ایک خبر کے مطابق افغانستان کو
تباہ و بر باد کر نے میں مصروف امریکی و نیٹو فوجی پیمپر استعمال کرتے ہیں۔
ہاں بھئی ! پہلے ہم بھی آپ ہی طرح چو نکے اور پریشان ہو ئے تھے کہ پیمپر
اور فوجی ؟؟ جبکہ یہ پیمپر تو بچوں کا انتخابی نشان ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ
کہ فوجی ہوتے ہوئے پیمپر کا کیا کام؟؟ ۔ تو بھئی جیسے کسی کا خوف سے تراہ
نکلتا ہے اسی طرح امریکی فوجیوں کا بھی افغانستان میں طالبان کو دیکھ کر
شاید تراہ کے ساتھ ساتھ کچھ اور؟؟ بھی نکل جاتا ہوگا، جسکی وجہ سے انہیں یہ
پیمپر استعمال کر نا پڑتا ہے۔ ویسے بھی یہ لوگ واش روم سے شرم سی کرتے ہیں
کہ فراغت کے بعد دھونے دھانے کے چکر میں نہیں پڑتے، بس یونہی ٹشو پپیر سے
پونچھ پانچھ کر کام چلا لیتے ہیں یا پھر جو کرنا ہو پیمپر میں ہی کر کرا کے
فارغ۔ ویسے یار ! ہم تو امریکی فوجیوں کو بہت شیر بہادر سمجھتے تھے پر یہ
بھاڑے کے ٹٹو تو صرف ٹٹو اور لٹو نکلے اور اتنے کمزور کہ انکی وہ؟ بھی
پیمپر میں ہی نکل جاتی ہے۔ نیٹو سپلائی میں خلل آنے سے ابھی تو صرف انکے
فوجیوں کی بات منظر عام پر آئی ہے، انکے ہاں تو پتہ نہیں اور کون کون سے
لوگ خوف سے یہ چیز پہنتے ہونگے؟ ویسے اگر یہ پیمپر صرف طالبان کے خوف اور
تراہ نکلنے کی وجہ سے پہنتے ہیں تو اسکا مطلب کہ ہر خوف زدہ کرنے والی چیز
کے پاس جانے سے پہلے بندہ پیمپر باندھ لے تاکہ اگر کچھ نکلنے کا ڈر ہو تو
اسی میں سما جائے۔
ویسے مجھے لگتا ہے کہ امریکی قوم سدا سے ہے ہی ڈر پوک ۔ افغانستان میں
طالبان کے خوف سے پیمپر باندھتے ہیں۔ ایک بار اسامہ کے امریکہ پر ممکنہ
حملے کے خوف سے راشن جمع کر نا شروع کر دیا تھا۔ پھر ایک بار صدام کے حملے
کے خوف سے ماسک پہننے شروع کر دیے تھے۔ اب اپنے مخالفین کو خود جاکر نہیں
مارتے کہ خود مرنے کا خوف رہتا ہے لہذا ڈرون اٹیک کر وا دیتے ہیں۔ اکیلے
اسامہ کا اتنا خوف تھا کہ پوری ایک بٹالین بمعہ ا سٹیلتھ ہیلی کاپٹر ایبٹ
آباد میں اتاردی۔ یہ خوف آپریشن کے د وران مانیٹرنگ کرتے بھی ا نکے بڑوں کے
چہر وں پر عیاں تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اسوقت بھی انہوں نے ؟ باندھ رکھے ہوں
اور پھر اسلامی بم کا خوف تو ا نہیں ویسے ہی کسی کروٹ چین نہیں لینے دیتا
کہ کب پاکستان یا ایران کی ایٹمی تنصیبات تباہ کر دیں۔لگتا ہے کہ انکے بڑے
تو اسلامی بم کے خوف سے چوبیس گھنٹے حالتِ پیمپر میں رہتے ہونگے۔ویسے اتنے
دور سے پیمپر منگوانے کی بجائے پاکستان کو چاہیے کہ پیمپر سپلائی کا آرڈر
خود لے لے۔ تاکہ یہاں کے لوگوں کی دال روٹی چلتی رہے۔ تاہم وہ ایسا کریں گے
نہیں کہ ہر دم انہیں پھر یہ خوف لگا رہیگا کہ کہیں پیمپر میں بھی
پاکستانیوں نے کہیں بم نہ سی دیا ہو!
