اپنی زمین کی حفاظت کے لیے کوشش
کرناانسانی حقوق کا حصہ ہے۔ دنیا بھر میں بہت سی مثالیں اس کی موجود ہیں۔
ہمارے ملک کو ہی لے لیں۔ اس کی آزادی میں جن لوگوں نے حصہ لیا، سرفروشی کی
مثال قائم کی، وہ ہیرو مانے گئے، مجاہد کہے گئے، لیکن! یہ کتنا بڑا المیہ
ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں سے انھیں کی زمین چھینی اور اپنی زمین کی واپسی
کے لئے فلسطینیوں کی جدوجہد کو ”دہشت گردی“ کا نام دے دیا گیا۔ ساری دنیا
کے اسلام مخالف ممالک نے انھیں دہشت گرد مان بھی لیا۔ یہ ظلم ہے، یہ زیادتی
ہے، یہ انسانی حقوق کی کھلی پامالی ہے،یہ انسانیت کا کھلا مذاق ہے، ورنہ ہر
ملک کا وفادار شخص اگر اپنے ہی ملک سے غیر کے تسلط کے خاتمے کے لیے حصہ لے
گا تو اسے بھی دہشت گرد کہا جائے گا۔ پھر یہی ممالک جو اسرائیل کا ساتھ
دیتے ہیں، فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی کی کھلی اجازت دیتے ہیں وہ اپنے
اپنے ملک کی بڑی شخصیات جنھیں آزادی کا ”ہیرو“ کہتے ہیں انھیں ”دہشت گرد“
کہیں!
چھ دہائی قبل جب کہ فلسطین برطانوی نو آبادی تھا تب بھی اہلِ فلسطین غلامی
کی زندگی گزارتے تھے، اسی دور میں ہند بھی غلام تھا اور دنیا کے کئی ممالک
برطانوی تسلط سے نبرد آزما تھے۔ یہ غلامی بھی کسی عظیم زیادتی سے کم نہ تھی۔
دوسری جنگ عظیم میں برطانوی تباہی اور بربادی نے انھیں اپنے نوآبادیاتی
نظام یا بہ الفاظ دیگر سامراجی تسلط سے دست برداری پر مجبور کیا۔ انھوں نے
بہت سے ملکوں کو آزادی دی، لیکن فلسطین میں اسلام دشمنی کا وہ عظیم کھیل
کھیلا کہ جسے تاریخ انسانی کا بدنما داغ کہا جائے تو بجا ہے۔ برطانیہ نے
ایک طرف فلسطین کو آزادی دی اور در پردہ یہودی اسٹیٹ کری ایٹ بھی کر دی۔
ادھر آزادی کا اعلان دوسری طرف اسرائیل کا قیام۔ یہ وہ بدترین مذاق تھا
فلسطینیوں کے ساتھ جس کا ازالہ آج تک نہ ہو سکا۔اور یہ گھناؤنا کھیل صرف اس
لیے کھیلا گیا کہ یورپ یہودیت کو قبول کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہا تھا،
دوسری طرف یہودی خود قبلہ اول پر نظریں گاڑے بیٹھے تھے، انھیں تو بڑا زریں
موقع ہاتھ آ گیا، طشت میں سجا کر فلسطین دے دیا گیا، چاہے جیسے چاہیں وہ
مسلمانوں کو اسیر بنا رکھیں، انھیں کوئی کچھ نہ کہے گا، بس پروپے گنڈہ جاری
رکھنا ہے، کہ مسلمان دہشت گرد ہیں، وہ تل ابیب کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں،
اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں۔
اسرائیل نے یورپ کے تعاون سے فلسطینیوں کو مسلسل ہراساں کیا، مساجد کو
نقصان پہنچایا، قبلہ اول پر قبضہ کی کوشش کی، اذان و صدائے کبریائی نے اسے
ہلا کر رکھ دیا، کئی بار نئے نئے قانون وضع کر کے اذان پر پابندی کی کوشش
کی۔ خونِ مسلم سے وہ ہولی کھیلی جس نے چنگیزی مظالم کو شرما دیا۔ ہر طرح کے
