ایک بادشاہ کسی مہلک بیماری میں
مبتلا ہوگیا کافی علاج کرانے کے باوجود اسکی بیماری میں کوئی کمی نہیں آئی۔
تو تمام شاہی حکیموں سے صلاح مشورہ کیا گیا ،ان طبیوں نے صلاح مشورے کے بعد
کہا کہ بادشاہ کو جو بیماری لاحق ہے اس کا علاج صرف کسی انسان کے پتےّ سے
کیا جاسکتا ہے اور وہ بھی ایسے انسان کے پتےّ سے جس میں یہ خاص نشانیاں
موجود ہوں۔ ان حکیموں نے یہ تمام نشانیاں بادشاہ کے سامنے بیان کردیں۔
بادشاہ نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ یہ نشانیاں جس شخص میں بھی موجود ہوں اسے
تلاش کیا جائے اور اسے دربار میں پیش کیا جائے۔
سارے ملک میں تلاش شروع کردی گئی ، کافی تلاش کے بعد آخر کا ر سپاہیوں کو
معلوم ہو کہ ایک گاﺅں میں ایک غریب کسان رہتا ہے اس کے بیٹے میں یہ تمام
نشانیاں موجود ہیں ۔ سپاہی فوراََ اس گاﺅں میں اس کسان کے پاس پہنچے اور
کسان کو ساری بات بتائی اور کہا کہ بادشاہ کے علاج کیلئے حکیموں کو انسان
کے پتےّ کی ضرورت ہے کیونکہ تیرے بیٹے میں وہ تمام نشانیاں موجود ہیں جو
ہمیں بتائی گئیں ہیں۔لہٰذا اسے ہمارے ساتھ بھیج دو اور اس کے بدلے جتنا
چاہے روپیہ لے لو۔ کسان بے حد غریب تھا ڈھیر ساری دولت ملنے کی بات سن کر
وہ اس بات پر راضی ہوگیا کہ سپاہی اس کے بیٹے کو لے جائیں، چنانچہ سپاہی
کسان کے بیٹے کو لے کر بادشاہ کے پاس آگئے۔
بادشاہ نے جب یہ دیکھا کہ حکیموں کے بتائی ہوئی تمام نشانیاں اس لڑکے میں
موجود ہیں تو اس نے قاضی سے پوچھا کہ اس لڑکے کو قتل کرکے اس کا پتہّ
نکالنا جائز ہو گا یا نہیں۔ قاضی نے تمام معاملہ سننے کے بعد یہ فتویٰ
دیدیا کہ بادشاہ کی جان بچانے کیلئے اگر ایک جان کو قربان کیا جارہا ہے تو
یہ جائز ہے۔کسان کا لڑکا حیران و پریشان یہ سارا معاملہ دیکھ اور سن رہا
تھا۔ جب اسے معلوم ہو ا کہ بادشاہ کے علاج کیلئے قاضی نے اسکا قتل جائز
قرار دیدیا ہے تو بے حد پریشان ہوا ۔ لیکن وہ بالکل بے بس تھااور انتہائی
بے بسی کے عالم میں خاموش اپنے قتل کی تیاریاں دیکھ رہا تھا، زبان کچھ نہیں
کہہ سکتا تھا۔
قاضی کے فتوے کے بعد لڑکے کو جلّاد کے حوالے کردیا گیا، جلاّد جب تلوار
لیکرلڑکے کے قریب آیا تو لڑکے نے آسمان کی طرف دیکھا اور مسکرانے لگا۔
بادشاہ بھی اس جگہ موجود تھا اور سارا معاملہ دیکھ رہاتھا ،اس نے اس موقع
پر کسان کے لڑکے کو مسکراتے ہوئے دیکھا تو حیران ہوا کہ جلّاد کے ہاتھ میں
ننگی تلوار دیکھ کر بڑے بڑے بہادر موت کے خوف سے کانپنے لگتے ہیں اور یہ
لڑکا مسکرارہا ہے۔ بادشا ہ نے جلّاد کو رکنے کا اشارہ کیااور سپاہیوں کو
حکم دیا کہ لڑکے کو میرے قریب لے کر آﺅ۔ جب سپاہی لڑکے کو لیکر بادشاہ کے
قریب آئے تو بادشاہ نے لڑکے سے پوچھا۔ اے لڑکے موت کے اتنے قریب ہونے کے
باوجود تو بجائے خوف زدہ ہونے کے مسکرارہا ہے۔ یہ تو بتا اس وقت مسکرانے کی
کیا وجہ ہے۔
لڑکے نے جواب دیا ۔ حضور والا! دنیا میں انسان کا سب سے بڑا سہارا اس کے
ماں باپ ہوتے ہیں لیکن میں نے جب یہ دیکھا کہ روپے کے لالچ میں انھوں نے
مجھے آپ کے سپاہیوں کے حوالے کردیا۔ ماں باپ کے بعد دوسرا سہارا انصاف کرنے
والا قاضی اور ملک کا بادشاہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی ظالم کسی کو ستائے اور
ظلم کرے تو وہ اسکو روکیں لیکن قاضی اور بادشاہ بھی میرے ساتھ انصاف کرنے
کے بجائے میری جان کے درپے ہیں۔اب میرا آخری سہارا اللہ کی ذات تھی میں
دیکھ رہا تھا کہ جلاّدتلوار لیئے میرے قریب آرہا ہے اور اللہ کا انصاف بھی
ظاہر نہیں ہو رہا ، بس یہی بات سوچ کر مجھے ہنسی آگئی۔ لڑکے کی بات سن کر
بادشاہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے حکم دیا کہ ہم اس بات کو پسند
نہیں کرتے کہ ہمارے زندگی بچانے کےلئے ایک بے گناہ انسان کی جان لی جائے۔
بادشاہ کے حکم پر اس لڑکے کو فوراََ چھوڑ دیا گیا ، بادشاہ نے بہت ہی محبت
سے اسے قیمتی تحائف دے رخصت کردیا، لوگ کہتے ہیں کہ اسی دن سے بادشاہ کی
بیماری دن بدن گھٹتی گئی اور کچھ ہی عرصے میں وہ بالکل صحت مند
ہوگیا۔(ماخوذ) |