خواتین کا عالمی دن

عورت کا تصور میرے لیے ایک پیاری سعادت مند بیٹی٬ ایک ذمہ دار شفیق ماں ایک محبت اور خلوص لٹاتی بہن اور ایک خیال رکھنے والی حسن و محبت سے آراستہ پیاری بیوی ہے- ہو سکتا ہے کسی کو میرے اس پیکر عورت پر اعترا ض ہو لیکن بحثیت صنف نا زک میں یہی کہوں گی کہ سوچ اپنی اپنی پسند اپنی اپنی، یہ سچ تو ہے کہ بعض ہٹلر قسم کی خواتین بھی اس معا شرے کا حصہ ہیں جنھوں نے بہت سے مردوں کا جینا حرام کیا ہے اس با رے میں کیا کہا جائے تالی دونوں ہا تھوں سے بجتی ہے- ہمارے سما ج میں خواتین سے نا روا اور امتیازی سلوک اس قدر بڑھا ہو ا ہے کہ اب یہ سب عام روٹین کا حصہ سمجھی جا تی ہے ایسے میں اگر کچھ خواتین اپنے حقوق وفرا ئض کے لیے آواز اٹھا تی ہیں تو وہ ان خاموش ظلم سہتی خواتین کی بھی تر جمانی کا فریضہ انجا م دے رہی ہو تی ہیں جنھیں او نچی آواز میں بو لنے کی اجا زت بھی نہیں جو ایک خاموش احتجا ج لیے گھر اور با ہر زندگی کی گا ڑی کھنیچ رہی ہیں- ہما رے ہا ں تو خواتین اپنے احتجاج سے مکمل تو جہ نجانے کب حاصل کر پا ئیں لیکن روس کی خوش قسمت خواتین 8 ما رچ 1977ءمیں ٹیکسٹا ئل کی محنت کش خو اتین نے ہڑ تا ل کر کے ایک انقلا ب کا آ غا ز کیا ان کے مطا لبا ت بڑ ی معمو لی نو عیت کے تھے انھو ں مطا لبہ کیا تھا کہ سہولتیں سب کے لیے ہو نی چا ہیے آ زادی را ئے کے ا ظہار کے مو اقع سب کو یکسا ں ملنے چا ہیے، انھی محنت کش خو ا تین کی جد وجہد سے ہم آ ہنگی ا تحادکے لیے پوری د نیا میں یہ دن منا یا جا تا ہے ۔ ہم ایک تر قی یافتہ دور کے با سی ہیں پو ری دنیا کی طر ح پا کستا ن میں بھی مختلف تنظیمو ں اور ادارو ں کی جا نب سے اس دن کی منا سبت سے احسا س اورآ گہی ا جا گر کرنے کی ایک منا سب کو شش کی جاتی ہے ۔
 

