی لازم
ہوجاتا ہے کہ پاک بھارت جنگوں میں جن جوانوں نےارضِ وطن کا دفاع کرتے ہوئے اپنی
جان قربان کردیں اورجام شہادت نوش کیا ہے ان سب کو دہشت گرد قرار دیدیا جائے
اور بھارت کے جہنم واصل ہونے والے سپاہیوں کے شہید قراد دے کر نشان حیدر بھی
عطا کردیں۔عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آخر رچرڈ باؤچر کی ایسی کیا
خدمات ہیں کہ ان کو پاکستان کا ایک اعلیٰ اعزاز دیا گیا۔ کیا پاکستان اور مسلم
دشمنی ان کا اتنا شاندار کارنامہ ہےکہ ان کو اعزاز سے نوازا جائے
ہماری اربابِ اختیار سے یہ گزارش ہے کہ دنیا کے اس چند روزہ اقتدار کی خاطر
اپنے ایمان کا سودا نہ کریں اور نہ ہی محب وطن عوام کے جذبات کو ٹھیس
پہنچائیں۔اللہ نے آپ کو جو وقت دیا ہے وہ ایک مہلت ہے اور کل اس کا حساب دینا
ہوگا۔اگر آپ تاریخ میں اپنا نام اچھے الفاظ میں لکھوانا چاہتے ہیں تو ملک و قوم
کے مفاد میں فیصلے کریں نہ کہ اس کے دشمنوں کے مفاد میں
آج موجودہ حکومت کی جو پالیسی ہے اس میں عوام کے لیے کچھ بھی نہیں ہے اور لگ
ایسا رہا کہ لوگوں کو کفن چور کی مثال یاد آنے لگی ہے۔کہتے ہیں کہ ایک شہر میں
ایک کفن چور تھا ساری زندگی کفن چوری میں گزری آخری عمر میںاس نے اپنے بیٹے سے
کہا بیٹا ساری زندگی میں نے کفن چوری میں گزاری ہے اور لوگوں کی گالیاں سنی ہیں
لیکن تم میرے مرنے کے کے بعد ایسا کام کرنا کہ لوگ مجھے اچھے نام سے یاد کریں
سعادت مند بیٹے نے باپ سے وعدہ کیا کہ ایسا ہی ہوگا، اور باپ کے انتقال کے بعد
اس نے بھی کفن چوری کا پیشہ اپنایا البتہ اس نے یہ اضافہ کیا کہ کفن چوری کرنے
کے بعد لاش کی بے حرمتی کر کے قبر سے باہر پھینک دیتا تھا یہ دیکھ کر لوگوں نے
کہنا شروع کردیا کہ اس سے اچھا تو اس کا باپ ہی تھا کم از کم لاش کی بے حرمتی
تو نہیں کرتا تھا۔ |