خوش فہمی کہیے یا غلط فہمی
کہ ہم نے کئی معاملات میں یہ فرض کرلیا ہے کہ ہم سے زیادہ منفرد کوئی نہیں۔
کبھی ہم سوچتے ہیں کہ ہم سے زیادہ بے حس کوئی نہیں مگر پھر کوئی نہ کوئی
بیرونی واقعہ ہمارے مفروضے کی مٹی پلید کردیتا ہے۔ کبھی ہم اِس خوش فہمی
میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہم سے زیادہ ناخواندہ (بلکہ جاہل!) قوم کوئی نہیں
مگر پھر چند ایک ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو ہمارے اِس خود ساختہ”اعزاز“
کو بھی خاک میں ملا دیتے ہیں۔ اگر ذرا سنجیدگی سے تلاش کیجیے تو ایسے کئی
ہم وطن ملیں گے جو پانچ چھ ہزار روپے خرچ کرکے کمیاب نسل کی بُلبُل خریدتے
ہیں اور اُس کا پنجرہ اِس طرح لٹکاتے ہیں کہ دُنیا دیکھے! بُلبُل زبان حال
سے اپنے مالک کے بارے میں کہہ رہی ہوتی ہے کہ
.... اِس طرح سے کہتے ہیں سُخن ور سہرا!
مُرغے لڑانے کا شوق ہماری دیہی ثقافت کا طُرّہ امتیاز ہے۔ بڑے پیمانے پر
مقابلے جیتنے والے مُرغے ہزاروں، بلکہ لاکھوں میں فروخت ہوتے ہیں۔ جب اِن
مُرغوں کی بولی لگتی ہے تب کئی اِنسان اپنے بے قیمتی دیکھ کر اپنی ہی نظر
سے گر جاتے ہیں! امریکہ میں مشہور فاسٹ فوڈ چین مکڈونلڈ کا ایک چکن نگیٹ (مُرغی
کے گوشت کی محض ایک بوٹی) صرف اِس لیے 8 ہزار ڈالر میں فروخت ہوا ہے کہ وہ
اولین امریکی صدر جارج واشنگٹن سے مشابہ تھا! امریکی بازی لے گئے۔ ہم تو
مُرغوں کی خریداری پر لاکھوں لٹانے والوں کو روتے تھے اور ایک امریکی نے
محض ایک بوٹی کے لیے 8 ہزار ڈالر لُٹادیئے!
ہم سمجھتے تھے کہ ہمارے منتخب ادارے ہی طرح طرح کے نمونوں سے بھرے پڑے ہیں۔
اِن نمونوں کے بارے میں سوچ سوچ کر ہم اپنے آپ کو پتہ نہیں کیا کیا سمجھ
بیٹھے تھے۔ اِس انفرادیت پر فخر محسوس ہوتا تھا، اپنے آپ پر رشک بھی آتا
تھا! جب عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے سے اور خاصے جوش و خروش کے ساتھ چند نادر
نمونوں کو منتخب کرکے ایوانوں میں بھیجیں تو پھر، کسی بھی سَند کے نہ ہوتے
ہوئے بھی، اُن کے ”مُستند“ ہونے میں کوئی شُبہ نہیں رہتا! ہمارے منتخب
ایوانوں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں بھرپور ورائٹی پائی جاتی ہے۔ مگر صاحب!
