ہندستان، ایران اور امریکا

یہ بات کسی قدر طمانیت بخش ہے کہ ہندستان نے امریکا، اسرائیل اور ان کے یورپی حلیفوں کی ان سازشوں کا حصہ بننے سے انکار کردیا ہے جن کا مقصد عالمی برادری سے کاٹ کر ایران کو اقتصادی طور پر ملوج کردینا ہے تاکہ اس خطے میں اسرائیل کا بول بالا رہے۔یہ ممالک نیوکلیائی سانئس میں خود کفالت حاصل کرنے کی کوشش کے’ جرم‘ میں ایران کو اپنا ہدف بنائے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بشمول ہند دیگر ممالک بھی ایران کشی کی مہم میں ان کا ساتھ دیں۔

زیادہ پرانی بات نہیں جب ہندستان خوداس مرحلے سے گزر چکا ہے جس سے آج ایران گزر رہا ہے۔ ہندستان نے 1974اور 1998میں جب کامیابی سے نیوکلیائی تجربات کئے تب بھی ان ممالک نے ایک قیامت برپا کردی تھی۔ ہرچند کہ ہندستان نے یہ واضح کردیاتھا کہ اس کی نیوکلیائی تحقیق پر امن مقاصد کےلئے ہے مگر یہ بات بڑی دیر سے امریکا کی سمجھ میں اب آئی ہے۔ ورنہ1998 کے تجربات کے بعد امریکاکی پہل پرہی سلامتی کونسل نے ہند کے خلاف قرارداد مذمت (1172)منظور کی تھی۔ ہند نے اس اقدام کو بجاطور پر ”جابرانہ اور غیر مفید“("coercive and unhelpful") قراردیا تھا۔ٹھیک یہی صورتحال آج ایران کے ساتھ ہے۔ ایران بھی بار بار یہ یقین دہانی کرارہا ہے کہ اس کا نیوکلیائی تحقیق کا پروگرام پر امن مقاصد کےلئے ہے مگر اس کے خلاف رو ز نئی پابندیوں کاسلسلہ جاری ہے اور اب امریکا نے دھمکی دی ہے کہ اگر ہند نے ان پابندیوں میں اس کا ساتھ نہیں دیا تو خمیازہ اس کو بھی بھگتنا پڑیگا۔ ہر چند کہ موجودہ عالمی پس منظر میں اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش سے نقصان امریکا کو بھی ہوگا مگر بین اقوامی معاملات میں اور خود مختار ممالک کے دو طرفہ رشتوں میں یہ غیر اصولی مداخلت یقینا باعث تشویش ہے۔بڑا اہم سوال یہ ہے کہ پابندیوں کو وہی پھندا جو امریکا نے ہمارے گرد کسا تھا، اب جب ایران کے گلے میں ڈالا جارہا ہے تو ہند کا کیا رویہ ہونا چاہئے؟ اس کا جواب ماضی میں اپنے رشتوں، موجودہ قومی مفادات اور مستقبل کے امکانات میں ہی تلاش کیا جاسکتا ہے ناکہ اسرائیل اور امریکا کی ترجیحات اور خواہشات کی روشنی میں ۔علاوہ ازیں ہم یہ بات کیسے بھلا سکتے ہیں کہ امریکی پابندیوں کے بعد کے نازک حالات میں اسلامی جمہوریہ ایران بڑی مضبوطی سے ہند کی تائید میں کھڑا رہا۔ہرچند کہ شاہ کے دور میں، جب کہ ایران امریکا اور یورپی ممالک کا قریبی حلیف تھا، اس کی پالیسیاں ہند مخالف رہیں، لیکن اسلامی انقلاب کے بعد اس کی روش یکسر بدل گئی ہے۔