تشدد کو روا رکھا، وسیع پیمانے پر تباہی والے ہتھیار غیر اعلانیہ طریقے سے
تیار کیا اور انھیں مسلمانوں پر آزمایا۔ اور آج بھی یہ سلسلہ دراز ہے۔ وسیع
پیمانے پر تباہی والے ہتھیار کا محض الزام لگا کر عراق کی اینٹ سے اینٹ
بجائی جا سکتی ہے تو کیا انھیں ہتھیاروں کو باضابطہ استعمال کرنے کی بنیاد
پر اسرائیل کے وجود کو قائم رکھا جا سکتا ہے؟.... جمہوریت کے ان دعوے داروں
کا کیا فیصلہ ہے جو محض ایک جھوٹے الزام کے تحت عراق کو تباہ کروانے میں
امریکہ کے شریک رہے؟....کیا مسلمانوں کے سب سے بڑے مذہبی مرکز مکہ شریف و
مدینہ شریف کے بادشاہوں کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ فلسطینیوں کو اسرائیلی
دہشت گردی سے بچانے کی عملی تدابیر کریں؟ اور اسرائیل کے وسیع پیمانے پر
تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو طاقت کے استعمال سے ختم کر کے دہشت گردی کے
خاتمہ کی راہ ہم وار کریں۔ مگر یہ اسی وقت ہو گا جب کہ طاقت کا توازن قائم
رہے گا۔ اگر امریکہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بڑے بڑے ہتھیار تیار کر کے
مسلمانوں کو دہشت زدہ کرتا پھرے تو مسلمانوں کے سب سے بڑے مرکز مکہ شریف و
مدینہ شریف کے حکمرانوں کی یہ ذمہ داری کیوں نہیں کہ وہ بھی طاقت و قوت سے
لیس ہو کر مسلمانوں کی حفاظت و دفاع کے لیے عملی کاوش کریں....تصویر کا
دوسرا رخ بڑا منفی ہے، صہیونی قوتوں نے ان مسلم بادشاہوں کو مسلمانوں میں
انتشار و افتراق پھیلانے کے لیے مصروف کر رکھا ہے، افسوس کہ سعودی عرب سے
لاکھوں ریال کے صرفے سے ہر سال ایسے لٹریچر کی اشاعت ہوتی ہے جس میں
مسلمانوں کو مشرک و بدعتی قرار دیا جاتا ہے، جس سرمائے کو اسلام کی بقا اور
مسلمانوں کی حفاظت کے لیے استعمال میں لانا تھا وہی انتشار امت کے لیے
استعمال میں لایا جا رہا ہے۔یہ المیہ ہی ہے جس کا ازالہ دشوار نظر آتا ہے۔
اتحاد امت کے مقابل جب انتشار کو ہوا دی جائے گی تو نتیجہ منفی بر آمد
ہوگا، اور اسی سوتیلے سلوک کا شکار ہیں ہمارے فلسطینی بھائی، اور اب وہ
دفاعی جنگ لڑ نے پر مجبور ہیں۔ انھیں نہ کوئی اسلحہ میسر ہے نہ ہی کسی مسلم
کہلانے والے ملک کی حمایت۔
اب وقت جاگنے کا ہے۔ جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد مانگنے کو
شرک کہہ کر مسلکی عصبیت کو ہوا دیتے ہیں انھیں چاہیے کہ امریکہ و برطانیہ
سے آس و مدد کی امید ترک کر کے اللہ کریم کی ذات پر کامل بھروسہ کر یں اور
اسلامی ممالک کے تحفظ کے لیے اپنی قوت آپ تیار کریں۔ اولین ترجیح مظلوم
فسطینی مسلمانوں کی مدد کو دیںاور اسرائیلی دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے عملی
اقدامات کریں۔ یہی انسانیت کے تحفظ کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور یہی ساری
دنیا کے مسلمانوں کے درد کا مداوا ہوگا۔ کیا سعودی عرب کے فرماں روا فلسطین
کے لیے کچھ کر سکیں گے؟ |