بچوں کی بہتر ذہنی نشو و نما کے
لیے لازم ہے کہ اُنہیں اُن کے سوالوں کے بر وقت، دُرست اور معقول جواب دیئے
جائیں۔ اگر سوالوں کے موزوں اور تسلی بخش جواب نہ ملیں تو بچوں کا ذہنی
فروغ رُک جاتا ہے۔ مشکل صرف یہ ہے کہ بچے کسی بھی وقت، کوئی بھی سوال پوچھ،
بلکہ داغ سکتے ہیں۔ اہل مغرب نے تحقیق کے ذریعے یہ بات معلوم بھی کی اور
دنیا کو بھی بتائی کہ بچوں کو اُن کے سوالوں کے بر وقت جواب دینے سے بہت سی
ذہنی پیچیدگیوں کی راہ روکی جاسکتی ہے۔ بسا اوقات بچے ایسے سوال کر بیٹھتے
ہیں کہ والدین کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا جواب دیں اور جواب کے ساتھ
وضاحتی بیان کس طرح منسلک کریں۔ مثلاً ہر دور کا بچہ اپنے والدین سے یہ
سوال ضرور کرتا آیا ہے کہ اُنہوں نے اپنی شادی میں اُسے کیوں نہیں بلایا
تھا! بعض بچے والدین کو یہ دھمکی بھی دیتے ہیں کہ ”میں اپنی شادی میں آپ کو
نہیں بلاؤں گا کیونکہ آپ نے بھی تو مجھے نہیں بُلایا تھا!“
اہل مغرب کی احساس نوازی اور طفل دوستی دیکھیے کہ بچوں کے معصوم ذہنوں کو
پراگندہ ہونے سے بچانے کے لیے اپنے وجود کو گندا کرلیا اور معاشرے کو اُلٹ
پلٹ کر ایسا اہتمام کیا کہ مغربی دنیا کے بیشتر بچے والدین سے یہ سوال کرنے
کی زحمت سے بچ گئے ہیں کہ اُنہیں شادی میں کیوں مدعو نہیں کیا گیا تھا! اب
مغرب میں خیر سے دو تین بچوں کی کلکاریاں سُننے اور اچھے خاصے ناز اٹھانے
کے بعد والدین، خاصے غور و خوض کے بعد اور کنسلٹنٹ کی مدد سے، طے کرتے ہیں
کہ شادی کرنی چاہیے یا نہیں! اور یہ ٹرینڈ بھی پندرہ بیس سال پہلے کا تھا
جب دو دو تین تین سال کے بچوں کو ساتھ لیکر لوگ چرچ میں زندگی بھر ساتھ
نبھانے کے عہد و پیمان کیا کرتے تھے۔ آج کل خاصے ذوق و شوق سے بچوں کے بڑے
ہونے، بلکہ کاندھوں تک آنے کا انتظار کیا جاتا ہے تاکہ شادی کے انتظامات
اُن کی پسند و ناپسند کے مطابق کئے جائیں اور والدین کی شادی کے موقع پر وہ
اُن کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوں! اور اِس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر، اب تو
خیر سے بچے اِتنے بڑے ہوچکے ہوتے ہیں کہ والدین کی شادی کا فیصلہ بھی وہی
کرتے ہیں! اِس میں بھی بچت کا پہلو ہے۔ اگر کوئی شادی کرنے پر شرمندہ کرنے
کی کوشش کرے تو جواز پیش کیا جاسکتا ہے کہ بھائی! بچوں کی خوشی کے سامنے
ہتھیار ڈالنا پڑے!
”اولاد ما قبل شادی“ کا ٹرینڈ اپنانے سے ایک انفرادیت یہ پیدا ہوئی ہے کہ
باضابطہ ازواجی زندگی کی ابتداءکے وقت ”فیملی پورٹریٹ“ مکمل ہوچکا ہوتا ہے!
یہ تو ہوئی اہل مغرب کی بات۔ ہمارا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ اہل جہاں ذرا
ہماری بدنصیبی، بلکہ حرماں نصیبی تو دیکھیں کہ ہم مُرغی کی طرح جان سے گئے
اور کھانے والوں کو مزا نہیں آیا۔ کہتے ہیں کہ جب مُقدر یاوری نہ کر رہا ہو
تو اونٹ پر بیٹھے ہوئے شخص کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے! ہم اندوہ نصیبوں کا بھی
کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اہل مغرب کی طرح بھرپور ترقی کے لیے ہم نے کیا نہیں
کیا؟ کسی مقام تک پہنچنے کے خود کو مِٹانا شرط ہے۔ علامہ بھی فرما گئے ہیں۔
مِٹادے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے!
وقت کی جبیں پر اپنا نشان ثبت کرنے کے لیے ہم مِٹ مِِٹ گئے مگر یہ مِٹنا
بھی اب تک رائیگاں جاتا دکھائی دیتا ہے۔ قسمت کو ہم پر مہربان نہ ہونا تھا،
سو نہ ہوئی۔ قسمت کے حسین لبوں نے مسیحائی نہ کی، گو بقول خواجہ میر درد
ہم نے سو سو طرح سے مَر دیکھا!
