افغانستان:سرکتی جائے ہے رُخ سے نقاب آہستہ آہستہ

قندھار شہر سے ۲۲ میل دور پنجوائی نامی گاؤں میں رات کے دو بجے شراب کے نشے میں دھت ہنستے اور قہقہہ لگاتے ہوئے چند وحشی درندے داخل ہوتے ہیں اور نیند کی آغوش میں سوئے ہوئے بچوں اور عورتوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردیتے ہیں ۔ ان کی اس درندگی کا شکار ہو کر ۱۶ معصوم لوگ جان بحق ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد گولیوں سے چھلنی لاشوں پر کیمیکل ڈال کر انہیں جلا دیا جاتا ہے ۔لیکن اس اندوہناک واقعہ کا شمار دہشت گردی میں نہیں ہوتا ۔ اس لئے کہ ان مظلومین میں سے گیارہ کا تعلق حاجی عبدالصمد کے خاندان سے ہے ۔مقتولین کا تعلق مسلمانوں سے ہونا ہی اس واقعہ کو دہشت گردی کی فہرست سےخارج کرنے کیلئے کافی تھا لیکن اگر حملہ آوروں کے تن پر امریکی فوجی وردی ہو تب تو یہ بزدلانہ حرکت مقدس صلیبی جنگ بن جاتی ہے جس کو آج سے دس سال قبل جارج ڈبلیو بش نے عالم اسلام کے خلاف چھیڑا تھا اورجسے براک اوبامہ بڑے شدومد سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ افغانستان کی سر زمین پر ایسے واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں تاکہ افغانی عوام کے حریت پسند روح کو کچلا جاسکے لیکن صورتحال اس شعر کی مصداق بنی ہوئی ہے کہ۔
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

افغانستان کے بے غیرت صدرحامد کرزئی کا اس اندوہناک واقعہ پر ہونے والا ردعمل شرمناک ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ’ دانستہ قتل‘ ہےاور اسے معاف نہیں کیا جا سکتا ۔ سوال یہ ہے کیا حکمراں کا کام اس بات کی صفائی دینا ہے کہ کس واقعہ کو معاف کیا جاسکتا ہے اور کس کو نہیں ؟ یا مجرمین کو سزا دینا اسکی ذمہ داری ہے ؟ کرزئی نے اسے عمداً قتل کا واقعہ قرار دیتے ہوئے امریکہ سے وضاحت طلب کی اور کہا کہ ہم بارہا امریکیوں سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ وہ افغانی شہریوں کا قتل عام بند کردے۔ یہ بیان ازخود اس حقیقت کا غماز ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری و ساری ہے نیز اس بات کی نشاندہی بھی کرتاہے کہ انہوں نے اس دوران صرف مطالبات پر اکتفا کیاجو بے نتیجہ رہے ۔ تو کیا وہ آئندہ بھی اسی رخصت کی روش کو جاری و ساری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا کوئی اقدام بھی کرنا چاہتے ہیں ؟ ماضی میں تو حامدکرزئی کا حال تو ایسا رہا ہے کہ۔
وہ بے دردی سے سر کاٹے امیر اور میں کہوں ان سے
حضور آہستہ آہستہ ، جناب آہستہ آہستہ

افغانستان کا المیہ یہ ہے کہ وہاں پر ایک ایسا وزیر دفاع مسلط ہے جو اس واقعہ پر محض صدمہ اور افسوس کا اظہار کر کے بیٹھ رہتا ہے اور وزیر داخلہ صدیق صدیقی مذمت و تفتیش کا یقین دلاکر مطمئن ہوجاتا ہے ۔ گزشتہ سال ۲۰۱۱؁ افغانستان میں ۳۰۲۱ معصوم لوگ مارے گئے اور ۴۵۰۷ زخمی ہوئے۔کیا ان معصوموں کے خونِ ناحق کا کوئی قصاص نہیں لیا جائے گا؟ اور عوام کو وحشی درندوں کا اسی طرح شکار ہونے دیا جاتا رہےگا؟ اگر کسی صدر مملکت کا اختیاِ رعمل صرف وضاحت کی طلبی تک محدود ہو اور اگر اس کے اندر اس سے زیادہ کچھ کرنے کی جرات و ہمت نہیں ہو تو کیا اسے اقتدار میں بنے رہنے کا حق حاصل ہے؟ اگر نہیں تو جو لوگ اسکے اقتدار کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کے خلاف بر سر جنگ ہیں کیا وہ حق بجانب نہیں ہیں؟یہ ایسے بنیادی سوالات ہیں جن کا جواب پانے کیلئے کسی کامفکر یا دانشور ہونا ضروری نہیں ہے بس اس کا ضمیر زندہ ہو یہی کافی ہے ۔

