آج ہم جس موضوع پر گفتگو کرنے کی جسارت کر رہے ہیں وہ بڑا حساس موضوع ہے اور ہم
اس موضوع پر بات کرنے سے ڈرتے تھے اس لیے کہ ہماری سیاست اور سیاست دانوں میں
برداشت کا مادہ بہت کم ہی ہوتا ہے اور مخالفت اور سچ کا سامنا کرنے کے بجائے
مخالفین کو سبق سکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہم آج بھی اس موضوع پر گفتگو نہیں
کرتے لیکن وزیر اعظم گیلانی کے بیان کے بعد ہم اس موضوع پر بات کرنے کے لیے
آزاد ہیں کیوں کہ وزیر اعظم گیلانی کا بیان دراصل گھر کی گواہی کے مترادف ہے۔
جناب گیلانی صاحب نے گزشتہ روز یعنی بارہ جنوری کو کراچی میں ایک تقریب سے خطاب
کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشرف کی وردی کسی سیاسی جماعت نے نہیں بلکہ جوزف بائیڈن نے
اتروائی ہے۔ یہ بات عوام کو پہلے ہی معلوم تھی کہ ہماری سیاست میں امریکی عمل
دخل بہت زیادہ ہے اور پاکستان میں حکومتیں بنانے اور گرانے میں امریکی ایجنسیوں
اور مقامی ایجنٹوں کا بہات بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔یہ کوئی راز بات نہیں تھیی البتہ
اس کا اعتراف کوئی نہیں کرتا تھا لیکن گیلانی صاحب نے اس کا اعترف کرکے سرکاری
طور پر اس کی توثیق کردی ہے۔اب ہم اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں
ستائیس دسمبر کو محترمہ بے بنظیر بھٹو کے قتل کے بعد سے لیکر آج تک پیپلز پارٹی
پر قابض گروپ نے محترمہ کے نام اور نظریات کا نام لیکر ایک شور مچایا ہوا
تھا۔اور ان کو شہید جمہوریت کا خطاب دیا گیا،بات بات میں ان کا نام استعمال کیا
گیا،اور ان کی شخصیت کو ایک طلسماتی شخصیت کے طور نمایاں کیا گیا۔اور ایک بات
کا خاص طور پر ذکر کیا گیا کہ پیپلز پارٹی اور محترمہ کی جدو جہد کے باعث ملک
سے آمریت کا خاتمہ ہوا اگرچہ اس بات کا حقیقی کریڈٹ جسٹس افتخار کے انکار،اور
اس کے بعد وکلاء کی جدوجہد نے جنرل مشرف کی اقتدار پر گرفت کمزور کردی،اور بعض
اطلاعات کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف اور سینئر فوجی حکام نے فوج کی گرتی ہوئی
ساکھ کو بچانے کے لیے جنرل مشرف کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا۔اور یہ بات کسی
سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اس دوران پیپلز پارٹی کا کردار کیا رہا ہے۔اس پورے عرصے
میں پیپلز پارٹی جنرل مشرف سے رابطے میں رہی اسکی پالیسیوں کی خاموش تائید کرتی
رہی۔پیپلز پارٹی اور محترمہ یہ کام کیوں کرتی رہیں اس کا جواب ابھی آپ کو مل
جاتا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ محترمہ بے نظیر صاحبہ ایک بہت ذہین،قابل،حوصلہ
مند،بہادر،اور زیرک سیاستدان تھیں،اور ان کا دامن بھی ہر قسم کی کرپشن سے پاک
رہا ہے اگر ہم پیپلز پارٹی کے گزشتہ دو ادوار کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی
ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں جتنی بھی کرپشن ہوئی ان میں محترمہ کا دامن صاف
رہا ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی ساکھ کو متاثر کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ ان کے
شوہر نامدار موجودہ صدر جناب آصف علی زرداری کا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو
صاحبہ کے دونوں ادوار میں ان کی کرپشن کے قصے زبان زد عام رہے،مسٹر ٹین پرسنٹ
کا خطاب دیا گیا،ان کی شاہ خرچیاں اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹ،سیب کا مربہ کھانے والے
ان کے گھوڑے،اور سرے محل کا اسکینڈل قومی اخبارات کی سرخیوں میں رہا،اور ان کے
ان تمام اقدامات کا نتیجہ پاکستان پیپلز پارٹی اور محترمہ بے بنظیر بھٹو صاحبہ
کو بھگتنا پڑا۔انیس سو چھیانوے میں جب محترمہ کی حکومت ان کے اپنے کارکن جناب
فاروق احمد لغاری کے ہاتھوں برطرف کی گئی اور اس کے بعد انتخابات میں نواز شریف
بھاری مینڈیت لیکر اقتدار میں آئے تو انہوں نے مندرجہ بالا الزامات کے تحت جناب