تقدیر کب یہ چاہتی ہے کہ ہم کسی بھی معاملے میں تھوڑے سے خوش ہوں اور اپنے
آپ پر فخر کریں؟
بھارت میں ریاستوں کے انتخابات ہوئے اور ہمارا سارا تفاخر مِٹاکر کمتری کے
احساس میں مبتلا کرگئے۔ اُتر پردیش (یو پی) مُلک کی سب سے بڑی ریاست ہے جس
کی آبادی 18 کروڑ سے زائد ہے۔ محض ایک صوبے کی اِتنی بڑی آبادی یقینی طور
پر ورائٹی کی بھی حامل ہے اور ایوان میں ہر طرح کے ”نمونوں“ کا پہنچنا لازم
ہے۔ یوپی اسمبلی کے حالیہ انتخابات میں ایسا ہی ہوا ہے۔
اُتر پردیش الیکشن واچ کا تجزیہ ہے کہ 403 ارکان کے ایوان میں 189 (یعنی 47
فیصد ارکان) ایسے ہیں جنہیں عدالتوں میں مختلف مقدمات کا سامنا ہے۔ اور اِن
189 ارکان میں سے 98 ایسے ہیں جن پر سنگین نوعیت کے الزامات میں مقدمات
چلائے جارہے ہیں۔ اِن ملزم ارکان میں سب سے زیادہ (111) سماج وادی پارٹی سے
تعلق رکھتے ہیں۔ بہوجن سماج پارتی کے 29، بھارتیہ جنتا پارٹی کے 25 اور
کانگریس کے 13 ارکان کو مقدمات کا سامنا ہے۔ حال ہی میں میعاد ختم کرنے
والے ایوان میں مقدمات کا سامنا کرنے والے ارکان کے تناسب کے اعتبار سے اِس
بار 12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
یہ اعداد و شمار پڑھ کر وہ ”خوشی“ کافور ہوگئی جو ہم پاکستان کے مختلف
منتخب ایوانوں میں ”معدوم ہو جانے کے خطرے سے دوچار“ نمونوں کو دیکھ کر
محسوس کیا کرتے تھے! ہمیں تو یہ بھی بھارت سرکار کی کوئی سازش لگتی ہے۔
بَنیا ذہنیت شاید چاہتی ہی نہیں کہ ہم کسی بھی معاملے میں کسی بھی سطح کی
خوشی محسوس کریں! اپنے منتخب ایوانوں میں طرح طرح کے جی دار بندے دیکھ کر
دل کو یقین رہتا تھا کہ دُنیا کو ہماری طاقت کا اندازہ ہوتا رہے گا! مگر یہ
لیجیے، اُتر پردیش بھی بازوو ¿ں کی مچھلیاں دِکھانے پر اُتر آیا!
دُنیا کو اب تک جنوبی ایشیا کے سیاسی ٹرینڈز کا کچھ اندازہ ہی نہیں۔ جہان
بھر میں یہ ہوتا ہے کہ جُرم کا ارتکاب کرنے والے کو جیل کی سلاحوں کے پیچھے
ڈالا جاتا ہے۔ اگر ہم بھی ایسا ہی کریں تو ہم میں اور باقی دُنیا میں کیا
فرق رہ جائے گا؟ پاک و ہند میں جب کوئی با اثر شخصیت جُرم کرتی ہےی تو
کاندھے پر اسٹارز بڑھ جاتے ہیں۔ عوام کو بھی پولنگ کے وقت خاصی سہولت ہوتی
ہے۔ اُنہیں سوچنا نہیں پڑتا کہ ووٹ کسے دینا ہے۔ جُرم کی سنگینی عوام کو
انتخاب کے مرحلے میں سوچنے کی زحمت سے نجات بخش دیتی ہے! یعنی لوگ سنگین
جرائم کا ارتکاب کرکے منتخب ایوان کی رونق میں اضافہ کرتے ہیں!
سب سے زیادہ ملزم منتخب ارکان اپنے دامن میں سمیٹنے کے حوالے سے سماج وادی
یعنی سوشلسٹ پارٹی بازے لے گئی۔ یو پی کی معاشرتی حالت ناگفتہ بہ رہی ہے۔
سرکاری اداروں میں غیر معمولی کرپشن ہے، تعلیم کا معیار پست ہے اور
اقرباءپروری بھی بقول ناصر کاظمی ”بال کھولے سو رہی ہے!“ سوشلزم یعنی
معاشرے کی اصلاح، عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولتوں اور عوام نواز
حکمرانی کی باتیں کرنے والوں کا جب یہ حال ہے تو خالص سرمایہ داری کا راگ
الاپنے والے کس مقام پر ہوں گے!
