ٹنڈو محمد خان سے صوبائی اسمبلی
کی نشست کی امیدوار خاتون، وحیدہ شاہ کو پولنگ عملے کو تھپڑ مارنے کی قیمت
مل گئی۔ الیکشن کمیشن نے پی ایس 53 کے انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے
پی پی کی رکن سندھ اسمبلی کو 2 سال کے لیے نااہل قرار دیا ہے، یوں اب
محترمہ 6 مارچ 2014ءتک کسی بھی انتخابی عمل میں حصہ نہیں لے سکیں گی۔ اس
فیصلے پر چیف الیکشن کمشنر اور چاروں صوبائی الیکشن کمشنرز نے دستخط کیے۔
پنجاب،خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے الیکشن کمشنرز نے وحیدہ شاہ کے خلاف،
جب کہ چیف الیکشن کمشنر حامد مرزا اور سندھ سے حمید روشن عیسانی نے ان کے
حق میں فیصلہ لکھا۔
پیپلزپارٹی نے وحیدہ شاہ کی جانب سے انتخابی عملے کی 2 خواتین کے خلاف تشدد
اور توہین آمیز سلوک پر کوئی نوٹس لیا اور نہ ہی رسمی مذمتی بیان جاری کرنا
ضروری سمجھا۔ جس سے عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والوں کی دوغلی پالیسی بے
نقاب ہوگئی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ وحیدہ شاہ کے خلاف انتقامی
جذبہ کار فرما ہے، اس فیصلے پر پی پی اور عوام میں رد عمل پایا جاتا ہے۔
انہیں ان مظلوم خواتین کا خیال نہیں آیا جن کا تعلق بھی اسی دھرتی سے ہے۔
ہمارا سوال یہ ہے کہ وقار نسواں بل پر دستخط کرنے والے بتائیں کہ کیا سندھ
کی بیٹی کو وہ تمام حقوق حاصل نہیں، جن کا موجودہ حکمران پرچار کررہے ہیں؟
تو پھر پولنگ عملے کی خواتین کے ساتھ اس ناروا سلوک پر خاموشی آخر کیا
معنٰی رکھتی ہے؟ اگر یہ واقعہ پنجاب میں پیش آیا ہوتا تو پھر پی پی کے
عہدیدار آسمان سر پر اٹھالیتے، لیکن خواتین کی فلاح و بہبود کا بیڑا اٹھانے
والوں نے مظلوم کا ساتھ دینے کی بجائے اپنی رہنما کے ساتھ کھڑے ہونے کو
ترجیح دی۔
پیپلزپارٹی نے پی ایس 53 کی امیدوار وحیدہ شاہ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش
کی، اس کے لیے متاثرہ خواتین کی طرف سے معافی کا ڈراما بھی رچایا گیا، لیکن
سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے بعد الیکشن کمیشن حرکت میں آیا اور اس نے
وحیدہ شاہ کو نمونہ عبرت بنادیا۔
پیپلزپارٹی ٹنڈو محمد خان کی جانب سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف 8 مارچ
2012ءجمعرات کے روز ضلع بھر میں مکمل شٹر ڈاﺅن ہڑتال کی گئی۔ جیالوں نے بھر
پور طریقے سے احتجاج میں حصہ لیتے ہوئے مختلف شاہراہوں پر ٹائر نذر آتش
کیے، ہڑتال کی وجہ سے تمام کاروباری و تجارتی مراکزبند رہے۔ پیپلزپارٹی کی
جانب سے یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ وحیدہ شاہ کے غیر مہذب اور جابرانہ طرز
عمل کا دفاع کررہی ہے۔ یہ عمل حیران کن بھی ہے اور افسوس ناک بھی۔ اگر کسی
کو الیکشن کمیشن کے فیصلے سے اتنی ہی تکلیف ہورہی ہے تو اس کا فیصلہ سڑکوں
کی بجائے عدالت میں ہونا چاہیے۔ سزا کے خلاف اپیل کا حق ہر شخص کو حاصل ہے
اور مذکورہ انتخابی امیدوار بھی اپنا یہ حق ضرور استعمال کرسکتی ہیں۔کسی نے
سچ کہا ہے کہ وحیدہ شاہ نے غریب اساتذہ کے منہ پر نہیں بلکہ ریاست کے منہ
پر زور دار تھپڑ رسید کیے۔ ہمارے ہاں یہ اصول ہے کہ طاقت اور اختیار رکھنے
والوں کو ”کچھ بھی“ کرنے کی مکمل چھوٹ ہوتی ہے۔ جب کہ بے اختیار، غریب اور
مجبور افراد کے لیے قانون کو حرکت میں لایا جاتا ہے۔ امیر اور غریب کے
درمیان اس امتیاز کی، وجہ سے معاشرے میں انتشار پھیل رہا ہے، لاقانونیت بڑھ
رہی ہے اور نچلے طبقات کے احساس محرومی میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
قانون کی عمل داری یقینی بنانے کے لیے ہماری سیاسی جماعتوں کو اس طرح کے
اقدامات کی بیخ کنی کرنا ہوگی انہیں چاہیے کہ پہلے اپنی صفوں میں جمہوریت
کو پنپنے دیں۔
جئے سندھ قومی محاذ کے رہنما بشیر قریشی نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ
دھاندلی کرنا اور لوگوں کو تکلیف دینا پی پی کے منشور میں شامل ہے۔ سندھ
یونائٹڈ پارٹی کے رہنما جلال محمود شاہ نے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے
ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے پہلی مرتبہ بروقت فیصلہ کیا ہے۔ عوامی
تحریک کے رہنما ایاز لطیف پلیجو کا موقف ہے کہ وحیدہ شاہ پر تاحیات پابندی
لگنی چاہیے تھی۔ جے یو آئی، جماعت اسلامی، مسلم لیگ ن اور عوامی لیگ نے اس
فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
بہرحال الیکشن کمیشن کے اس اقدام کو سراہا جانا چاہیے، کیوں کہ اس امتیازی
سلوک کی وجہ سے آئندہ عام انتخابات کی کریڈیبلیٹی خطرے میں پڑگئی تھی۔ ملک
بھر کے عوامی حلقوں نے وحیدہ شاہ کی سزا پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ اس فیصلے
کے دورس نتائج ہوں گے اور مستقبل میں انتخابی عمل کے دوران کسی بھی امیدوار
کو اپنی چودھراہٹ جمانے کا موقع نہیں ملے گا۔ اگر اس پولنگ اسٹیشن میں
میڈیا کے کیمروں نے یہ فوٹیج محفوظ نہ کی ہوتی تو معاملہ آسانی سے رفع دفع
ہوجاتا اور وحیدہ شاہ اسمبلی میں پہنچ چکی ہوتی۔ اب میڈیا پر بھاری ذمہ
داری عائد ہوگئی ہے کہ وہ غیر جانبدرانہ رپورٹنگ کے ذریعے اپنی ساکھ برقرار
رکھے۔ ہمارے سیاست دانوں کو بھی وحیدہ شاہ کے انجام سے سبق سیکھنا چاہیے۔
اب ضروری ہوگیا ہے کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر فیصلے کریں اور
ایسے امیدواروں کو اسمبلی میں پہنچنے سے روکنے کے لیے لائحہ عمل وضع کریں،
جن سے ان کی نیک نامی پر حرف آتا ہو، جو قوم کی عزت میں اضافے کی بجائے
بدنامی کا سبب بنتے ہوں۔ |