ہند پر پابندیاں اور ایران
ہند کے نیوکلیائی تجربات کے بعد امریکا، جاپان اوریورپی ممالک نے ہندکو عاجزکرنے کےلئے بہت ساری پابندیاں عایدکردی تھیں۔ بین اقوامی معاہدوں کے باوجودہند کے نیوکلیائی بجلی گھروں کےلئے ایندھن ، فاضل پرزوں اور آلات کی سپلائی روک دی گئی۔ سائنس اور ٹکنالوجی کے ان تمام شعبوں میں تعاون بند ہوگیا جن کا استعمال نیوکلیائی سائنس میں ممکن تھا اور سب سے اہانت آمیز یہ کہ ہمارے نیوکلیائی سائنسدانوں کو عالمی کانفرنسوں سے استفادہ حاصل کرنے سے روک دیا گیا اور ان کے ویزا پر پابندی لگادی گئی۔اس طرح امریکا نے ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کی۔ یہ بات دیگر ہے کہ اس کے باجود ہند ایک بڑی طاقت بن کا ابھرا ہے اور امریکا کو اپنی معیشت کو سہارا دینے کےلئے اس کی ضرورت پڑ رہی ہے جس کا ثبوت صدر اوباما کی دورہ ہند کے موقع پر ملا۔ہند کی ان اقتصادی کامیابیوں کے بعد امریکا کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ ہند پر عائد پابندیوں کا ہٹایا جانا خود اس کے اپنے مفاد میں ہے۔چنانچہ 2006کے سول نیوکلیائی معاہدے کے نتیجہ میں یہ پابندیاں ہٹیں۔ لیکن امریکا نے اگر یہ سمجھ لیا ہے کہ ’حکمت عملی میں شراکت‘ کے عنوان سے ہندستان اپنے مفادات کو نظر انداز کرکے امریکا کی خواہش کے مطابق دیگر ممالک کے ساتھ اپنے رشتے طے کریگا تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ ہندستان ایک آزاد خود مختار جمہوری ملک ہے۔ اس خطے میں اس کی کلیدی اہمیت ہے۔ اس کی ایک کوشش یہ ہے کہ بشمول چین اور پاکستان اس کے رشتے خطے کے تمام ممالک کے ساتھ مضبوط ہوں۔ایسی صورت میں یہ توقع رکھنابعید از فہم ہے کہ وہ ایران کو نظرانداز کردےگا جو جغرافیائی، اقتصادی اور سیاسی طور سے خود کلیدی اہمیت کا حامل ملک ہے ۔ایران کا جغرافیائی محل وقوع اس کو جنوب مشرقی اور مغربی ممالک کے درمیان زمینی رابطہ کےلئے ناگزیر کڑی بناتا ہے۔

ہند کے ساتھ قدیم رشتے
ایران ہمارا پڑوسی ملک ہے۔ تقسیم وطن سے پہلے دونوں کی سرحد ملتی تھی اورتجارت و سیاحت کے علاوہ دونوں کے درمیان خون کے بھی رشتے تھے۔ ہندستان میں بیشمار خاندان ایسے مل جائیں گے جن کے اباو اجداد ایران سے یہاں آکر بس گئے۔ایرانی نقاشی ہماری تاریخی عمارتوں کا حسن دوبالا کرتی ہے۔دسترخوان پر ایرانی ڈشیں اس طرح بکثرت نظرآتی ہےں کہ اب یہ شناخت مشکل ہے کہ کون سی اصلاً ایرانی ہے۔ ہمارے لسانی اورمذہبی رشتے بھی ہیں۔ فارسی کے ہزارالفاظ ہماری بولی میں شامل ہیں۔ عرصہ تک فارسی ہماری سرکاری زبان رہی اور یہ مثل مشہور تھی’ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؛ پڑھے لکھے کو فارسی کیا؟‘گویا ہر تعلیم یافتہ فارسی شناس ہوتا تھا ۔ہر چند کہ ایسے رشتے ہمارے دیگر ممالک کے ساتھ بھی ہیں، مگر ایران کے ساتھ ان رشتوں میں ایک خاص مہک محسوس ہوتی ہے۔ جدید ایران کے ساتھ ہمارا ایک رشتہ یہ بھی ہے کہ ہندستان کی طرح وہاں کا نظام بھی جمہوری ہے ۔ایسا جمہوری نظام جو دہشت گردانہ حملے میں 70سے زیادہ سیاسی شخصیات جاںبحق ہوجانے کے باوجودبرقرار رہی ۔ حتیٰ کہ امریکا کی شہ پر عراقی حملے اور 8سالہ جنگ کے باجود پارلیمانی انتخاب وقت پر ہوتے رہے۔ان ہنگامی حالات کے باوجود ایک دن کےلئے ایمرجنسی نہیں لگی، آئین معطل نہیں ہوا، جمہوری اداروں پر فوج کا قبضہ نہیں ہوا۔ ایران بعد اب ترکی،پاکستان اور بنگلہ دیش میں بھی جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہورہی ہے اور تیونس، مصر، سوڈان وغیرہ متعدد دیگر ممالک میں اس کی داغ بیل پڑرہی ہے۔مگرایران جیسی جمہوریت اور کہاں؟

