پاکستان میں شفاف ووٹر فہرست
ہمیشہ ایک خواب رہا ہے ،اس کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے گزشتہ 12 سالوں کے
دوران نصف درجن بار کوششیں کی گئیں اور اربوں روپے خرچ ہوئے ، مگر یہ خواب
پورا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہاہے، جو پوری قوم کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔
ماضی کے مختلف ادوار میں بننے والی دستی ووٹر فہرستیں ہمیشہ شک وشبہ سے
خالی نہیں رہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے نتیجے میں ہونے والے انتخابات کو
شک وشبہ کی نظر سے دیکھا گیا۔ کہا یہ جاتا ہے کہ دھاندلی سے قائم ہونے والی
حکومتوں کے لیے، غیر شفاف ووٹر فہرست مدد گار ثابت ہوتی ہے۔12 سال قبل شفاف
ووٹر فہرستیں بنانے کا م شروع ہوا، مگر 12 سال بعد بھی یہ کام مکمل نہیں
ہوسکا ہے۔ اس دوران جہاں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو قسمت آزمائی کا موقع
دیا گیا ،وہیں چار سال سے نادرا جیسا ادارہ بھی مصروف عمل ہے۔ حال ہی میں
معائنے کے لیے 50ہزار سے زاید ڈسپلے سینٹر میں رکھی گئی ووٹر فہرستوں کے
مطابق، اس میں شامل ووٹروں کی تعداد 8کروڑ 50 لاکھ کے قریب ہے۔لیکن یہ شفاف
ووٹر فہرستیں غلطیوں سے بھری پڑی ہیں۔ الیکشن کمیشن ذرائع کے مطابق نادرا
کے تعاون سے تیار ہونے والی ووٹر فہرستوں میں 80 فی صد سے زائد غلطیاں
موجود ہیں اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ شفاف ووٹر فہرست کے نام پر دانستہ
یا غیر دانستہ 2 کروڑ سے زائد ووٹروں کے نام غلط جگہ درج کرلیے گئے ہیں ،
جس کی وجہ سے آئندہ عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر اپ سیٹ ہونے کا امکان
ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ملک بھر سے اس ضمن میں آوازیں آنا شروع ہوگئی ہیں۔
یکم مارچ 2012ءکو سندھ اسمبلی ،چند روز قبل خیبر پختونخوا اسمبلی، بعد ازاں
9 مارچ 2012ءکو ایک مرتبہ پھر سندھ اسمبلی میں اس کی باز گشت سنائی دی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ووٹ کی معلومات کے لیے ایس ایم ایس سروس شروع
کی ہے ، جس سے 7مارچ 2012-ءتک تقریباً 50 لاکھ افراد نے اپنے ووٹ کے بارے
میں معلومات حاصل کیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ذرائع کے مطابق ان کو
ملنے والی شکایات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ووٹر فہرستوں میں 80 فی صد سے
زائد غلطیاں ہیں، جن کی درستگی میں 6 ماہ سے زائد کا عرصہ درکار ہوگا۔ اور
نادرا کے تعاون سے بننے والی ان ووٹر فہرستوں میں چاروں صوبوں، آزاد کشمیر،
گلگت بلتستان ، فاٹا اور اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے3سے4کروڑ افراد جو
کاروبار، ملازمت یا دیگر مقاصد کے تحت اپنے آبائی علاقوں کی بجائے دیگر
علاقوں میں موجود ہیں ، ان میں سے اکثریت کا اندراج دانستہ یا غیر دانستہ
طور پر ان کے موجودہ مقام کی بجائے مستقل ایڈریس پر کردیا گیا ہے۔ جس کی
وجہ سے اب وہ کلیم فارم کے ذریعے درستگی کے بغیر ،اپنا ووٹ کاسٹ نہیں
