ٹی ٹی -22

میزبان :آج ہمارے اسٹوڈیو میں مہمان ہیں جو ریل کی پٹڑی سے آئے ہیں۔ریلوے سے بلایا تو کسی بڑے افسر کو تھا مگر انہوں نے اپنے ٹی ٹی کو بھیجا ہے۔ان کاکہنا ہے یہ بھی کافی بڑا افسر ہے۔وہ جواب شائد کوئی بڑا افسر نہ دے سکے جو ٹی ٹی کے پاس ہیں۔جی ٹی ٹی صاحب ہم آپ کو اپنے شو”ویہلے دی گل“ میں خوش آمدید کہتے ہیں۔
ٹی ٹی :جی جو بھی پوچھنا ہے جلدی سے پوچھ لیں میں نے جا کر گاڑی بھی پکڑنی ہے۔میرا مطلب ہے ڈیوٹی پر پہنچنا ہے۔

میزبان :کتنا وقت ہے آپ کے پاس
ٹی ٹی :(گھڑی دیکھتے ہوئے)دو گھنٹے

میزبان:تو پھر سمجھیں آپ کے پاس آٹھ دس گھنٹے تو ہیں کیوں کہ آج کل اس سے کم ٹرین لیٹ ہو ہی نہیں رہی۔ٹی ٹی کا مطلب کیا ہے اور آپ کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔
ٹی ٹی: مجھے تو بتایا گیا تھا سوکھے سوال ہونگے لیکن آپ نے تو پہلا سوال آف دی ریکارڈ کر دیا ہے۔

میزبان:سوال ہم آپ سے کھلے ڈھلے ہی کریں گے لیکن کوشش کریں گے کہ جو سوال آپ کو پسند نہ ہووہ ہم نہیں چلائیں گے۔یہ ٹی ٹی کس کا مخفف ہے اورساتھ میں آپ کو ٹو ٹو کیوں کہتے ہیں۔
ٹی ٹی :یہ ٹھیک ہے۔ٹی ٹی کس کا مخفف ہے یہ مجھے نہیں پتہ مگر میری ڈیوٹی کیا ہے اس سے میں بخوبی واقف ہوں میں جناب سواریوں کی ٹکٹیں چیک کرتا ہوں۔ٹو ٹو کی کہانی یہ ہے کہ جرنیلی صدر ایوب خان کے دور میں مجھ پر بائیس روپے کی خطیر رقم کی کرپشن کا الزام تھا۔جس پر مجھے معطل کر دیا گیا مگر بعد انہی بائیس روپوں کی رشوت سے میری نوکری بحال کر دی گئی۔بس اسی دن سے محکمے میں ،میں ٹی ٹی ٹو ٹو کے نام سے مشہور ہو گیا۔

میزبان:آپ کی تعلیم کتنی ہے اور سروس کتنی ہو گئی ہے۔
ٹی ٹی:میں آج کا نہیں ہوں انگریز کے دور سے ریلوے کے ساتھ ساتھ ہوں۔جب یہ دونوں ملک اکھٹے تھے اس وقت میں گھر سے بھاگا تھا ٹرین دیکھنے کا مجھے بہت شوق تھابس اس وقت سے ٹرین کے ساتھ ہوں واپس گھر نہیں گیا۔میں اس وقت بھی ٹرین میں مکھانے اور چنے ،پجی مونگ پھلی، گچک، تل والے لڈو، بیچتا تھا (اوئے یہ میں کیا کہہ گیا جناب آف دی ریکارڈ)

میزبان:تو آپ انگریز کے دور سے کام کر رہے ہیں۔
ٹی ٹی:بہت وخت جھیلے ہیں۔ٹرین میں گولیاں، ٹافیاں، بوتلیںِ نان ٹکی، مالش، نہ جانے کیا کیا، کیا ہے۔ گاڑیاں بھی دھوئی ہیں۔ایک خدا ترس انگریز تھا اس نے واش مین کروا دیا اور پھر میں ترقی کرتاکرتا ٹی ٹی تک پہنچ گیا۔

میزبان:مگر ٹی ٹی تو ایک ذمہ دار اور پڑھی لکھی پوسٹ ہے۔تم تو چٹے ان پڑھ لگ رہے ہو۔
ٹی ٹی :جس دور میں بھرتی ہوا اس دور میں نوکری کے لئے کوئی بندہ تو ملتا نہیں تھا بہت بعد میں آ کر میں نے ایک درخواست محکمے کو دی کہ ہجرت کے دوران میری میٹرک کی سند گم ہو گئی تھی جو اب مل گئی ہے۔پہلے میں شوکا تھا اس سند کے تحت میں برکت علی ہو گیا۔مجھے کون جانتا تھا۔

میزبان : سند کہاں سے ملی تھی
ٹی ٹی:کوئی سفر کے دوران بھول گیا تھا ۔بس اسی نام سے شناختی کارڈ بنوایا۔اور ٹی ٹی بن گیا۔

میزبان:مگر یہ تو پڑھا لکھا کام ہے۔اس کو کیسے چلاتے ہو۔
ٹی ٹی :بس گاڑی میں کوئی نہ کوئی سٹوڈنٹ مل جاتا ہے۔ ٹکٹ وہ بناتا ہے اور مال میں۔

میزبان:سنا ہے گاڑی میں یہ، چنے، مونگ پھلی، بوتلیں، کھانے کے لوازمات، حتٰی کہ فقیر سبھی ایک دوسرے کے رشتہ دار ہوتے ہیں اور باقاعدہ باروبار اس کے ٹھیکے ہوتے ہیں۔
ٹی ٹی:بس کچھ کچھ سچ ہے۔

