حضرت خواجہ عبدالحکیم
انصاری ؒ ایک عدیم المثال بزرگ اور عصر حاضر کی نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ بے
پناہ روحانی قوت اور کشف و کرامات کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ محبت و صداقت
،عفو و درگزر ، حلم وبردباری، ایثار و قربانی ، صبر و تحمل ، خدمت انسانی
اور اخلاص کا پیکر تھے۔ خاص و عام جو بھی آپ ؒ سے ملا۔ پہلی ہی ملاقات میں
گرویدہ ہوگیا آپ ؒ محبت کا ایک ایسا اتھاہ سمندر تھے کہ جنہیں دیکھ کر
ڈاکٹر نصیر احمد ناصر جیسا شخص بھی بے ساختہ پکار اٹھا کہ میں نے آپ جیسا
”اہلِ حسن و محبت “زندگی بھر نہیں دیکھا۔ بڑے بڑے امراءو رﺅسا،حکومتی عہد ے
دار ان اور افسران بالا آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے مگر آ پ جاہ و حشم کی طمع
سے ہمیشہ بے نیاز رہے غرور و تکبر یالالچ اور ذاتی غرض و غایت کبھی آپ ؒ کے
قریب نہ پھٹکی آپ ؒ شریعت کے سخت پابند بلکہ مجسمِ شریعت تھے۔ دانش مندی،
علم و فراست ، صفائے قلب، عاجزی و انکساری اور خدمت خلق کا جذبہ آپ کی
دلنشین شخصیت کا طرئہ امتیاز رہا۔ سائنسی ،لسانی و نفسیاتی علوم،حالات
حاضرہ و معاشرتی حقائق اور دنیاوی معاملات کا ہر پہلو آپ کی مکمل دسترس میں
تھا۔
|
|
قبلہ انصاریؒ صاحب انتیس (29)جولائی اٹھارہ سو ترانویں1893ءبروز ہفتہ دہلی
کے قریب قصبہ فرید آباد میں پیدا ہوئے۔ عمر مبارک ابھی دس برس کی ہی تھی کہ
دادا حضور اس دنیا فانی سے تشریف لے گئے تاہم دادا حضور کی صحبت نے آپ میں
بے شمار خوبیوں اور صلاحیتوں کو جلا بخشی ۔ کشف و کرامات کا ظہور لڑکپن سے
ہی ہونے لگا لیکن آپ نے کبھی بھی ان کو روحانیت کا معیارنہ سمجھا۔ آپؒ کے
نزدیک بزرگی کا اصل معیار ”اخلاقِ حسنہ “تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ؒ روحانی
تربیت کے ساتھ اپنے مریدوں کی اخلاقی اصلاح پر بہت زور دیتے ۔تزکیہ اخلاق
کے لیے غصہ و نفرت چھوڑنے اور عالمگیر محبت اور صداقت اپنانے کا درس
دیتے۔اپنے تمام مریدین کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے محبت کرتے،زندگی کے ہر
شعبے اور معاملے میں ان کی رہبری و رہنمائی فرماتے۔ آپ ؒ نے ہمیشہ
سادگی،خوش اخلاقی او ر صاف گوئی کی تلقین فرمائی! چنانچہ فرماتے ہیں۔ ”
حلقہ کی تعداد بڑھانا ہر گز مقصود نہیں میں تو یہ چاہتا ہوں کہ حلقہ میں کم
سے کم آدمی ہوں لیکن وہ سب عقیدے کے لحاظ سے پکے مسلمان اور کھرے توحیدی
اور اعمال و اخلاق کے لحاظ سے اعلیٰ درجے کے مومن ہوں۔“
یوں آپ ؒ اپنے تمام مریدوں کو پکے مسلمان اور سچے توحیدی ہونے کے ساتھ
ایمان کامل کے اعلیٰ درجے یعنی درجہ احسان پر فائز المرام دیکھنا چاہتے