آصف علی زرداری کو حراست میں لے لیا اور ان پر مقدمات قائم کیے گئے۔اکتوبر انیس
سو نناوے میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔نواز شریف کی حکومت ختم
ہونے کے باوجود جناب آصف علی زرداری کی حالت میں کوئی فرق نہیں آیا اور مشرف
حکومت نے بدستور ان کے مقدمات قائم اور ان کو حراست میں رکھا۔جنرل پرویز مشرف
تمام سیا ست دانوں سے الرجک تھے۔اور وہ کسی بھی سیاستدان کو کئی نرمی دینے کو
تیار نہ تھے۔بالخصوس مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ان کا نشانہ تھی۔ان حالات میں
محترمہ نے ملک سے باہر رہ کر پارٹی کی قیادت کی اور ان کی اس وقت کی سیاست کا
بنیادی نکتہ صرف یہ تھا کہ کسی طرح وہ آصف علی زرداری کو رہا کرا دیں۔اس مقصد
کے لیے انہوں مشرف سے ڈیل بھی کی،امریکہ سےرابطہ بھی کیا،اور تمام سیاسی
پارٹیوں سے بھی معاملات نبھائے رکھے۔اسوقت جناب آصف علی زرداری محترمہ پاؤں کی
زنجیر بن چکے تھے کیوں کہ محترمہ کے کسی بھی اقدام کی صورت میں آصف علی زرداری
کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتیں تھی اس لیے محترمہ کی زندگی کے آخری نو سال کی جو
جد جہد گزری ہے وہ جمہوریت کے لیے نہیں تھیں بلکہ صرف آصف علی زرداری صاحب کی
رہائی کے لیے تھیں اس لیے کہ جب تک زرداری صاحب قید میں تھے محترمہ کھل کر کوئی
سیاست نہیں کرسکتی تھیں۔(اور یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ جناب آصف علی زرداری
کی رہائی سے پہلے اور رہائی کے بعد محترمہ کے لہجے میں ایک واضح فرق
آیا۔)محترمہ کی اس دور کی سیاست کا دوسرا اہم ترین نکتہ زرداری صاحب کو ملکی
سیاست سے بے تعلق کرنا تھا،اور ان کی کوشش تھی کی آصف علی زرداری صاحب ملکی
سیاست میں دخل نہ دیں اسی لیے محترمہ نے آخری دنوں میں زرداری صاحب کو دوبئی
میں شفٹ کیا اور پھر سیاست میں بھر پور حصہ لیا،البتہ اس وقت تک جنرل مشرف کے
غبارے سے ہوا نکل چکی تھی، ان کی وردی اتر چکی تھی اور ان کے ستارے گردش میں
آگئے تھے۔
اس سارے پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد یہ اس بات کو واضح کیا جائے کہ مشرف دور
میں محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی سیاست کا مقصد بحالی جمہوریت نہیں بلکہ بحالی
زرادری صاحب تھا۔
لیکن ان تمام حقائق کو جاننے کے باوجود محترمہ کی ناگہانی موت نے ان کے مخالفین
کو اشکبار کردیا،اور پورے ملک کا ماحول سوگوار ہوگیا۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ
قیادت نے محترمہ کی موت کو کیش کرنا شروع کیا اور ان کو شہید جمہوریت کہنا شروع
کیا اگرچہ عوم کو اسپر پہلے ہی تحفظات تھے مگر کوئی بول نہیں سکتا تھا۔ لیکن اب
وزیر اعظم صاحب کے بیان کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت کے لیے یہ لازم ہوجاتا ہے
کہ وہ محترمہ کے لیے شہید جمہوریت کا لفظ استعمال نہ کرے بلکہ اخلاقی جرائت کا
مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو ملنے والا عالمی اعزاز بھی واپس کردے کہ جناب جمہوریت
کی بحالی میں کسی سیاسی پارٹی کا ہاتھ نہیں بلکہ نو منتخب نائب امریکی صدرعزت
مآب جناب جوزف بائیڈن کا ہاتھ ہے اور ہم اس اعزاز کو لینے کا استحقاق نہیں
رکھتے اس لیے یہ اعزاز واپس لیا جائے۔
کیا پاکستان پیپز پارٹی کی موجودہ قیادت یہ کرسکے گی یقیناً نہیں بلکہ ہمارا
اندازہ ہے کہ بدھ چودہ جنوری کے اخبارات میں جناب یوسف رضا گیلانی صاحب اس کی
تردید کردیں گے۔ ہم اس بیان پر یہ ضرور کہیں گے کہ بحالی جمہوریت میں ایم کیو
ایم ،پیپلز پارٹی،اور ق لیگ کا ہاتھ نہیں ہے البتہ باقی پارٹیوں اور سال
سوسائیٹی نے بحالی جمہوریت کے لیے قربا نیاں دیں ہیں
اب ہمارا پیپز پارٹی کی قیادت کو صرف یہی مشورہ کہ جب آپ نے اعتراف کرلیا کہ
بحالی جمہوریت میں محترمہ کا ہاتھ نہیں تھا تو پھر محترمہ کے نام پر اب سیاست
کرنا چھوڑ دیں،بس بہت ہوگیا |