اٹکل کے گھوڑے مت دوڑائیے کہ سرمایہ داروں کا کون سا مقام ہوسکتا ہے۔ اُن
کا بھی یہی مقام اور ٹھکانہ ہے۔ ”نوید“ ہو کہ 403 کے ایوان میں 271 کروڑ
پتی براجمان ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں کامیاب ہونے والے 124 امیدوار کروڑ
پتی تھے۔ ثابت ہوا کہ اُتر پردیش کی دولت مندی کا سفر جاری ہے! دولت مندی
کے اعتبار سے رام پور کے نواب کاظم علی خان 55 کروڑ 89 لاکھ روپے کے اثاثوں
کے ساتھ سر فہرست ہیں۔ دوسرے نمبر پر مبارک پور کے شاہ عالم ہیں جنہوں نے
54 کروڑ 44 لاکھ روپے کے اثاثے ظاہر کئے ہیں۔ خطے کی سیاست کا ٹرینڈ دیکھتے
ہوئے توقع رکھی جاسکتی ہے کہ نومنتخب کروڑ پتی ارکان ایوان کی میعاد پوری
ہونے تک ارب پتی ہوچکے ہوں گے! اگر مالی حیثیت بلند کرنے کا یہی معیار رہا
تو وہ دن دور نہیں جب ہر شخص کو کچھ دن کے لیے ایوان کا رکن بنایا جائے گا
اور مالی حیثیت بلند ہونے پر فارغ کرنے کے next کو in کیا جائے گا!
ہم نے بلوچستان میں تمام ہی ارکان کو کابینہ کا حصہ بناکر ایک منفرد مثال
قائم کی ہے۔ دنیا کو شاید ابھی ٹھیک سے پتہ نہیں چل سکا ہے ورنہ مبارک باد
کا سلسلہ تھمنے کا نام نہ لیتا! بلوچستان سے اُتر پردیشن تک عوامی نمائندوں
کے رجحانات دیکھ کر یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر ریاست (صوبے) کے تمام
باشندوں کو اسمبلی کا رکن قرار دے دیا جائے تو ہم انتخابات کرانے کے جھنجھٹ
سے بھی بچ سکیں گے اور کنگلوں کو ہزار، لکھ اور کروڑ پتی بھی بناسکیں گے!
اُتر پردیش اسمبلی کے 238 ارکان گریجویٹ، 75 بارہویں (ایچ ایس سی) پاس، 41
دسویں (ایس ایس سی) پاس، 40 آٹھویں (مڈل) پاس اور 14 یکسر ناخواندہ ہیں۔
اُتر پردیش اسمبلی کے ارکان کی تعلیمی کیفیت سے یہ خدشہ پیدا ہو رہا ہے کہ
کہیں ارکان کچھ کر نہ بیٹھیں! مجموعی طور پر تو ایوان پڑھا لکھا لگتا ہے۔
سیاست اور معاشرت کے لیے یہی سب سے مُضر معاملہ ہے۔ ”تشویش“ کی بات یہ ہے
کہ گریجویٹ کی ڈگری سے ناخواندگی تک سبھی کچھ بہت حد تک اصلی ہے۔ ہمارا
معاملہ یہ ہے کہ ایوان ہے تو پورا کا پورا گریجویٹ مگر اِس بات کی کوئی
ضمانت نہیں کہ اسناد اصلی ہیں! اور نواب اسلم رئیسانی نے یہ فرماتے ہوئے
ہماری مشکل مزید آسان کردی ہے کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے، چاہے اصلی چاہے نقلی!
ہم سوچا کرتے تھے کہ ہر حلقے سے درجنوں لوگوں کے الیکشن لڑنے کی بیماری صرف
ہمارے ہاں پائی جاتی ہے۔ اُتر پردیش اسمبلی کے انتخابات سے یہ بات بھی
سامنے آئی ہے کہ 6839 امیدوار میدان میں تھے۔ اور اِن میں چند ایک کے سوا
سبھی کا 223 سیاسی جماعتوں سے تعلق تھا۔ گزشتہ انتخابات میں امیدوار 6068
تھے اور 131 سیاسی جماعتیں میدان میں اتری تھیں۔ یعنی اِس بار مزید 92
جماعتیں انتخابی میدان میں داخل ہوئیں۔ یہ الگ بات ہے کہ صرف 11 جماعتوں کے
امیدوار کامیاب ہو پائے۔ 212 سیاسی جماعتوں کو مکمل ناکامی کا منہ دیکھنا
پڑا۔
ہم دو قومی نظریے پر جان بھی دینے کو تیار ہیں مگر اُتر پردیش اسمبلی نے
بھارت کے روایتی پروپیگنڈے ”ہم سب ایک ہیں“ کی خوب گردان کی ہے۔ جو کچھ
ہمارے ہاں ہوتا ہے وہی اُتر پردیش میں بھی ہوا۔ اگر یہی حال رہا تو ہمارے
لیے بھارت سے ہٹ کر، کچھ الگ دکھائی دینا انتہائی دشوار ہو جائے گا! |