حامد کرزئی کے برخلاف طالبان نے اپنی ویب سائٹ پر اعلان کیا کہ نام نہاد امریکی امن کے علمبرداروں نے قندھار صوبے میں پھر ایک بار معصوموں کے خون سے اپنی پیاس بجھائی ہے ۔ ای میل کے ذریعہ جاری کردہ بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ ہم ان ہلاکتوں کا بدلہ لیں گے ۔جو بات طالبان نے کہی وہی مطالبہ مقتولین کے وارث عبدالصمد خان نے بھی دوہرایا۔ انہوں نے کہا یہ ایک غیر انسانی اور غیر اسلامی عمل ہے ۔دنیا بھر میں کوئی مذہب عورتوں اور بچوں کے قتل کی اجازت کسی کو نہیں دیتا ۔عبدالصمد کا کہنا ہے کہ یا تو کرزئی قاتل کو سزا دیں یا ہم خود اس کا فیصلہ کریں گے ۔ ان کا مطالبہ ہے قاتل کوان کے حوالے کیا جائے اور دنیا کا کون انصاف پسند شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ جس کے خاندان کے گیارہ افراد کو ایک وحشی درندوں نے موت کےگھاٹ اتار دیا اسے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ قاتل کو وہ سزا دلوائے۔اس سے پہلے الکوزی گاؤں میں جب امریکیوں نے اپنی بہیمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چار لوگوں کو مار ڈالا تھا اس وقت وہاں کے لوگوں نے بھی بعینہِ یہی مطالبہ کیا تھا۔اس گاؤں کی ایک خاتون نےاپنے بیان میں کہا تھا کہ یہاں نہ طالبان تھے اور نہ کوئی جھڑپ ہو رہی تھی۔ اس نے کہا ہم نہیں جانتے یہ غیر ملکی فوجی کیوں ہمارے خاندان کے معصوم لوگوں کو ہلاک کر دیتے ہیں ۔ یہ قاتل یا تو شراب کے نشے میں تھا یا وہ شہریوں کے قتل سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔

افغان کے موجودہ تنازعہ میں تیسرے فریق نام نہاد آزاد دنیا کے سرخیل امریکی انتظامیہ کااس بارے میں رویہ بھی قابل توجہ ہے ۔ امریکی صدر براک اوباما نے اسے ایک المناک اور دہلانے والا واقعہ قرار دیا ہےمگر یہ بتانے کے بجائے اس کے اسباب وعلل کیا ہیں اور وہ ان درندہ صفت مجرمین کو کس طرح اور کب کیفر کردار تک پہنچایاجائیگا اپنی صفائی میں لگ گئے اور کہا کہ امریکی فوجی کے ہاتھوں ہلاکتوں کا یہ واقعہ امریکی فوج یا امریکہ کی افغانیوں کے لیے عزت وتوقیر کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔اگر ایسا ہے تو یہ کس بات نشاندہی کرتا ہے یہ بتانے کی زحمت انہوں نے گوارہ نہیں کی ۔ذرائع ابلاغ کے اندر یہ خبرابھی سے گردش کرنے لگی کہ وہ امریکی فوجی ذہنی طور پر پریشان تھا ساتھ اس قدر شریف بھی تھا کہ گولیاں چلانے کے بعد اس نے اپنے آپ کو امریکی حکام کے سپرد کردیا۔اس تبصرے کو پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے امریکی صدر سمیت ان کے سارے حواری نہ پریشان بلکہ ذہنی مریض ہیں اور یہ پریشانی اور ذہنی کشیدگی ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے جس سے وہ کسی صورت دستبردار ہونا نہیں چاہتے۔

امریکی فوج نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انہیں اس ’قابل مذمت‘ واقعہ کا بے حد افسوس ہے۔ تاہم نیٹو کا کہنا ہے کہ امریکہ اور افغانستان کے حکام اس تشویشناک سانحہ کی تفتیش کر رہے ہیں۔ اس نام نہاد تحقیق کا عالم یہ ہے کہ بریگیڈیر جنرل یاکبسن اس واقعہ میں ہلاک و زخمی ہونے والے افغان شہریوں کی تعداد کی تصدیق تک نہیں کر سکے جبکہ اس سے ساری دنیا واقف ہو چکی ہے ۔ اُن کے مطابق بعض زخمیوں کو اتحادی افواج کی تنصیب پر طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے لیکن وہ نہیں جانتے اس طرح کے واقعات کا زخم جسم سے زیادہ دل پر لگتا ہے اور وہ اس وقت تک نہیں بھرتا جب تک کہ مجرم کو قرار واقعی سزا نہیں مل جاتی ۔ امریکی انتظامیہ اس طرح کے درندوں کو پال پوس کر دنیا بھر میں بھیجتا ہے اور ہر طرح سے ان کی حفاظت کرتا ہے وہی آگے چل کر اس پر ہونے والے حملوں کا بلاواسطہ سبب بنتے ہیں۔