کرسکیں گے۔ اور کلیم فارم کے ذریعے درست اندراج بھی مشکل مرحلہ ہے۔
اس ضمن میں الیکشن کمیشن کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ایسے افراد کی تعداد 2
کروڑ سے زائد ہوسکتی ہے، جب کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ اندراج کے حوالے سے
بھی شکایات کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ 9 مارچ 2012ءکو سندھ اسمبلی کے اجلاس
میں سندھ کے وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ نے انکشاف کیا کہ ان کے حلقے
سیہون کے 7069 ووٹ صوبہ بلوچستان کے ضلع کھچ میں درج کیے گئے ہیں ۔اور یکم
مارچ 2012ءکو رکن سندھ اسمبلی انور مہرعلی خان نے ایوان میں یہ انکشاف کیا
تھا کہ ان کا اپنا نام ووٹ فہرست میں نہیں ہے۔ اس ضمن میں دیگر ذرائع سے
بھی بڑے پیمانے پر شکایتیں موصول ہورہی ہیں۔ پیپلز پارٹی، جمعیت
علماءاسلام(ف)، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی ،مسلم لیگ(ن)اور دیگر
جماعتیں بھی شدید تحفظات کا اظہار کررہی ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ ڈسپلے
سینٹرز میں رکھی گئی ووٹر فہرستوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دانستہ یا
نادانستہ طور پر ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کو اصل مقام سے ہٹاکر دوسری جگہ
درج کیا گیا ہے۔ یہ عمل انتہائی افسوس ناک ہے جس کی وجہ سے 2012ءمیں عام
انتخابات کا انعقاد نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔ عدالتی حکم کے
باوجود شفاف ووٹر فہرست کا تیار نہ ہونا یقینا عدلیہ کے احکام پر بھی عدم
اعتماد ہے، حالاں کہ نادرا کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ شفاف طریقے سے کام کرتا
ہے،لیکن چار سال گزرنے کے باوجود شفاف ووٹر فہرست کاتیارنہ ہونا ،اس کی
ناکامی کی دلیل ہی سمجھا جاسکتاہے۔
اس سے قبل1984ءمیں ایک دستی ووٹر فرست مرتب کی گئی تھی، جس کو موجودہ
کمپیوٹرائزڈ شفاف ووٹر فہرست کے مقابلے میں زیادہ بہتر قرار دیا جا رہا ہے۔
اسی کی بنیاد پر1985ءکے غیر جماعتی عام انتخابات ہوئے۔ اس ووٹرفہرست میں
چاروں صوبوں،فاٹا اور وفاقی دارالحکومت کے ووٹروں کی تعداد 34992425بتائی
گئی ۔1987ءمیں ووٹر فہرست کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کی گئی اور تیار ہونے
والی دستی ووٹر لسٹ کے مطابق 1988ئ، 1990ئ، 1993ءاور 1997ءمیں عام انتخابات
ہوئے،تاہم اس دوران اضافے کا عمل جاری رہا جس کی وجہ سے1988ءمیں
46206055ووٹ،1990ءمیں 47065330ووٹ،1993ءمیں 50377915ووٹ اور1997ءمیں
55068024ووٹ تھے۔
12اکتوبر1999ءکو اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد پرویز مشرف نے 2000ءمیں شفاف
ووٹر لسٹ تیار کرنے کی ہدایت کی ۔جس کی روشنی میں2000ءمیں ہی باقاعدہ کام
کا آغاز ہوا اور1998ءکی مردم شماری فارم کے مطابق ایک ووٹر فہرست 2000ءکے
آخر میں تیار کی گئی، لیکن اس میں بڑے پیمانے پر غلطیوں کی وجہ سے اسے
ناقابل عمل قرار دے دیا گیاتھا، بعد ازاں اس پر نظر ثانی کرکے 2001ءمیں نئی