ایک زمانے سے ہم بحیثیت قوم اپنے وجود کو مِٹانے میں جُتے ہوئے ہیں کہ شاید
اِس صورت خاک میں مل کر گل و گلزار ہو جائیں۔ مگر اب تک، بقول ”ڈاکٹر“ بابر
اعوان، کَکھ بھی نا ہلیا!
ہم اداروں پر ادارے نیلام یا تباہ کرتے جارہے ہیں مگر کچھ حاصل نہیں ہو
پارہا۔ اور اہل مغرب کی ذہانت دیکھیے کہ اُنہوں نے صرف ایک ادارہ تباہ کرکے
سبھی کچھ پالیا! ”مہنگا روئے ایک بار، سستا روئے بار بار“ کے مصداق اہل
مغرب نے تباہی کا شوق پورا کرنے کے لیے وہ ادارہ چُنا جس کے مِٹتے ہی تمام
”آزادیاں“ مکمل بے لگام حالت میں دستیاب ہوگئیں! اُنہوں نے شادی کا ادارہ
ہی ختم کرنے کی ٹھان لی اور اِس سفر پر ایسے نکلے کہ اب تک واپسی نہیں ہوئی
ہے! رشتے کی تلاش، منگنی، مایوں، مہندی، شادی، چوتھی، سُسرال، میکہ ....
اِن تمام جھمیلوں سے نجات پاکر سات سمندر پار بسنے والوں نے گویا دُکھوں کے
سات سمندر پار کر ڈالے! ”عقل مندی“ اِس میں ہے کہ ہر معاملے کو کاروباری
رنگ دیکر خالص منفعت پسندی کی عینک سے دیکھا جائے۔ مرد و زن ساتھ بھی رہتے
ہیں تو ”پارٹنر“ بن کر۔ یعنی ساتھ رہنے کے نتائج کی کلکاریاں مِل کر جھیلنا
ہیں، دونوں کو اِس طرح ساتھ رہنا ہے جیسے بزنس پارٹنرشپ ہوا کرتی ہے! جب
پورا معاشرہ ہی ہر معاملے میں نفع و نقصان دیکھ رہا ہو تو پھر فیملی لائف
کو کیونکر اِس سوچ سے استثنٰی دیا جاسکتا ہے! یہی سبب ہے کہ اب گھر میں
ساتھ رہنے والے بھی ”پارٹنرز“ ہیں۔
ایک بات ماننا پڑے گی۔ شادی کے ادارے کو اہل مغرب نے اپنی زندگی سے نکالنے
میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر اِس کے باوجود یہ بندھن اُن کی سائیکی میں اب
تک بسا ہوا ہے۔ گزشتہ دنوں برطانیہ کی میری ایٹن کے حوالے سے یہ خبر آئی کہ
اُس نے ڈھائی سال کی محنتِ شاقّہ کے نتیجے میں اپنا وزن 195 کلو گھٹایا۔
ایک وقت وہ بھی تھا جب میری کا وزن تمام اہل خانہ کے مجموعی وزن سے زیادہ
تھا! 330 کلو سے زائد کی میری ایٹن کو وزن کم کرنے پر آمادہ کرنے کی تمام
کوششیں بے نتیجہ رہیں تو اہل خانہ نے خالص ایموشنل بلیک میلنگ سے کام لیتے
ہوئے ایک چال چلی اور کام بن گیا۔ میری ایٹن کے چاروں بچوں کی خواہش کو پیش
منظر میں رکھتے ہوئے اُن کے والد یعنی میری کے ”پارٹنر“ نے شادی کا پروپوزل
دیا! اور شرط یہ رکھی کہ میری اپنے وزن میں نصف سے زائد کمی کرے گی تو شادی
ہوگی، ورنہ نہیں!
لیجیے صاحب! شادی کے ادارے یعنی باضابطہ ازدواجی زندگی کو ترک کئے ہوئے
عشرے گزر گئے مگر مغرب میں لڑکیوں کے لیے آج بھی پروپوزل جادو کی چھڑی کا
سا اثر رکھتا ہے! میری، جو پہلے ہی خاصی پُھولی ہوئی تھی، اِس پروپوزل کو
پاکر خوشی سے مزید پُھولی نہ سمائی اور اُس نے ایک سلِمنگ ایکسپرٹ سے
مشاورت کرکے وزن کم کرنے کی راہ پر اپنا سفر شروع کیا تاکہ باضابطہ ازدواجی
زندگی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کی راہ ہموار ہو! میری کی کوشش تھی کہ شادی
تک وہ اِتنی ”سلِم“ تو ہو ہی جائے کہ چرچ میں جب اپنے چار بچوں کے باپ کو
شوہر میں تبدیل کرلے تو باضابطہ ازواجی زندگی کے پہلے فیملی پورٹریٹ میں
صرف وہ دِکھائی نہ دے بلکہ فریم میں گھر کے تمام افراد نظر آئیں!
میری ایٹن ”خوش نصیب“ تھی کہ اُسے وزن کم کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے ایک
متروک ادارہ کام آگیا۔ ہم جن اداروں کو ترک کرتے ہیں اُن کا تو نام و نشان
بھی نہیں بچتا۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں جن کا وزن
بڑھتا ہی جارہا ہے وہ سلِم ہونے کے لیے کس طرح، کہاں سے تحریک پائیں؟ اور
خاص طور پر وہ ”حِرماں نصیب“ جو شادی شدہ ہیں! |