تو جناب! خوف تو خوف ہوتا ہے چاہے وہ اسلامی بم کا ہو یا پھر شادی بیاہ پر
چھوڑے جانے والے شرلی بم کا ۔ ویسے اگر کبھی کسی پیمپر میں بم رکھ کر کسی
امریکی فوجی کو پہنا دیا جائے اور وہ پھٹ جائے تو سوچیں کیسا ہو گا وہ سین
پاٹ؟؟ اسکے علاوہ کبھی کبھا ر ایسا بھی ہوتا ہے کہ محاذِ جنگ پر حملوں کی
شدت کی وجہ سے کئی کئی رو ز یہ بیچارے قسمت کے مار ے پیمپر تبدیل ہی نہ کر
پاتے ہونگے ، تو سوچیے کہ تین روز کا مال گودام اگر ایک پیمپر میں جمع ہو
جائے تو ان بیچاروں کے ساتھ کیا ہو تا ہوگا؟؟ ہا ئے ہائے چھی چھی۔۔۔۔۔
چھڈیں جی ہم کیوں اپنا کھانا پینا حرام کریں، پیمپر باندھتے ہیں تو باندھتے
رہیں۔ ساڈے کیڑھا گھروں جا ریا ا ے!
ارے ہاں ! یاد آیا کہ پیمپر تو بڑے بزرگ اور بڑے مریض بھی استعمال کرتے ہیں۔
ان بیچاروں کی تو چلو مجبوری ہے پر ان ہٹوں کٹوں کی کیا مجبوری کہ صرف خوف
سے پیمپر چڑھا لیا ۔اگر اتنا ہی خوف ہوتا ہے تو پھر فوج میں کیوں آتے اور
ٹریننگوں پر اربوں ڈالر کیوں ضائع کرواتے ہیں؟۔ اگر پیمپر باند ھ کر ہی
ڈرپوک فوجی بھیجنے ہیں تو عام آدمی ہی کیوں نہ بھیج د یے جائیں۔ عراق کی
ابوغریب جیل کے ہٹلری مظالم کی تصاویر تو آپ سب نے ہی دیکھی ہونگی جسمیں یہ
ٹٹو فوجی بیچارے معصوم نہتے عراقیوں پر پیشاب تک کرتے دکھائے گئے تھے تو
جناب کیا وہاں پیمپر ختم ہو گئے تھے؟؟ یا پھر نہتے لوگوں کا بھی اتنا خوف
تھا کہ انکے سامنے فوجیوں کا پیشاب ایسا نکلتا تھا کہ انہں واش روم جانے کی
بھی ہمت نہ ہو تی تھی؟؟۔ واہ رے خوف۔
ہمارے للو میاں بیچارے بھی کئی بار اس پیمپر کے چکر میں گھن چکر ہوئے کہ
انکی بیگم نے چھوٹے منے کے لیے پیمپر لانے کو کہا، پر ناٹ گئے کہ کیوں خرچہ
بڑھواتی ہو، سمال سائز پیمپر بھی بیس روپے کا ہے ۔ پر بیگم نہ مانی کہ
انہیں بھی اسی میں آسانی رہتی ہے کہ صبح ایک پیمپر لگا دیا اور بس چھٹی ۔
سارا دن ٹی وی میں گھسی رہی۔ بچہ سارا دن پوٹی پیشی کر کر کے تھیلا سا ہر
وقت ساتھ لٹکائے پھرتا رہتا ہے۔ تو جناب للو میاں کی بیگم نے ارشاد فرمایا
کہ میاں جی! سردیوں کا موسم ہے بچے کو رات کو گیلا رہنے سے ٹھنڈ لگنے سے
نمونیہ ہو گیا تو ہزاروں لگ جائیں گے ، لہذا پیمپر اشد ضروری ہے۔ للو میاں
نے آئیڈیا دیا کہ میرے پرانے کپڑے پھاڑ کر باندھ دیا کرو، پر بیگم پھر نہ
مانی کہ اس سے بچے کی نازک سکن پر ریش ہو جاتے ہیں۔ للو میاں نے پھر مشورہ
دیا کہ کپڑے کے اندر تھوڑتی سی روئی رکھ کر اوپر سے پرانا ناڑا باندھ دیا
کرو۔ پر بیگم پھر نہ مانیں۔ للو میاں نے آخری تنبیہ کر کے بچت کی کوشش کی
کہ بیگم جدید تحقیق کے مطابق پیمپر بچوں کی بڑھوتری میں نقصان دیتے ہیں
لہذاپیمپر کی جگہ خالی جانگیا یا نیکر پہناﺅ۔ بیگم پھر ناک چڑھا کر بولیں
کہ پیمپر نہ لگاﺅں تو منے میاں سارے جانگیے ایک گھنٹے میں ہی پیشی پوٹی میں
خراب کر دینگے، سردی کا موسم ہے کہاں سے دھوؤں اور سوکھاﺅں گی۔ اوپر سے سرف
