یہ واقعہ کسی اندھیری رات کا
نہیں ، کسی دشت وبیابان کا نہیں ، کسی ویران وسنسان سڑک کا نہیں ، کسی گاؤں
دیہات کا نہیں ، اور نہ کسی ایسے علاقے اور بستی کا ہے جہاں کوئی سیکیورٹی
، پولیس ، رینجرز، اور فوج وغیرہ کا نظام نہیں ۔ بلکہ یہ تو اس شہر بے اماں
کی داستانِ غم ہے جہاں ہر فرلانگ کے فاصلے پر قانون کے چو کنے رکھوالے اور
متوالے ، مستعد اور ناکہ بند ہوکر ہمہ وقت معزز شہریوں کی اسنیپ چیکنگ،
جامہ تلاشی لینے میں مصروف عمل رہتے ہیں ۔ اور اگر قسمت سے ڈرائیور کے پاس
شناختی کارڈ، گاڑی کے کاغذات ، لائسنس ودیگر لوازمات پورے ہوئے توپھر بھی
قانون کے محافظ دیگر قانونی پیچیدگیاں نکالتے پھرتے ہیں کہ اینڈیکیٹر کیوں
نہیں جل رہا، ہارن کیوں نہیں بج رہا۔ ۔۔۔اگر بج رہا ہے تو اتنا پریشر سے
کیوں بج رہا ہے جس سے معزز شہریوں کو اذیت مل رہی ہے،شہر کی سیکیورٹی پر
مامور اہلکار ایسے ویسے نہیں جنہیں ہماری اذیت وتکلیف کی فکر نہ ہوبلکہ وہ
ہر شہری کا غم اپنے کندھوں پر لادھے ہوئے ہیں۔۔۔۔ بڑی مشکل سے کوئی صاحب
فراست آدمی ہی ان کے چنگل سے بغیر مک مکائے نکل پاتا ہے ۔ابھی کھلی فضاءمیں
سانس نہیں لے پاتا کہ دوسرے سگنل سے قبل ہی سیاہ وردی میں ملبوس قانون کے
نگہبانوں کی نظروں میں آجاتا ہے اور قانون کی کسوٹی پر پرکھنے کا عمل پھر
سے دہرایا جاتا ہے ۔اب کی بار بھی اس کانصیب ۔۔۔!
یہ تو پاکستان کی شہ رگ کراچی جیسے تجارتی شہر کے ایک آسودہ و نامور علاقے
کے اندر چڑھتے سورج کی کرنوں کی روشنی میں بھرے بازار کے اندر رونما ہونے
والے ایسے واقعہ کا تذکرہ ہے جو میرے ساتھ تقریبا دو ماہ قبل آفس جاتے وقت
پیش آیا ۔کریم آباد کی مارکیٹ میں رش کی وجہ سے اسکوٹر کی اسپیڈ کم کردی یک
دم سے تین موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے مجھے سائڈ دے کر اسکوٹر کو سامنے
کھڑے ٹھیہ کےساتھ جام کردیا ۔ اور بلا کی پھرتی سے ایک میانہ قد پکی عمرکا
آدمی اسکوٹر سے نیچے اترا اور مجھے مارنا شروع کردیا۔ ساتھ ہی ساتھ زوردار
انداز میں چیخ رہاتھا کہ پکڑو ، مارو، پکڑو ، مارو۔میں حواس باختہ ہوگیا کہ
ناجانے مجھ سے ایسی کون سی غلطی سرزد ہوئی جس کی بنا پر گھونسو ں کی برسات
میں مجھ پر غصہ نکالا جارہا ہے ! وہ شخص مجھے مسلسل مارے جارہا تھا اور چلا
بھی رہا تھا جس کی وجہ سے مارکیٹ میں موجود ایک ہجوم میرے ارد گرد جمع
ہوگیا اور قریب تھا کہ یہ جلسہ عام بھی مجھ پر ٹوٹ پڑتا!
بھائی مجھ سے ایسی کون سی غلطی سرزد ہوئی ہے ، میرا جرم آخر کیا ہے ، میرا
قصور کیا ہے ، کوئی بچہ میری بائک سے ٹکراگیا ہے یا کسی گاڑی کو کوئی خراش
تراش میری بائک کی رگڑ کی سے آئی ہے ۔ کچھ تو بتاؤ! گاڑی سے اتر۔۔۔! کیوں
اتروں؟ کوئی جرم تو میرا بتاؤ؟ سامنے کھڑے دراز قدوقامت والے نوجوان نے
سلور کلرکی پستول فضاءمیں لہرائی اور کہا شرافت سے گاڑی سے اتر جاؤ۔ پستول
کا فضا میں لہرانا تھا کہ منٹوں میں جمع ہونے والا جمعہ غفیراس سے بھی
زیادہ پھرتی سے سیکنڈوں میں ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ!