نیٹو کے ترجمان نے بتایا کہ امریکی اہلکار کے اس اقدام کے محرکات تاحال واضح نہیں ہو سکے ہیں ۔یہ سراسر کذب بیانی ہے گزشتہ دنوں امریکہ کے ایک صحافی نے اپنے مضمون میں امریکی فوج کے عراق جانے سے قبل ان کی تربیت کیلئے استعمال کی جانے والی ایک فلم کا ذکر کان تھا جس میں سپاہی دوڑتے ہوئے گارہے تھے،"قتل کردو عورتوں کو! قتل کردو بچّوں کو!"اور اس کے بعد انہیں سڑکوں پر عام شہریوں پر گولیاں برساتے ہوئے دکھلایا گیا تھا ۔ اس طرح کی تربیت کا نتیجہ اس طرح کی بہیمانہ قتل و غارتگری کے سوا اور ہو بھی کیا سکتا ہے ۔ افغانستان میں بین الاقوامی افواج کے کمانڈر جنرل جان ایلن نے اپنے تحریری بیان میں اس واقعہ پر صدمے اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے افغان عوام کو یقین دلایا ہے کہ ’’تحقیقات جامع اور انتہائی تیزی سے کی جائیں گی‘‘ لیکن اس پر کوئی یقین نہیں کرتا اس لئے کہ ماضی میں ایسی تصاویر تک منظر عام پر آچکی ہیں جس میں فوجیوں کو قتل کر کے مقتولین پر پیشاب کرتے ہوئے دکھلایا گیا لیکن ان پر کارروائی کی کوئی تفصیل آج تک سامنے نہیں آئی ۔

امریکہ کی نیت کے کھوٹ کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ باوجود اس کے کہ یہ جرم افغانستان کی سرزمین پر ہوا ہے وہ ان مجرمین کو افغانیوں کے حوالے نہیں کرتا بلکہ اپنی تحویل میں رکھتاہے اورپھر یہ بھی کہتا ہے کہ اس واقعہ کے حقائق کا تعین کرنے میں افغان حکام کی مکمل مدد کی جائے گی۔ یہ وہی امریکہ ہے جس نے اسامہ بن لادن پر۱۱ ستمبر کے حملہ کا بے بنیاد الزام لگایا اور انہیں حوالہ نہ کرنے کا بہانہ بنا کر افغانستان پر ہلہ بول دیا تھا ۔ کیا اسی کا نام مساوات اور انصاف ہے ؟امریکہ کا یہ دعویٰ کہ ’’یہ ہولناک واقعہ کسی بھی طرح اتحادی افواج کی اقدار کا آئینہ دار نہیں، اور نا ہی اس سے افغان سکیورٹی فورسز کے ساتھ نیٹو کے ا شر اک پر کوئی اثر پڑے گا ‘‘محض اپنے آپ کو بہلانے کی ایک کوشش ہے ۔ اس واقعہ سے قبل ہی امریکہ افغانستان رسوائی کی گہری کھائی کے اندر اتر چکا ہے اور اب اس کا واقعہ نے تو آگ میں تیل کا کام کر دیا ہے نیز امریکہ کی ذلیل و رسوا ہوکر افغانستان سے نکل بھاگنے کی راہ ہموار کر دی ہے ۔اسی لئے نیٹو کے ترجمان یاکبسن نے اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا’’اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ واقعہ نیٹو کی کوششوں یا افغان سکیورٹی فورسز کو سلامتی کی ذمہ داریوں کی منتقلی کے عمل پر منفی اثرات تو مرتب نہیں کرے گا؟‘‘

امریکی انتظامیہ کے مطابق اس کا قرآنی نسخوں کو جلائے جانے اور اس کے خلاف ہونے والے احتجاج سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ لیکن کیا وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں اس کے بعد پھر ایک بار عوامی احتجاج کا آغاز نہیں ہو گا ؟ گزشتہ ماہ سےقرآنی نسخے نذر آتش کیے جانے کے معاملے پر امریکی افواج اور افغانی باشندوں کے درمیان کشیدگی پائی جا رہی ہے۔قرآن کی بے حرمتی پر متعدد اعلیٰ امریکی عہدیداروں کی جانب سے معذرت کے باوجود افغانستان میں احتجاجی مظاہروں اور حملوں کا سلسلہ کئی روز تک جاری رہا جس میں چھ امریکی فوجی اور کم از کم تیس افغان شہری ہلاک ہو گئے۔اور اب یہ فائرنگ کا تازہ واقعہ رونما ہوگیا جب کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کے مخالف جذبات ابھی سرد نہیں ہوئے ہیں اور افغان ایک خوددار قوم ہے جو اپنے دشمن کو کبھی نہیں بخشتی ۔