تھے۔آپ ؒ کی تعلیمات قرآن و سُنت کا نچوڑ ہیںجنہیں آپؒ نے طالبانِ معرفت و
حکمت کے لیے نہایت آسان ، عام فہم اور سادہ الفاظ میں بیان فرمایا ہے ۔ آپؒ
نے ایک نئے روحانی سلسلے کی بنیاد رکھی تاکہ مغرب زدہ نوجوانوں کی صحیح
رہنمائی کرسکیں ۔ اُنکو صحیح معنوں میں ایک سچا مومن بناکر ملک وقوم کیلئے
ایک قیمتی سرمایہ بناکر پیش کریں ۔ جو مسلمانوں میں یگانگت اور اتحاد کی
بنیاد پر دنیا کے مسلمانوں کو ساتھ لیکر چل سکیں اور دنیا میں ایک ایسے
انقلاب کاباعث بن سکیں جو اتحاد اور یقین محکم کے اصول پر کام کرکے
مسلمانوں کی اس راستے کی طرف رہنمائی کرسکیں ۔ جس پرچل کر وہ ایک باعزت
مقام حاصل کرسکیں ۔ جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کو حاصل تھا ۔ قرون اولیٰ کے
مسلمانوں کا بھی اصلی سرمایہ روحانی طاقت ، نبی کریم ﷺ کی محبت اور بلاچون
وچرا اطاعت تھی ۔ یہی سلسلہ عالیہ حیدیہ کا مدعا ہے ۔ اور انشاءاللہ وہ دن
دور نہیں جب اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے مسلمانوں پر پھر وہ عروج آئے
گا جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کو حاصل تھا لیکن اسکے لئے عملی مسلمان بننا
اور چلتاپھرتا قرآن بننا ہوگا اللہ تعالیٰ پر (عمل کے ساتھ ساتھ ) کامل
بھروسہ اور آخرت پر یقین کی حدتک ایمان لانا ہوگا ۔
1954ءمیں آپ ؒ کی ملاقات گوہر نایاب قبلہ عبدالستار خاں ؒصاحب ان کے اہلِ
خانہ اور والد ماجد حاجی علی محمد ؒصاحب سے ہوگئی۔ پروفیسر ابراہیم صاحب کا
تبادلہ دوبارہ کراچی ہوگیااور آپ ؒ نے قبلہ عبدالستار خاں ؒ صاحب اور ان کے
دوست مسیح الظفر کی درخواست پر بنوں قیام کا ارادہ فرمالیا۔ بنوں قیام کے
دوران ہی آپ نے تصوف کے موضوع پر لکھی گئی شہرہ آفاق کتاب ”تعمیر ملت
“تصنیف کرنا شروع کی۔ قبلہ عبدالستار خان ؒصاحب سے آپ کی محبت روز افزوں
بڑھنے لگی نتیجتاً مورخہ پانچ اگست 1955ءبروز جمعة المبارک شام 5بجے قبلہ
عبدالستار خاںؒ صاحب نے آپ ؒ کے دستِ شفقت پر باقاعدہ بیعت کر لی اور یہی
مبارک لمحہ سلسلہ عالیہ توحیدیہ کے قیام کا نقطہ آغاز بنا قبلہ خواجہ
عبدالحکیم انصاری ؒصاحب نے قبلہ عبدالستار خان ؒ صاحب کو بیعت کرتے ہی
فرمایا کہ آج سے جو کوئی بھی ہم سے ہمار ے سلسلہ کے بارے میں پوچھے توہم
علی الاعلان کہیں گے ”سلسلہ عالیہ توحیدیہ“۔
اپنے خلافت و جانشینی کے لئے قبلہ انصاری ؒصاحب کی نگہ گوہر شناس نے پہلی
ہی ملاقات میں قبلہ عبدالستار خان ؒ صاحب کا انتخاب فرمالیا تھا چنانچہ
جنوری 1961ءمیں ایک وصیت نامہ کے ذریعے آپ کو اپنا واحد خلیفہ و جانشین
مقرر فرمادیا۔جس میں اپنے تمام مریدین کو قبلہ خان ؒ صاحب کی بلاچون و چرا