میزبان:اس میں آپ کا بھی حصہ ہوتا ہے۔
ٹی ٹی:شائد ،مگر میں اپنا کام خود کر لیتا ہوں۔جب ساری گاڑی چیک ہو جاتی ہے توپھر میں وردی بدل کر چنے،مکھانے۔مونگ پھلی وغیرہ گاڑی میں بیچ لیتا ہوں۔بلکہ کئی سواریاں مجھے پہچان لیتی ہیں۔میں ان سے کہتا ہوں میں ٹی ٹی نہیں بلکہ وہ میرا بھائی ہے۔اس پر کئی سواریاں افسوس کا اظہار کرتی ہیں کہ بھائی موجیں کر رہا ہے اور ایک محنت مزدوری کر رہا ہے۔واہ مولا تیرے رنگ(آف دی ریکارڈ)

میزبان :ایک تازہ خبر ہے کہ لاکھوں روپے مالیت کہ استعمال شدہ گتے کی ٹکٹیں پکڑی گئی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق لاہور سے کراچی جانے والی کراچی ایکسپریس میں ایک خاتون سے گتے والی استعمال شدہ ٹکٹ پکڑی گئی۔ یہ ٹکٹیں گذشتہ کئی سال سے ریلوے ورکشاپ میں پرنٹ ہونا بند ہو گئی ہیں۔ اس سلسلے میں پراکس کے بکنگ کلرکوں سے تحقیقات شرو ع کر دی گئی ہیں۔ آپ ریلوے کی کس کس چیز کو روئیں گے ۔اللہ نہ کرئے لیکن حالات جی ٹی ایس جیسی تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔
ٹی ٹی :یہ لاکھوں کیا تعداد میں نہیں ہو سکتی یہ پرانی ٹکٹیں تو ہمارے پاس بھی ہوتی ہیں۔بس کبھی کبھی رش میں نکال دیتے ہیں ۔یہ اتنا بڑا ایشو نہیں۔ میڈیا زیادہ ہی چھوڑ دیتا ہے۔

میزبان:سنا ہے ریلوے میں کلب،ریسٹ ہاﺅس، رہائشی بنگلے، ملازمتیں،عہدے سب کچھ بکتا ہے-
ٹی ٹی: اس بات کا اس سے اندازہ کر لیںکہ جس ملک کے پلیٹ فارم کے ٹکٹ بکتے ہوں وہاں کیا کچھ نہیں بکتا ہو گا۔ جب گاڑی میں ٹی ٹی ٹکٹ چیک کر لیتا ہے تو دوبارہ سواریوں کو کیوں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ریلوے اسٹیشن کا گیٹ کراس کرتے ہوئے سر پر بیگ اور گود میں بچے کو اٹھائے ریلوے اٹھارٹی کو دوبارہ ٹکٹ چیک کروائے۔ اس سسٹم میں جہاں سوراخ ہیں ان کو بند کیوں نہیں کیا جاتا ۔(آف دی ریکارڈ)

میزبان:یہ جو ریلوے کی اپنی پولیس ہے یہ کیا کرتی ہے ۔حالانکہ ریلوے کے ذریعہ بہت سا ادھر کا مال ادھر جاتا ہے۔
ٹی ٹی: ریلوے کی پولیس کو چونکہ اس بات کی ٹینشن ہوتی ہے کہ اس نے ٹرین کے ساتھ اتنا لمبا سفر کرنا ہے۔یہ لمبا سفر گاڑیوں کے لیٹ ہونے پر زیادہ لمبا ہو جاتا ہے۔اس لئے وہ سواریوں کو ان کی سیٹوں سے اٹھا کر لمبا لیٹتے ہیں کیونکہ اگر پولیس تازہ دم ہو گی تو کسی مجرم کو پکڑسکے گی۔

میزبان:آج تک کسی مجرم کو پکڑا بھی ہے۔
ٹی ٹی:ویسے مہینے میں کوئی دس بیس کیس تو جوان جوڑوں کے پکڑ ہی لیتے ہیں۔جنہیں نکاح نامے یا بچے دکھانے کی صورت میں وہ چھوڑ دیتے ہیں۔پولیس کا خیال ہے ویہلے،مشٹنڈے ڈیٹ کے لئے ریلوے کا رخ کرتے ہیں۔(آف دی ریکارڈ)

میزبان :کوئی ویسے سفر کے لئے ریلوے کا انتخاب نہیں کرتے ڈیٹ کے لئے کون آئے گا۔
ٹی ٹی :یہ تو میں نے ویسے ہی کہہ دیا ریلوے پولیس کا اپنا نظریہ ہو گا۔

میزبان:بلایا تو آپ کے چیرمین کو تھا ۔آ،آپ گئے۔بہرحال آپ کا بہت شکریہ
ٹی ٹی:تو لائیں پھر میرا گفٹ ہیمپر۔

میزبان:آپ کسی کوئز پروگرام میں نہیں آئے۔یہاں سے جانے کے بعد آپ کی پیٹی بچ جائے یہی غنیمت ہے۔
ٹی ٹی:میں نے تو آپ کو کچھ بتایا ہی نہیں۔نہ وزیر کے متعلق کوئی بات کی،نہ محکمے کی یونین کے بارے میں بتایا ۔اور نہ ہی محکمے کی باریکیاں بتائیں۔تو پھر مجھے اپنی پیٹی کی کیا پروا ۔اور جتنا انہوں نے مجھے طوطے کی طرح رٹا کر بھیجا تھا اس سے کم ہی بتا پایا ہوں۔ بڑے کچے صحافی لگتے ہیں،بہر حال آپ کا بھی بہت بہت شکریہ۔
Khalid Mehmood
About the Author: Khalid Mehmood Read More Articles by Khalid Mehmood: 37 Articles with 35335 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.