قوم کو مبارک ہو یہ خبر کسی
خوشخبری سے کم نہیں ہے کہ ہمارا الیکشن کمیشن بھی خواب غفلت سے بیدار ہو
گیا ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ایس 53سے پاکستان پیپلز پارٹی کی ہتھ
چھٹ اور جیالی نو منتخب ایم پی اے وحیدہ شاہ کے خلاف جراتمندانہ اور تاریخی
فیصلہ دیا ہے۔اس فیصلے کو ہر طبقہ فکر کے افراد نے سراہا ہے۔شاید پاکستان
کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ الیکشن کمیشن نے حکمران جماعت کی نو منتخب
رکن صوبائی اسمبلی کو دو سال کے لیے نااہل قرار دیا ہے۔الیکشن کو کالعدم
قرار دے کرآئندہ دو ماہ میں نئے انتخاب کا حکم بھی جاری کیا گیا ہے۔اسے
الیکشن کمیشن کی طرف سے پہلا جراتمندقدم بھی کہا جا سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن
کے اس تاریخی اقدام کی وجہ سے یہ امید پیدا ہو چلی ہے کہ آگے چل کر مزید
سنگ ہا ئے میل بھی گاڑے جائیں گے۔قانون کی عملداری ہو گی اور الیکشن کمیشن
دستوری قواعد و ضوابط کو لاگو بھی کرے گا۔اس طرح شاید ہمارا الیکشن بھی
تگڑا ہو جائے۔اپنی قوت اور قانونی طاقت کو استعمال کرنے کے قابل ہو
جائے۔ساری پاکستانی قوم کی یہ خواہش اور آرزو ہے کہ الیکشن کمیشن بھی حقیقی
معنوں میں آزاد اور خود مختار ہو جائے۔ہر قسم کے سرکاری اور سیاسی اثرورسوخ
سے آزاد اور بے پرواہ ہو کر کام کرے۔ایسا کام اور ایسے فیصلے کرے کہ جو نظر
بھی آئیں۔وحیدہ شاہ کے خلاف جو فیصلہ آیا ہے عوام کی اکثریت نے اس فیصلے کو
سراہا ہے۔اس فیصلے کی وجہ سے ہی یہ تبصرہ سامنے آیا ہے کہ ہمارا الیکشن
کمیشن بھی خواب خرگوش سے باہر آگیا ہے اور اب اس نے انگڑائی لی ہے۔شاید آنے
والے وقتوں میں اسے اپنی قوت اور اختیارات کا صحیح صحیح اندازہ ہو جائے اور
وہ اپنی قوت ا ور طاقت کو عوامی اور ملکی وقار کے حق میں اور قانون کی
عملداری کے لیے بلا ججھک استعمال بھی کرے۔وطن عزیز پاکستان میں آج عدلیہ
اور میڈیا جس طرح آزاد اور متحرک ہیں کاش وہ وقت بھی جلد آئے کہ ہمارا
الیکشن کمیشن بھی اسی طرح سے آزاد اور متحرک ہو جائے تو ہمارے بہت سے سیاسی
مسائل حل ہو سکتے ہیں اورپھر بہتر سے بہتر پارلیمنٹیرینز ملک اور قوم کو
میسر آ سکتے ہیں۔
ہم بچپن سے یہ سنتے اور پڑھتے چلے آرہے ہیں کہ ہمارے ایک پڑوسی ملک بھارت
کا الیکشن کمیشن خود مختار اور بڑا طاقتور ہے۔وہ اپنے قوانین اور فیصلوں پر
سختی کے ساتھ عملدرآمد بھی کرواتا چلا آ رہا ہے۔جس کی وجہ سے وہاں جمہوریت
مستحکم ہوئی ہے۔آپ بھارت کی پالیسیوں سے لاکھ اختلاف کریں ۔دیگر کئی شعبوں
میں خرابیوں ٬ کمزوریوں اور طرح طرح کی قباحتوں کے باوجود دنیا بھر میں یہ
تاثر مستحکم ہو چکا ہے کہ بھارت ایک جمہوری ملک ہے۔اگر چہ وہاں بھی الیکشن