اطاعت کا حکم دیا۔بعد ازیںمورخہ 13اپریل 1968ءکو پرنس ہوٹل لاہور میں سلسلہ
عالیہ کے سالانہ کنونشن میں کے موقع پر مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ آپ کی
خلافت و جانشینی کی توثیق فرمائی اور تمام احباب حلقہ کو آپ ؒ کے دستِ
مبارک پر بیعت خلافت کرنے کا حکم دیا”صاحب موصوف جن کی تقرری کا اعلان اسی
مجلس میں کیا جائے گا وہ روحانی مراتب اور اخلاقی بزرگی میں مجھ سے کسی طرح
کم نہیں۔ اس لیے میں آپ سب کو ہدایت کرتا ہوں کہ اگر آپ کو میری دی ہوئی
تعلیم سے محبت ہے تو آپ سب کو میرے اس حکم کی تعمیل میں آج ہی کے جلسے میں
صاحب موصوف کے ہاتھ پر بیعتِ خلافت کرنا ہوگی۔ “(یاد رہے کہ سلسلہ عالیہ
توحیدیہ میں ایک وقت میں ایک ہی خلیفہ ہوتا ہے جو سلسلہ کا واحد روحانی
پیشوا ہوتا ہے دیگر سلاسل کی طرح بہت زیادہ خلفاءنہیں ہوتے)-
اپنے وصال شریف سے قبل خواجہ عبدالحکیم انصاریؒ نے سلسلہ کے تمام معاملات
کے لیے جناب قبلہ عبدالستار خان ؒ صاحب کواپنا وصی اور مختارمقرر فرمایایوں
آسمان روحانیت کا یہ درخشندہ ستارہ انسانی اصلاح و تربیت اور تعمیرِ ملت کا
یہ مشن قبلہ عبدالستار خان ؒ صاحب کے سپرد کرکے مورخہ 23جنوری1977ءکی شام
5بجے اپنے محبوب حقیقی سے جا ملا۔ قالو انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کی
رحلت کے بعد آپؒ کے واحد خلیفہ و جانشین قبلہ عبدالستار خان صاحب دسمبر
1990ءتک متلاشیان ِ حق کی رہبری فرماتے رہے۔ قبلہ عبدالستار خا ن صاحب ؒ نے
اپنے وصال سے قبل اپنی حیاتِ مبارکہ ہی میں قبلہ غلام رسول شاہد صاحب کو
اپنا واحد خلیفہ و جانشین مقرر فرماکر تمام احبابِ حلقہ سے بیعتِ خلافت لی۔
قبلہ غلام رسول شاہد صاحب نے 1991ءمیں پاکستان ائیر فورس سے قبل از وقت
ریٹائر منٹ لی اور اپنے آپ کو سلسلہ عالیہ کی خدمت کے لیے وقف کر دیا دینِ
اسلام کی سر بلندی اور اخلاق عالیہ کا فروغ آپ کا مشن ہے اور اللہ کا قرب
ولقا آپ کا مقصود و مطلوب ۔ آپ کے مریدین کا سلسلہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا
ہے۔ پاکستان و دیگر ممالک میں آپ کی کاوشوں سے سینکڑوں لوگ مسلمان ہوئے۔
سلسلہ عالیہ توحیدیہ کا مرکز ماڈل ٹاؤن لاہور میں واقع ہے جہاں ہزاروں
طالبانِ رشد و ہدایت شب و روز اپنے قلوب کو نورِ توحید سے منور کرتے ہیں۔
اس مرکز توحید پر ذکر و فکر کی مجالس کے علاوہ درسِ قرآن، دورئہ حدیث اور
مختلف اسلامی و معاشرتی موضوعات پر تربیتی اجتماعات کا انعقاد باقاعدگی سے
ہوتا ہے۔سالانہ اجتماعات سمیت مختلف دورانیہ کے یہ پروگرام خواتین و حضرات
کے لیئے علیحدہ منعقد ہوتے ہیں۔ |