اور صابن کا خرچہ بھی زیادہ ہوگا اور بچت اسی میں ہے کہ پیمپر لادیں۔ یوں
اکنامیکل بینیفٹ دیکھتے ہوئے مجبورا للو میاں کو بھی پیمپر پر اگری ہو نا
پڑا۔
لو جناب! للو میاں پہنچے بازار پیمپر لینے کو۔ دکاندار نے پوچھا کہ کس سائز
کا پیمپر؟ بوجوہ الزائمر یعنی بھولنے کی بیماری بیچارے بتا نہ پائے کہ
کونسے سائز کا پیمپر یا ہیمپر لینا ہے ۔دکاندار نے گفٹ ہمپر تھمادیے اور
للو میاں بھی خوش خوش گفٹ ہیمپر گھر لے آئے۔ بیگم نے گفٹ ہیمپر دیکھ کر
پہلے اپنا سر پیٹا پھر للو میاں کو پیٹا اور واپس بازار کی طرف منہ کر کے
دھکا دے دیا۔ موصوف پھر پیمپر پیمپر یاد کرتے بازار پہنچے تو پھر بھول گئے
کہ کیا لینا تھا اور اس بار پیمپر کے بجائے پیپر، گفٹ پیک کر نے والا لیکر
گھر پہنچ گئے ۔ للو میاں کی بیگم نے پھر اپنا سر پیٹا اور پھر واپس بازار
کی طرف منہ کر کے کک ماردی۔ پر اس بار تھوڑی سی عقلمندی کی کہ ایک کاغذ پر
لکھ دیا پیمپر۔ تاہم پیمپر کا سائز نہ لکھا اور میاں صاحب اب کی دفعہ سمال
کے بجائے ایکسٹرا لارج سائز کا پیمپر لے آئے ۔ بیگم نے الٹے پاﺅں پھر واپس
دوڑا دیا کہ بدلواکر آﺅ ۔ بدلوانے پہنچے تو دکاندا نے پیمپر واپس لینے سے
انکار کر دیا کہ آپ یہ میلا کر کے لائے ہیں، لہذا واپس نہیں ہوگا۔ دوبار ہ
بیگم کے پاس پہنچے، بیگم نے پھر بازار دوڑا دیا۔ یوں بیچارے سارا دن اسی
کام کے پیچھے لگے گھن چکر بنے رہے۔ پر نہ بیگم کا دماغ تبدیل ہوا اور نہ
پیمپر۔بیگم نے بھی بدلہ لینے کی ٹھانی اور بڑا پیمپر لگا کر منے کو للو
میاں کے حوالے کر دیااور تاکید کر دی کو گود سے نہ اترے، ورنہ۔۔۔ دو گھنٹے
بعد ہی بڑے سائز کا پیمپر ہونے کہ وجہ سے منے میاں کا نکلا تمام مال گودام
للو میاں کے کپڑوں پر ملتانی اور سندھی کڑھائی کے خوبصورت نقش و نگار بنا
رہا تھا۔ بیگم نے حالت زار دیکھی تو للو میاں کو فورا آرڈر جاری کیے کہ خود
کو بھی خود دھوئیے اور بچے کو بھی خود دھوئیے تاکہ آپکو پتہ چلے کہ مائیں
سارا دن بچوں کو کیسے سنبھالتی ہیں؟۔ پھر چاروناچار للو میاں کو یہ کام بھی
کر نا پڑا۔
خیر جناب مذکورہ بالا پیرا تو بس ایویں ہی لکھ دیا۔ پر آ پ لوگ یہ دیکھیے
کہ دنیا بھر کو تڑیاں لگانے والا امریکہ اور امریکی اصل میں اندر سے کتنے
خوف زدہ رہتے ہیں؟؟ کہ ہر کوئی پیمپر باندھے پھر تا ہے ۔ان سے تو ہم اچھے
کہ بلا خوف و خطر آئے روز بموں کی آتشِ نمرود میں پیمپر تو کجا بعض دفعہ تو
بغیر شلوار بھی کودے رہتے ہیں۔ایک حالیہ سروے کے مطابق امریکیوں کی اکثریت
نے اپنی فوجوں کی افغان جنگ میں موجودگی کو بے فائدہ قرار دیا ہے، پر یہ
پھر بھی ٹکی ہوئے چلے ہیں۔ لہذ ا میرے پیارے ہم وطنو! امریکہ سے ڈرنے ورنے
کی کوئی ضرورت نہیں اور اپنا کام یونہی جاری و ساری رکھو۔اب آپ پوچھیں گے
کہ کونسا کام؟ تو یہ آپ سبھوں کو خود پتہ ہونا چاہیے۔؟؟ |