image


پا کستا ن میں آبا دی کے لحا ظ خو اتین آبا دی کا نصف ہیں ،لیکن اس کے با وجو د خو اتین کے حقو ق ادا نہیں کیے جا تے عو رت سے حسن سلو ک کے با رے میں ہما رے مذ ہب میں بڑے وا ضع اندا ز میں بتا یا گیا ہے ۔ د ین اسلا م دنیا کا پہلا مذہب ہے جس نے خو اتین کے با قا عد ہ مہرمقر ر کئے اور ان کی ادائیگی پر زور دیا، ان کو جا ئیداد میں حق دار ٹھر ایا، مر داور عورتو ں کی تعلیم لا زمی کو قرار دیا ، ما ں کے قد مو ں تلے جنت رکھ دی ۔ جب یہ با ت ثا بت ہو چکی کہ اسلا م میں عو رتو ں اور مر دو ں کے با رے میں نقطہ نظر صحیح ہے اس کے با وجود آج بھی اسلا م پر یہ الزام ہے کہ اس نے عو رتو ں کو کم در جہ دیا یہاں غلطی دین اسلا م میں نہیں بلکہ اسکے ما ننے وا لوں کی ذا تی مفا دات ہے ۔ ہم سب دین اسلا م کے پیرو کا رہیں لیکن جب خو اتین کے حقو ق کی با ت آتی ہے تو ہم مذ ہبی ا حکا مات کا خیا ل نہیں ر کھتے ۔یا د رہتا ہے تو یہ کہ مر د کے لیے اسلا م میں چا ر شا دیاں جا ئز ہیں اور جا ئیداد میں بیٹی کو جہیز کی صورت میں اتنا کچھ دے دیا گیا ہے کہ اب دینے کی گنجا ئش نہیں با قی دنیا کی نسبت ہما رے ہا ں ا س حوالے سے ز یا دہ تعصب پا یا جا تاہے ۔ مختلف رسم رواج کے نا م پر خو اتین کے استحصا ل کا سلسلہ جا ری ہے ۔ ہما رے ہا ں خواتین پر مختلف طر یقو ں سے تشدد کا سلسلہ جا ری ہے ،کبھی انھیں کم جہیز لا نے پر ذہنی اور جسما نی اذیت کا نشا نہ بنا یا جا تا ہے ، کہیں چو لھا پھٹنے کے نام ا نھیں آگ لگا کر جلا نےکے وا قعا ت عام ہیں ، تیزاب پھینکنے کے درجنو ن کیسز سا منے آئے مگر ایک بھی ملز م کیفر کرداتک نہ پہنچا ،چند ما ہ قبل اسمبلی نے تیزاب سے جلا ئے جانے والے مجرم کے لیے نیا قانون پا س کیا ہے دیکھیں اس پر کتنا عمل درآمد ہو تا ہے سندھ اور پنجا ب کے با اثر گھر انو ں میں جا ئیداد بچا نے کی خا طر خو اتین کی قر آن سے شادی کے وا قعات عا م ہیں ،یہ رسمیں ایسے خا ندا نوں میں عام ہے جہا ں کے مر د حضرا ت با ہر سے پڑھ لکھ کر اعلٰی ڈگر یا ں یا فتہ ہو تے ہیں ہما ری سیا ست اور قا نو ن بنا نے وا لے کرتا دھر تا بھی یہی ہو تے ہیں ما ضی کی فرسودہ رسم ورواج آج بھی عو رت کو اپنے شکنجے میں جکڑے ہو ئے ہے ۔ کا رو کا ری ، ونی ، سوارا جیسی رسمیں بھی مو جو دہیں ہر سا ل سینکڑو ں عو رتیں ان کی بلی چڑ ھتی ہیں ، پنچا یت اور جر گے کے ہا تھو ں ظلم وجبر سہنے وا لی بے شما ر خو اتین کی مثا ل ہما رے سا منے ہے ۔اور ایسے کتنے کیسز جن کی کبھی رپو ٹ در ج ہی نہیں کرائی گئی ہمیں ان ادارو ں کا اصل رو پ د کھاتی ہیں ۔ہما رے ہا ں جو قوا نین بنائے جا تے ہیں وہ ایسے پیچیدہ ہیں یا پھر انھیں استعمال کر نے وا لے ا پنی مر ضی سے تو ڑ مرو ڑ کر اپنے حق میں استعمال کرلیتے ہیں ان کی مثا لیں آئے دن اخبا رات کی زینت بنتی رہتے ہیں ۔ گھر یلو تشدد اور خا ندا ن کے جبر کے سا تھ ریا ستی قوا نین، حدود آ رڈیننس، قصا ص ود یعت ، آ دھی شہادت ، غیر ت کے نام پر ہو نے وا لے قتل پر رعایت ، عو رتو ں پر ر یا ستی جبر وتشدد کی آئینہ دار ہے ان قوا نین کا سہا را لے کر ہر سال سینکڑو ں جر م ہو تے ہیں مگر مجر م کو سزا دینے کا اختیا رقا نو ن کے پاس بھی نہیں ہو تا ۔