میں بائیک سے اترا اور ہینڈل کو پکڑے کھڑا ہوگیا ۔ پستول کو مضبوطی سے پکڑے
ہوئے شخص نے گولی کو چیمبر میں چڑہاتے ہوئے پستول مجھ پر تان لی اور کہا کہ
بھاگو۔ ناچاہتے ہوئے اسکوٹر کو اپنی گرفت سے آزاد کیا اور پیچھے کی طرف آنے
لگا۔ بڑی دیدہ دلیری اورسکون کے ساتھ میری بائک پر بیٹھ کر مارکیٹ کے وسط
سے اس ڈرامائی انداز میں اسکو ٹر چھین کر تین دہشت گرد فرار ہوگئے۔
آفس کے تین ساتھیوں سیمت عزیز آباد پولیس اسٹیشن پہنچا ۔ ہیڈ مہرر فقیر
محمدعینک ناک کی آخری ڈگری پر رکھے سگریٹ کی آخری چسکیاں لے رہا تھا۔علیک
سلیک کے بعد حادثہ کے بارے میں بتایاتوانہوں دریافت کیا کہ کون سی اسکوٹر
تھی میں نے شائستگی سے کہا ”ہنڈا“ سگریٹ کی لگائی ہوئی زوردار کش کو
پھیپڑوں کا چکر دے کر فضا ءکو مکدرکرتے ہوئے فقیر محمد صاحب نے سگریٹ کو
بھاری بوٹوں تلے کچل دیا۔اور کچھ توقف کے بعد دوسرا سگریٹ پوکٹ سے برآمد
کیا کہ اتنے میں دوسرے وردی پوش اہلکار نے فقیر محمد کے ہاتھ سے سگریٹ لیتے
ہوئے ماچس طلب کی ۔ ماچس کا عطیہ فراخ دلی سے ہیڈ مہرر صاحب نے عنایت
فرمایا ۔ ماچس کی ایک تیلی سے دو سگریٹ جلانے کا کارنامہ وردی پوش اہلکار
نے ہمارے سامنے سرانجام دیا ۔ خیر دوسرا مزائل داغا گیا کون سا ماڈل تھا۔
”2011 “۔ فقیر محمد نے روزنامچے پر جھکے ہوئے سر کو اٹھاتے ہوئے عینک کو
اوپر کی جانب سرکایا اور مجھے گھورتے ہوئے گویا ہوا۔ کراچی جیسے شہر میں
نئی اسکوٹرگھمانا اپنے ساتھ ظلم ہے ۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے سمجھدار لگتے ہو
پھر ایسی حرکتیں کیوں کرتے ہو!جب تمہیں معلوم ہے کہ یہاں چھینا جھپٹی کا
معاملہ چلتا رہتا ہے ۔ فقیر محمد کی بات چل رہی تھی کہ ایک اور فریاد رساں
حاضر ہوگیا ۔سر میری بائیک اغوا ہوگئی ہے ابھی 9 دن ہی گزرے ہیں شوروم سے
نئی زیرومیٹر نکلوائی تھی ۔ لوبھئی اس کی بھی سنو! روزنامچے میں اندراج
کرنے کے بعد کیس کے آئی او سلیم صدیقی صاحب نے تسلی دی کہ دو سے تین دن کے
اندر موٹر سائیکل مل جائے گی اور پکی ایف آئی آر کٹوانے سے تمہیں مشکلات
ہونگی ۔ کورٹ کے چکر کاٹنے پڑیں گے وغیرہ ۔ ابھی یہی باتیں چل رہی تھیں کہ
اسکوٹر کے اغوا کا ایک اور کیس آگیا۔
20 سے 25 منٹ کے اندر ایک ہی علاقے سے تین اسکوٹر غائب ہوئے ۔ اور جائے
واردات پر پولیس کی ایک موبائل نے جانا گوارہ نہ کیا اور طفل تسلیاں دے کر
متاثرین کو بہلایا جاتا رہا۔آخر وہ کون سے محرکات ہیں جو قانون کی راہ میں
رکاوٹ ہیں اور قانون ان جرائم پیشہ افراد کا سراغ لگانے میں ناکام رہتی ہے
۔ جب عام شہری کی جامہ تلاشی سے لیکر اینڈیکیٹر کے صحیح اور غلط استعمال تک
کو قانونی آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے تو کیونکر لٹیرے ، دہشت گرد اور جرائم
وکرائم میں ملوث افراد قانون کی نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں ؟
A.C.LC (اینٹی کار لیفٹنگ سیل )کے ایک آفیسر سے اس واقعہ کے رونما ہونے کے
بعد ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے عجیب داستان بیان کی کہ کرائم میں ملوث افراد
کا ایک منظم نیٹ ورک ہے جو تین گروپوں میں بٹا ہوا ہے ۔ اور تینوں گروپس کے
کارندے حیدرآباد یا بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔
ہفتہ بھر میں ایک دن کراچی آکر دن بھر وارداتیں کرتے ہیں اور شام واپس اپنے
ٹھکانوں پر چلے جاتے ہیں اور تازہ دم لڑ کے نئی وارداتوں کے لیے کراچی پہنچ
جاتے ہیں ۔ طریقہ واردات اس طرح ہوتا ہے کہ تینوں گروپ کا آپس میں کنٹیکٹ
ہوتا ہے ۔ ایک گروپ کے لڑکے گاڑی چھینتے ہیں اور دوسرے گروپ کو بائک کی
چابی 5 ہزار اور گاڑی کی چابی 10 ہزار کے عوض دیتے ہیں۔ دوسرا گروپ اپنا
کمیشن رکھ کر تیسرے گروپ کے حوالے کرتی ہے جو گاڑی ٹھکانے لگاتے ہیں اور
پرزے پرزے کر کے کباڑی مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں ۔
اگر جرائم پیشہ افراد اپنے نیٹ ورک کو منظم طریقے سے چلانے میں مخلص ہوسکتے
ہیں تو قانون کے نگہبان، سیکیورٹی پر مامور اہلکار منظم طور پر ایک حکمت
عملی کے تحت ان گروہوں پر قابو کیوں نہیں پاسکتے ؟؟؟ |