ووٹر فہرست تیار کی گئی جس کے نتیجے میں 2002ءکے عام انتخابات ہوئے۔ اس
فہرست میں کل ووٹروں کی تعداد 71913850تھی۔
مگر 2005ءمیں ایک مرتبہ پھر نئی اور شفاف ووٹر فہرست کی تیاری پرکام شروع
ہوا۔ کیوں کہ2001ءمیں مرتب شدہ ووٹر فہرست پرعدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے
کہا گیا کہ ایک کروڑ سے زائد ووٹوں کا اندراج نہیں ہوا ہے۔جس کے بعد
پھرشفاف ووٹر فہرست کی تیاری کا کام شروع ہوا اور تقریباً دو سال
بعد2007ءمیں مکمل ہوا۔ جس کو بےنظیر بھٹو نے عدالت میں چیلنج کیا جس پر
عدالت نے رہ جانے والے ووٹروں کے اندراج کا حکم دیا،جس کے نتیجے میں تیار
ہونے والی ووٹر فہرست میں ووٹروں کی تعداد80796382 ظاہر کی گئی۔اوراسی کی
بنیاد پر 2008ءکے عام انتخابات ہوئے، لیکن اس ووٹر فہرست پر بھی شدید
اعتراضات ہوئے اور عدالت نے 2009ءمیں حکم دیا کہ ووٹرفہرست سے جعلی ووٹروں
کا اخراج کرکے شفاف ووٹر فہرست تیار کی جائے۔ جس کی بنیاد پر ایک مرتبہ پھر
شفاف ووٹر فہرستوں پر کام شروع ہوا اور اس دفعہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے
”نادرا“کا تعاون حاصل کیا۔جس کے بعد انکشاف ہواکہ 2007ءمیں تیار ہونے والی
ووٹر فہرست میں موجود 37186053 ووٹروں کی تصدیق نہ ہوسکی یا ان کا اندراج
ایک سے زائد بار ہوا ہے ۔ اور اس طرح 2007ءکی ووٹر فہرست میں سے44027567
ووٹروں کا اندراج درست قرار دیا گیا۔ دوسری جانب نادراکا دعویٰ تھا کہ اس
کے پاس 36,696,442 ایسے افراد کا ڈیٹا موجود ہے جو ووٹر بننے کے اہل ہیں۔
ان کو شامل کرکے 80724009 ووٹروں کی ایک مجوزہ شفاف ووٹر فہرست تیار کرنے
کی یقین دہانی کرائی گئی۔
اسی کے نتیجے میں 2011ءمیں الیکشن کمیشن پاکستان نے ووٹروں کی تصدیق کا عمل
شروع کیا جو کئی ماہ تک جاری رہا۔ اسی عمل کے نتیجے اور”نادرا“ کے تعاون سے
تیار ہونے والی مجوزہ کمپیوٹرائزڈ شفاف ووٹر فہرست اب ملک بھر کے50ہزار سے
زائدڈسپلے سینٹرز میں رکھی گئی ہے، جو 21مارچ2012ءتک آویزاں رہے گی۔ جس میں
ووٹروں کی تعداد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے8 کروڑ50 لاکھ بتائی ہے۔
12سال کی طویل جدو جہداور اربوں روپے کے اخراجات کے نتیجے میں تیار ہونے
والی ووٹر فہرست میں 80فی صد سے زائد غلطیوںیا2کروڑ سے زاید ووٹروں کے غلط
جگہ اندراج کے انکشاف نے، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور” نادرا“ کی اس 12
سالہ کارکردگی کو سوالیہ نشان بنادیا ہے۔کہا جارہا ہے کہ اربوں روپے کے
اخراجات کے باوجود دونوں ادارے نہ صرف شفاف ووٹر لسٹ تیار میں ناکام ہوئے
بلکہ انہوں نے کروڑوں ووٹروں کی اصلیت ہی بدل دی۔
گزشتہ12 سال کے دوران شفاف ووٹر فہرستوں کی تیاری میں ناکامی کی اصل وجہ یہ
ادارے نہیں بلکہ حکمرانوں کی غفلت، بدنیتی اور عوام کی لاپروائی ہے۔ کہنے
کی حد تک الیکشن کمیشن پاکستان ایک آزاد اور خود مختار آئینی ادارہ ہے،
لیکن کبھی بھی یہ آزاد رہا اور نہ ہی خود مختار۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں
