اگلے عام انتخا با ت کے بعد کیا ہو گا؟

الیکشن کب ہو نگے؟ الیکشن میں کو ن جیتے گا؟ الیکشن کے بعد پا کستان کی صورت حال میں بہتری آئیگی یا ابتری؟

مہنگا ئی،بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ اور بے روز گا ری کا بھی کو ئی علاج ہو گا یا نہیں ؟ یہ ہیں وہ سوالات ،جو اس وقت عوام کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں اور امید و بیم کی حا لت میں ان کے شب و روز بسر ہو رہے ہیں ۔غیب کا علم تو خدا ہی بہتر جا نتا ہے۔ ہم تو مو جو دہ حالات و واقعات کو پیش نظر رکھ کر مستقبل کی ایک دھند لی سی تصو یر ہی پیش کر سکتے ہیں ۔

قرین قیا س یہ ہے کہ عام انتخا با ت اسی سال ماہ نو مبر میں ہو نگے مگرعام انتخابات کے انعقاد سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ اگلے عام انتخابات میں کو نسی سیا سی پا رٹی قو می اسمبلی میں سب سے زیادہ سیٹیں جیت کر حکو مت بنا نے کی پو زیشن میں ہو گی؟ اس سلسلے میں ایک عام خیا ل تو یہ ہے کہ پیپلز پا رٹی اور مسلم لیگ (ن) نے بیسو یں آیئنی تر میم کے ذریعے ابھی سے مک مکا کر لیا ہے۔دونو ں جما عتو ں نے یہ طے کر لیا ہے کہ انتخا بات سے قبل جو نگران حکو مت بنے گی وہ دو نوں کی مر ضی و منشاءکے مطابق ہو گی،اگر ایسا ہوا تو اس با ت کا پھر قوی امکان ہے کہ انتخا بات میں دھا ندلی ہو گی،مسلم لیگ(ن) کو اگرچہ واضح اکثریت تو نہیں مل سکے گی مگر دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ اکثریت کی حامل جما عت بن سکتی ہے ۔اسکے بعد پیپلز پارٹی ،پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی جما عتیں با ا لترتیب قو می اسمبلی میں حصہ بقدر جثہ کی ما لک بنیں گی۔یہ ایک ایسی کھچڑی ہوگی جس میں ہر پارٹی سے تھو ڑی بہت مقدار شامل ہوگی۔نتیجتا ایک کمزور حکومت وجود میں آئیگی۔

عین ممکن ہے ،مسلم لیگ(ن) حزب اقتدار اور پیپلز پا رٹی حزب مخا لف پارٹی بن کر سامنے آ جائیں۔ اگر ایسا ہوا تو ملک کی مو جو دہ صو رت حال اور آ نے والے دور میں کو ئی نما یا ں فر ق نہیں ہوگا اگر چہ موجو دہ حکمران جماعت کی کر پشن، نا اہلی اور ہو س زر کے مقا بلہ میں کمی ہوگی مگر کسی انقلا بی تبدیلی کا امکاں نظر نہیں آتا کیو نکہ پیپلز پا رٹی اور مسلم لیگ (ن) میں شامل تمام اہم اراکین ایک ہی کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور نظر یا تی طور پر ایک ہی خیال کے ما لک ہیں اور ایک ہی مقصد ان کے پیش نظر ہے اور وہ ہے مال کمانا اور غریب عوام پر اپنی حا کمیت قائم و دا ئم رکھنا۔لہذا اگر مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی گٹھ جو ڑ سے اگر آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ(ن) بطو ر حکمرا ن جما عت اور پیپلز پارٹی بطور ا پو زیشن پا رٹی بننے میں کا میا بی حاصل کر نے میں کا میا ب ہو جا تی ہیں پھر پا کستا نی عوام کے مصائب و مشکلات جو ں کے توں رہیں گے۔

لیکن ایک اور خیال یہ ہے کہ آ یندہ عا م انتخا بات میں با لکل مختلف اور ڈرامائی صو رت حال پیش آ سکتی ہے۔ کیو نکہ عوام مو جودہ بر سر اقتدار اور ا پو زیشن پا رٹی سے سخت بیزار ہو چکے ہیں، ان کے ذ ہنوں میں ان کے خلاف ایک لا وہ ابل رہا ہے۔عوام کا سیاسی شعور بھی اب کافی با لغ ہو چکا ہے۔ اس لئے عین ممکن ہے کہ عوام اس مر تبہ تیسرا آ پشن استعمال کرے اور عوام کے پاس تیسرا آپشن عمران خان کی صورت میں پا کستان تحریک انصاف ہی ہے۔۔۔ماضی میں با لکل اسی قسم کی صورت حال ہم 1970 میں دیکھ چکے ہیں۔پیپلز پا رٹی 1976 میں و جود میں آئی۔1970 کے عام الیکشن کے وقت وہ ایک نو زائیدہ پا رٹی تھی مگر لوگ چو نکہ سابقہ حکومت سے بیزار تھے اس لئے انہو ں نے بھا ری اکثر یت سے پا کستا ن پیپلز پارٹی کو کا میاب کرایا۔حا لا نکہ اس وقت پیپلز پا رٹی کی پو زیشن با لکل ایسی تھی جیسے آج تحریک انصاف ہے یعنی اس وقت پی پی پی میں وڈیروں،جا گیر داروں،صنعتکا روں اور سر ما یہ را روں کی بہتات نہیں تھی۔مگر جب الیکشن ہوئے تو پی پی پی غیر متو قع طور پر بھا ری اکثریت سے کا میاب ہو گئی کیو نکہ عوام ما ضی کی حکو متوں سے ما یو س ہو چکی تھی۔اس وقت بھی یہی صورت حال ہے۔عوام آز ما ئے ہو ئے سیا سی پا ر ٹیو ں سے ما یوس ہو چکی ہے اور وہ کسی مسیحا کی تلاش میں ہے۔لہذا اس امر کا بھی امکان ہے کہ تا ریخ ایک دفعہ پھر اپنے آپ کو دہرائے اور پا کستان تحریک انصاف انتخا بی میدان کا شہسوار بن جائے۔اگر ایسا ہوا تو پھر تو قع کی جا سکتی ہے کہ پا کستان کی سیا ست میں ایک ڈراما ئی تبد یلی آئیگی۔مو جو دہ نام نہاد جمہو ریت کے دعو یدار کمزور پڑ جا ئینگے۔وہ عمران خان کو اپنے شیشے میں اتارنے کی بھر پور کو شش کر ینگے۔پھر یہ عمران خا ن کے قا ئدانہ صلا حیتو ں پر منحصر ہو گا کہ وہ فیو ڈل لارڈ کے پریشرکا کس انداز میں مزاحمت کر تے ہیں۔مگر یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ پا کستان تحریک انصاف کی حکومت ماضی کی حکو متو ں سے مختلف ہو گی اور مو جو دہ حالات میں کا فی بہتر ی آ نے کے امکا ن کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ وطن عزیز میں جس طرح چند خا ندانوں نے دولت کے بل بو تے پر غریب عوام کو ور غلانے اور ان سے و و ٹ لینے کا جال بچھا رکھا ہے اس کا حصار تو ڑ نا بھی آسان کام نہیں۔اس لئے اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ اس کا صحیح اندازہ ابھی سے لگا نا ممکن نہیں۔بہر حال ہمیں بہتری کی امید رکھنی چا ہیے۔انشا ا للہ (اگر عوام جاگتے رہے) تو اگلے عام انتخابات پا کستا نی عوام کے لئے خو شحالی کا پیش خیمہ ثابت ہو نگے۔۔۔۔۔۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315887 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More