ایک اسلا می ملک جہا ں دین محمد ؑ ﷺ کو ما ننے وا لے بستے ہیں ، ہر چھ گھنٹے میں ایک عور ت کے ساتھ زیا دتی ہو تی ہے ، ہر چا ر دنو ں میں ایک اجتما عی زیا دتی کا کیس اخبا رکی زینت بنتا ہے ، ان کے علا وہ سینکڑو ں کیس ایسے ہو ں گے جو بد نا می کے ڈر سے درج نہیں کرا ئے جا تے ۔ حکو مت ا گر خواتین کے حقو ق کی ان تما م خلا ف ور زیو ں کور ورکنے کے لیے قا نو ن سا زی کر تی ہے ، تو اس سے معا شرے میں ا س کے اچھے نتا ئج مر تب ہو ں گے۔ موجو دہ حکو مت نے خو اتین کو ہرا ساں کر نے کے جر م کا قا نو ن پا س کیا ہے اس سے وہ ملازمت پیشہ خو اتین جو گھرو ں سے نو کر ی کی غر ض سے نکلتے ہوئے سفر کے دوار ن سے گھر واپسی تک ( انگر یز ی وا لا ) سفر( Suffer) کر تی ہیں ان کے لیے یہ بل ضرور سا زگا رہو گا ۔
 

image


8 ما رچ خوا تین کے لیے اس با ت کی اہمیت پر زور دیتا ہے کہ اس دن محض سیمینار برا ئے سیمینا ر نہ ہوں بلکہ خو اتین کی فلا ح وبہبو دکے لیے تسلسل سے کو شش کی جا ئے ان میں تعلیم کی اہمیت کو اجا گر کر نے کی کو شش کی جا ئے کہ ایک پڑ ھی لکھی ما ں ہی اپنے بچو ں کو ملک وقو م کے لیے ایک کا رآمد شہری بنا سکتی ہے اس وقت مو قع منا سبت سے مجھے فیض احمد فیض کی صا حبزادی سلیمہ ہا شمی کا ایک انٹرویو یا د آرہا ہے جس میں انھو ں نے بتا یا تھا کہ اعلٰی تعلیم کے لیے وا لد صا حب(فیض احمد فیض) نے ان کے سا منے دو را ستے رکھے ، ان سے کہا کہ وہ مز ید ا علیٰ تعلیم کو تر جیح دیں گی یا جہیز کو تو انھو ں نے مزید اعلٰی تعلیم کو تر جیح دی ان کا بہتر ین فیصلہ ہم سب کے سا منے ہے آج وہ پا کستا ن کی ایک کا رآمد شہر ی ، ایک بہتر ین استا د ، بہترین مصور ہ ، اچھی ما ں اور بیو ی کے کردار بڑی ذمہ دا ری و خو ش اسلو بی سے سنبھا ل رہی ہیں۔

میر ی تمام وا لد ین سے یہی گزا رش ہو گی کہ وہ اپنی بیٹیوں کو بھی بیٹو ں کی طر ح علم کی دو لت سے مالا مال کر یں صر ف تعلیم ہی ایک ایسا ھتیار ہے جو انھیں انکے حقو ق و فر ائض کی زیا دہ بہتر طو رپر آگا ہی دے سکتا ہے خو اتین کو ان کے حقوق ملیں گے تو وہ زیا دہ بہتر طو رپر ملک وقوم کی خد مت کر سکیں گی ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوا لے سے عملی اقدا ما ت کا آ غاز کیا جا ئے میرے خیا ل سے آج کا دن اس حوا لے سے قد م بڑ ھا نے کے لیے بہتر ین دن ہے۔

YOU MAY ALSO LIKE:

The call for observing an International Women’s Day was first made by Clara Zetkin, leader of the women’s office for the Social Democratic Party in Germany, at an international conference for working women held in Copenhagen in 1910 to “press for the rights of women”. Her idea received the unanimous support of the over 100 women from 17 countries who were participating in the conference.