ہونے والے انتخابات نہ کبھی شفاف ہوئے اور نہ ہی کمپیوٹرائزڈ ووٹر فہرست
شفاف بن سکی۔ دراصل الیکشن کمیشن اور” نادرا“ کے کام کرنے کا الگ الگ طریقہ
ہے۔ ”نادرا“ درست پتے اور نام کی بنیاد پر ڈیٹا تیار کرتا ہے، جس کے لیے
تمام معلومات درست ہونا ضروری ہےں۔ اور اسی کے نتیجے میں شناختی کارڈ اور
دیگر قانونی دستاویزات تیار ہوتی ہیں۔نئی کمپیوٹرائزڈ شفاف ووٹر فہرست کے
لیے بھی اس نے اسی فارمولے کو اپنایا، جس کی وجہ سے چاروں صوبوں، آزاد
کشمیر، گلگت بلتستان ، فاٹا اور اسلام آباد کے کاروبار، ملازمت یا دیگر
مقاصد کے تحت اپنے آبائی علاقوں کی بجائے دیگر علاقوں میں موجود 3سے4کروڑ
افراد میں سے اکثریت کا اندراج دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ان کے موجودہ
مقام کی بجائے مستقل ایڈریس پر کردیا گیا ہے۔ حالاں کہ ان میں سے اکثریت کا
اندراج سابقہ ووٹر فہرستوں موجود تھا،ان میں بعض منتخب عوامی نمائندے بھی
شامل ہیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ذرائع کے مطابق مستقل ایڈریس کا
فارمولا صرف ان لوگوں کے لیے طے ہواتھا، جن کا پہلے سے ووٹر فہرست
میںاندراج نہ ہو، ان کے شناختی کارڈز میں ڈبل ایڈریس بھی موجود ہوں اور
تصدیقی عمل میں انہوں حصہ نہ لیا ہو۔ مگر ”نادرا“نے اس کا اطلاق ڈبل ایڈریس
والے اکثر ووٹروں پر کیا۔اور بیشتر جگہ تصدیقی عمل میں شامل لوگوں کو بھی
مستقل ایڈریس پر درج کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ان کے نزدیک
عارضی اور مستقل ایڈریس اور ملک کے اندر نقل مکانی کوئی معنی نہیں ہے۔ ایک
ووٹر کے لیے صرف پاکستانی ہونا اور ملک کے کسی بھی حصے میں اس کی موجودگی
ضروری ہے اوروہ جہاں چاہے اپنے ووٹ کا اندراج کراسکتا ہے۔مگر” نادرا“ کے
مستقل ایڈریس کے فارمولے نے دونوں اداروں کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔ جب کہ
اس سے کمپیوٹرائزڈ شفاف ووٹر فہرستوں کی تیاری کاپوراعمل بھی مشکوک ہوگیا
ہے۔ یہی وجہ ہے عدالت کے حکم کے مطابق بروقت کمپیوٹرائزڈ ووٹر فہرست،
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لیے امتحان ثابت ہورہی ہے اور ہر طرف سے ڈسپلے
سینٹرز میں رکھی گئی فہرستوںکی مدت میں توسیع کا مطالبہ ہو رہا ہے۔
کروڑوں اغلاط کی درستگی کلیم فارم کے بغیر ممکن نہیں ہے اور یہ عمل بھی عام
لوگوں کے لیے صبر آزما ہے،تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ووٹ کے
بارے میں معلومات کے لیے ”8300“ پر ایس ایم ایس سروس کی طرح، اغلاط کی
درستگی اور درست جگہ اندراج کے لیے موبائل سروس یا پھر ٹول فری نمبر کی
سہولت فراہم کرنے سے کمپیوٹرائزڈ ووٹر فہرست کو شفاف بنانے میںمدد مل سکتی
ہے۔ یہی عمل ملک میں شفاف کمپیوٹرائزڈ ووٹر فہرست کی تیاری اور شفاف الیکشن
کو ممکن بناسکتا ہے ۔ورنہ اربوں روپے کے اخراجات سے تیار ہونے والی
کمپیوٹرائزڈ ووٹر فہرست ملک میں نئے بحران کا سبب بنے گی،کیوں کہ سیاسی
قوتوں اور عوام کی ایک بڑی تعداد کو ڈسپلے سینٹرز میں موجود کمپیوٹرائزڈ
ووٹر فہرستوں میں اغلاط کا فی الحال ادراک نہیں ہے۔ |