اللہ تعالیٰ کی ذات بڑی
غفورالرحیم ہے، اس کا فرمان ہے کہ ایک بندہ اگر بار بار گناہ کرے اور صدق
دل سے مجھ سے معافی مانگ لے تو میں اسے معاف کردیتا ہوں، بے شک وہ بعد میں
اپنی انسانی لغزشوں کی وجہ سے دوبارہ اسی گناہ سے آلودہ ہوجائے لیکن جس وقت
اس نے معافی مانگی ہو اس وقت پوری سچائی اور لگن سے معافی طلب کی ہو تو
اللہ اسے معاف کردیتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے
کہ اللہ تعالیٰ صرف وہ گناہ معاف کرے گا جو اس کی حکم عدولی میں کئے گئے
ہوں اور وہ گناہ ہرگز معاف نہیں ہوسکتے جو کسی دوسرے انسان کے ساتھ ظلم و
زیادتی کا ارتکاب کرکے کئے ہوں۔ بے شک اللہ تعالیٰ کی ذات ہی اصل بادشاہت
رکھتی ہے اور کسی کو بھی بڑے سے بڑے گناہ پر معاف کرنے اور چھوٹے سے چھوٹے
گناہ پر پکڑ کرنے کا اختیار بھی اسی وحدہ لاشریک کے پاس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے
اپنے حقوق اور حقوق العباد میں ایک فرق رکھا ہے، کسی بھی انسان کو کسی
دوسرے انسان کے ساتھ ظلم کرنے کی معافی اللہ تعالیٰ نے بھی نہ دینے کا واضح
اعلان کررکھا ہے تبھی تو آقائے دوجہاں، حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
کہ جن کے بارے میں سوچنا بھی گناہ ہے کہ انہوں نے کبھی کسی کے ساتھ زیادتی
کی ہوگی، انہوں نے بھی ایک موقعہ پر یہ فرمایا کہ اگر کسی کو مجھ سے کوئی
تکلیف پہنچی ہو تو وہ مجھ سے بدلہ لے لے۔ یہ ہے دین اسلام کا وہ رویہ جو
کسی بھی بڑے سے بڑے کو کسی بھی ادنیٰ کے خلاف کوئی زیادتی کرنے سے روکتا ہے
کیونکہ جب تک زیادتی کا ارتکاب کرنے والا، اس مظلوم سے معافی حاصل نہیں
کرتا، اللہ کی ذات بھی اسے معاف نہیں کرتی۔
آجکل وطن عزیز میں معافی منگوانے کا رواج جڑ پکڑتا جا رہا ہے۔ کبھی میاں
نواز شریف یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ چودھری برادران قوم سے معافی مانگیں تو
ہمارے دروازے ان کے لئے کھلے ہیں، کبھی چودھری شجاعت حسین یہ فرماتے ہیں کہ
پہلے میاں صاحب آمر ضیاءالحق کا ساتھ دینے پر معافی مانگیں، پھر ہم سے
معافی طلب کریں۔ اس سے پہلے عمران خان بھی قوم سے مشرف کا ساتھ دینے کی
معافی مانگ چکے ہیں، اسی طرح تقریباً تمام سیاستدان دوسروں کو معافی مانگنے
کے مشورے دیتے نظر آتے ہیں ۔ چودھری شجاعت کا تازہ ترین معافی نامہ ”گمشدہ
افراد“ کے پس منظر میں سامنے آیا ہے جس کی ابھی تک تو تردید سامنے نہیں آئی
لیکن مجھے ذاتی طور پر خدشہ ہے کہ اس کی تردید سامنے آجائے گی اور بات کو
”احسن“ انداز میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ خبروں کے مطابق چودھری
شجاعت حسین نے اسلام آباد میں لاپتہ افراد کے سلسلہ میں لگائے گئے کیمپ کا
دورہ کیا اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ”لاپتہ افراد کے مسئلہ پر ہم بھی
اتنے ہی مجرم ہیں جتنے دوسرے، انہوں نے مزید کہا کہ ہم قصور وار بھی ہیں
اور پشیمان بھی کہ اپنے دور حکومت میں ہم یہ مسئلہ حل نہ کراسکے، لاپتہ
افراد اگر قصور وار ہیں تو انہیں عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے، کیمپ میں
بچوں اور خواتین کو دیکھ کر دکھ ہورہا ہے“۔
پورا پاکستان بالخصوص لاپتہ افراد کے لواحقین، وہ بوڑھے ماں باپ جن کی
آنکھیں اپنے بچوں کو دیکھنے کے لئے ترس رہی ہیں، جو اپنے آخری وقت سے پہلے
اپنے پیاروں کو دیکھنے کے متمنی ہیں، وہ بچے جو ابھی تک اپنے باپوں کی شکل