اس واقعہ کے اثرات کا اندازہ ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار نیوٹ گنگرچ کے اعتراف شکست سے کیا جاسکتا ہے انہوں نے کہا کہ امریکہ کا افغانستان سے نکلنے کا وقت آچکا ہے ۔ہم وہاں پر بنیادی تبدیلی لانے کیلئے اپنے اندر ضروری سفاکی کا فقدان پاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ جس درندگی اور سفاکی کا مظاہرہ امریکیوں نے کیا ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی لیکن اس کے باوجود وہ افغانیوں کو اپنا غلام بنانے میں کامیاب نہ ہو سکے یہ اس دور کا معجزہ ہے ۔گنگرچ نے مزید کہا ہمیں اس پورے خطہ کی حکمت عملی کا پھر سے جائزہ لینا چاہئے اوراپنے مشن پرنظرِ ثانی کرنی چاہئے۔ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا چاہئے کہ افغانستا ن جیسے ملک میں ہماری موجودگی بیجا ردعمل کو جنم دے رہی ہے ۔ ہم بزور قوت انہیں تبدیل کر نے میں ناکام ہو چکے ہیں ۔جارج بش کی پارٹی کا رہنما دس سال بعد ٹی وی پر اس حقیقت کا اعتراف کرے گا یہ بات کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی ۔امریکی تحفظ کے ماہر مارٹن کے مطابق کسی امریکی فوجی کا نہتے عوام پر سوتے میں گولیا ں برسانا افغانیوں کی حفاظت کے نام نہاد امریکی دعویٰ کی دھجیا ں اڑاتا ہے ۔

ایک طرف امریکہ طالبا ن سے مصالحت کرنے کی کوشش کررہا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت افغان حکام کا یہ بیان ہے کہ گوانتاناموبے کے امریکی قید خانے میں موجود پانچ طالبان قیدیوں نے قطر منتقل ہونے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے اور توقع ہے کہ اس اقدام سے افغانستان میں مصالحت کے لیے کی جانے والی کوشش کو تقویت ملے گی۔افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان ایمل فیضی نے اس قدم پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا ’’ہمیں امید ہے کہ یہ اقدام امن کی کوششوں کی جانب مثبت قدم ثابت ہو گا‘‘وال سٹریٹ جرنل‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ اور افغانستان کی حکومتوں نےطالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کر دئے ہیں۔ اس کا انکشاف خود افغان صدر حامد کرزئی نے اس اخبارکے ساتھ انٹرویو میں کیا ہے، جو اِس دس سالہ جنگ کو ختم کرنے کی کوششوں میں ایک اہم پیش رفت ہے۔لیکن اسی کے ساتھ مروبی ماہرین یہ اعتراف بھی کرنے لگے ہیں کہ صدر کرزئی نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے خود کو مشکل شراکت دار ثابت کیا ہے جو اکثر تعاون نہیں کرتا ۔ اس لئے اس بات کا بھی امکان ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ براہ راست کوئی سمجھوتہ کر لے جیسا کہ ۱۹۷۳؁ میں جنوبی ویتنام کی حکومت کو نظر انداز کرتے ہوئے شمالی ویتنام کے ساتھ امریکیوں نے کر لیا تھا۔

امریکہ اپنے آپ کو افغانستان سے نکال کر لے جانے کیلئے کون سا راستہ اختیار کرتاہے یہ تو کہنا مشکل ہے لیکن یہ بات طہ ہے اس جنگ نے امریکی دلیری کا پول کھول کر رکھ دیا ہے ۔ اس کے بہادر فوجیوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ چھوٹے بچوں کی مانند ڈائپر پہنے بغیر اپنی چھاونی سے نہیں نکلتے تاکہ اپنی حاجت کو پورا کرنے کیلئے بھی ٹینک سے باہر آنے کی ضرورت نہ پڑے لیکن یہ ضرور کرتے ہیں کہ آدھی رات میں اپنی بیرک سے چوروں کی مانند نکلیں اور سوتے ہوئے عورتوں اور بچوں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنائیں سچ تو یہ ہے کہ افغانستان میں امریکیوں نے اپنے چہرے پر پڑی تہذیب و تمدن کی خوشنما نقاب کو اپنے ہاتھوں سے نوچ کر پھینک دیاہے اور اب اس کااستبدادی کریہہ چہرہ ساری دنیا کے سامنے آرہاہے بقول شاعر’’سرکتی جائے ہے رُخ سے نقاب آہستہ آہستہ‘‘
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1226568 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.