کے دوران دھونس دھاندلی اور طاقت کا استعمال حتٰی کہ قتل و غارتگری کے
واقعات بھی دیکھنے میں آتے رہتے ہیں۔اداروں کی مضبوطی اور جمہوری عمل کے
تسلسل سے ہی جمہوریت مستحکم ہوتی ہے اور دنیا میں اپنے ملک کی جمہوری شناخت
نمایاں ہوتی ہے۔اگر ہمارے ملک میں بھی شخصیات اور حکومتوں کو مضبوط کرنے کے
بجائے اداروں کو مضبوط بنایا جاتا اور بنے ہوئے قوانین پر صدق دل سے
عملدرآمد کیا جاتا تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے ۔چلئے دیر آید درست آید
کے مصداق اب بھی اگر میڈیا اور عدلیہ کی طرح ہمارا الیکشن کمیشن بھی حقیقی
معنوں میں آزاد اور خود مختارادارے کے طور پر کام کرنا شروع کر دے اور کسی
قسم کی مداخلت کو ہرگز قبول نہ کرے تویہاں بھی حالات میں تبدیلی آسکتی ہے۔
ہمارے کچھ قلمکار دوست وحیدہ شاہ اور اس قسم کے دیگر جیالوں کی قانون شکنی
مار دھاڑاور طاقت کے استعمال کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اسے محض پیپلز پارٹی
کا کلچر کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔اگر اس قسم کی کوئی غیرقانونی اور
غیر اخلاقی حرکت کسی دینی جماعت کے رہنما کی طرف سے سرزد ہو جائے توہمارا
یہی میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے اور پھر بین الاقوامی میڈیا بھی اس میں
اپنا حصہ ضرور ڈالتاہے۔اب وحیدہ شاہ کے معاملے کو ہی لے لیں ۔اگرچہ تھپڑ ٬گالی
اور گولی کا کلچر ہمارے ہاں شروع سے ہی چلا آ رہا ہے۔جہاں جس جماعت کے
امیدوار کو موقع ملتا ہے یا اس کی پوزیشن مضبوط ہوتی ہے تو امیدوار ہی نہیں
بلکہ اس کے حامی بھی من مانی کرتے چلے آرہے ہیں۔انتخابی عملہ اور قانون کے
رکھوالے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں اور طاقتور امیدوار یا اس کے حامیاپنی مرضی
کے نتائج حاصل کرنے کے لئے طاقت دھونس اور دھاندلی کا مظاہرہ کرنے سے کبھی
نہیں چوکتے۔اللہ کرے کہ ہمارا الیکشن کمیشن سپریم کورٹ میں اٹھائے گئے
سوالات کی روشنی میں اور میڈیا کی طرف سے سامنے آنے والی تجاویز کو مدنظر
رکھتے ہوئے سستی اور کمزوری کو چھوڑ کر اپنا حقیقی آئینی اور قانونی کردار
ادا کرے۔کسی وڈیرے اور طاقتور کی پرواہ نہ کی جائے۔اسی سے دنیا میں ملک و
قوم کو سربلندی اور اعلیٰ مقام مل سکتا ہے۔آنے والے دنوں میں پاکستان کی
دنیا میں ایک جمہوری ملک کی پہچان اور شناخت کے لئے الیکشن کمیشن کا ایک
اہم اور کلیدی کردار ہو گا۔اور آخر میں شہزاد سمانا کے دو اشعار پیش خدمت
ہیں۔
میں آج خوش ہوں کہ سچائی سر بلند ہوئی
جو گونج اٹھی تھی تھپڑ کی دور تک پہنچی
یہ سبق ہے یا فتح ہے حقوق نسواں کی
جو آہ نکلی تھی دل سے سرور تک پہنچی |