ہی نہیں دیکھ سکے، وہ سہاگنیں، جن کو علم ہی نہیں کہ وہ ابھی تک سہاگنیں
ہیں یا بیوہ ہوچکی ہیں، وہ بہنیں اور وہ بھائی جو دن رات اپنے بھائیوں کی
سلامتی کی دعا کرتے ہیں اور یہ تہیہ بھی کہ اگر ان کے بھائی کو کچھ ہوگیا
تو وہ ان مقتدر حلقوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی پوری کوشش کریں گے جو اس
سلسلہ میں قصور وار اور مجرم ہیں، سب یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ
جناب چودھری صاحب! جس وقت ہمارے پیاروں کو غائب کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اس
وقت آپ جنرل مشرف کے نو رتنوں میں سے تھے، آپ کا طوطی ہر طرف بولتا تھا،
مسلم لیگ پر آپکا ”پکا“ قبضہ تھا، اکبر بگٹی کی شہادت ہو، لال مسجد پر
خونخوار آپریشن ہو یا لاپتہ افراد کا معاملہ ہو، آپ اس وقت حکومت کررہے
تھے، آپ تمام مذاکرات میں شریک تھے، اس وقت ایسا ہی لگتا تھا کہ شائد آپ
معاملات کو سلجھانے کے لئے کوشش کررہے ہیں لیکن اب یوں لگتا ہے کہ شائد
ساری سکیمیں ہی آپکی تھیں، اپنے ذاتی فائدوں کے لئے آپ معاملات کو سلجھانے
کی بجائے الجھاتے رہے، طول دیتے رہے اور بالآخر اکبر بگٹی کو شہید کردیا
گیا، لال مسجد کو شہید کردیا گیا اور ساتھ میں معصوم بچوں اور بچیوں پر بھی
ظلم و ستم کی نئی تاریخ رقم کردی گئی اور پورے ملک خصوصاً بلوچستان سے لوگ
اغواءہونا شروع ہوگئے، امریکہ کو بیچے جانے لگے، عقوبت خانوں میں تشدد کا
نشانہ بنائے جانے لگے اور بعض کی مسخ شدہ لاشیں سرعام سڑکوں پر پھینکی جانے
لگیں اور آپ پھر بھی حکومت کی گدی پر تخت نشین رہے، آپ مشرف کے دائیں ہاتھ
بنے رہے، آپکی وزارتیں، آپکی مشارتیں کنکریٹ کی طرح پکی رہیں، یہ آپ ہی لوگ
تھے ناں! جو مشرف کو دس بار وردی میں منتخب کرنے کے نعرے لگاتے تھے، جب 12
مئی کو کراچی میں معصوم انسانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی گئی تب بھی آپ
اور آپ کے ساتھی مشرف کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر نعرے لگا رہے تھے ....!
ابھی تو آپ نے صرف اپنے قصور اور اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے، معافی نہیں
مانگی، کیونکہ آپ بھی پاکستان کے عوام کو اپنی رعیت تصور کرتے ہیں، اپنے
محکوم تصور کرتے ہیں، ویسے بھی آپکے لال مسجد کے حوالے سے ہی جرائم اتنے
وسیع و عریض ہیں کہ اگر معافی مانگنی بھی ہوئی تو شہیدوں کی ان روحوں سے
مانگنی پڑے گی ، ان بچیوں کے والدین سے معافی حاصل کرنا ہوگی جو دن رات
مشرف اور اس کے ساتھیوں کو اپنی ”بددعاﺅں“ میں شامل رکھتے ہیں، وہ لوگ ہرگز
کسی مجرم کو معاف نہیں کریں گے۔ جناب چودھری صاحب! آپ نے ہمیشہ اپنے والد
کے قتل کو بھٹو خاندان کے خلاف کیش کروایا تھا، وہ لوگ جو بھٹو کی فسطائیت
کو دیکھ چکے تھے اور بھگت چکے تھے، ہمیشہ وہ آپ کے ساتھ رہے لیکن اب تو
”قاتل لیگ“ کا اعزاز ملنے کے باوجود آپ بھٹو کے رسوائے زمانہ داماد کی گود
میں بیٹھ چکے ہیں، آپ بے شک اسے سیاست کی ہنر مندی خیال کریں لیکن اب اس
ملک کے بے حس باسیوں کو تھوڑا تھوڑا ہوش آنا شروع ہوگیا ہے، وہ سوچنے لگے
ہیں اور سوال کرنے لگے ہیں، اب یہ ڈرامے بازیاں نہیں چلنے والی، ان مجرموں
کو اللہ بھی معاف نہیں کرے گا جنہوں نے انسانیت سوز مظالم ڈھائے ہیں اور جو
ان مظالم میں حصہ دار رہے، جو اب بھی حصہ دار ہیں، نہیں ہرگز نہیں۔ |