تیل اور تجارت
ہندستان کی تیل کی 12فیصد سپلائی ایران سے آتی ہے۔دنیا کے کسی بھی ملک سے ہماری یہ ضرورت پوری نہیں ہوسکتی اورامریکا کی دھونس میں آکر ہم اپنی معیشت کو زد نہیں پہنچاسکتے۔ خاص طور سے ایسی صورت میں جب کہ امریکا نے اس معاملے میں دوغلی پالیسی اختیار کی ہے۔ اس نے جاپان ، اور دس یورپی ملکوں کو اپنی پابندی کی زد سے مستثنیٰ قرار دیدیا ہے (21مارچ) لیکن ہند، چین، ترکی اور جنوبی کوریا کو اس لسٹ میں شامل رکھا جن کو اس نے پابندیوں کی زد میں شامل کیا ہے۔ ہند کی طرح چین ،جاپان اورجنوبی کوریا نے صاف بتادیاتھا کہ ایران سے تیل کی درآمد نہیں روکی جاسکتی۔ بنکوں کے ذریعہ تیل کی رقم کی ادائیگی دشواریوں کو ہند اور ایران بڑی حد تک حل کرلیا ہے۔

ساری عالمی تجارت امریکی ڈالر میں ہوتی ہے جس کا فائدہ امریکی ڈالر کی عالمی حیثیت کو پہنچتا ہے۔حل یہ نکالا گیا ہے کچھ رقم سونے کی شکل میں ادا کی جائیگی 45فیصد رقم ہندستان اپنے سکہ روپیہ میں اداکریگا جس کا استعمال ایران ہندستان سے اپنی ضرورت کا سامان خریدنے پر کریگا۔یہ صورت ہماری صنعت و تجارت کےلئے وَردان بن کر سامنے آئی ہے۔ چنانچہ امریکا کی ناراضگی کو درکنار کرتے ہوئے ایک 80رکنی ہندستانی تجارتی وفد نے 10مارچ سے ایران کا پانچ روزہ دورہ کیا جس کو بہت کامیاب قراردیاگیا ہے۔ چنانچہ تازہ تجارتی معاہدے کے تحت ہند اپریل کے آخر تک 60,000 ٹن چینی ایران کو برامد کریگا جس میں 19,800 ٹن کی پہلی کھیپ اس وقت ممبئی میںبحری جہاز میں لادی جارہی ہے۔ وفد میں شریک تاجروں نے کہا ہے کہ ایران نے بڑی مقدار میں اناج، اشیائے خوردنی، ادویہ اور موٹر پارٹس کی خریداری میں دلچسپی لی ہے۔ ہندستان دو دیگر بڑے پروجیکٹوں پر بھی کام کررہا ہے جس کے فوائد آئندہ چل کر دکھائی دیں گے۔ پہلا منصوبہ ایران کے چابہار بندرگاہ کی جدید کاری کا ہے یہ ایک فری ٹریڈ زون میں آتا ہے اور ہندستان سے قریب ترین ہے ۔ہمارابہت سا سامان تجارت اور افغانستان کےلئے ضروری سامان اسی بندرگاہ پر جاتا ہے۔ ایک دوسرا اہم پروجیکٹ بندرعباس بندرگاہ سے بحر قزوین (کیسپین سی) کے بندرگاہ بندر انزالی تک ریلوے لنک کو جوڑنا ہے۔ منصوبہ یہ ہے ہند کا مال تجارت بحری راستے سے بندرعباس اور وہاں سے ٹرین سے بحر انزالی تک اور وہاںسے آبی راستے سے روس کی نوآزاد ریاستوں اور یورپی ممالک تک جائیگا۔ ظاہر ہے یہ پروجیکٹ ہند کے مفاد میں ہیں اور ان کو ترک کرنے کا مشورہ قابل قبول نہیں ہوسکتا۔امریکا کے دباﺅ میں گیس پائپ لائن کا منصوبہ پہلے یہ کھٹائی میں پڑ چکا ہے مگر سجھا جاسکتا ہے اس کا تدارک سول نیوکلیائی معاہدہ کی صورت میں ہوگیا ہے۔ دیگر منصوبوں کا کوئی متبادل امریکا کی جھولی میںنہیں، جو دن بدن خالی ہوتی جارہی ہے۔

ایران کی علاقائی اہمیت
ایران کی ایک اہم علاقائی اہمیت ہے۔ افغانستان میں امن کی بحالی ، سیاسی استحکام اور خوشحالی کےلئے ایران کی کلیدی اہمیت ہے۔ افغانستان میں ہند کے مفادات کی نگرانی کےلئے یہ ضروری ہے کہ ایران، پاکستان اور چین کے ساتھ تال میل قایم ہو۔ہند۔ چین اور ایران اس خطے میں ایک ایسا مثلث بن سکتے ہیں جو پاکستان اور دیگر علاقائی ممالک کے تعاون سے پورے خطے کی تقدیر بدل ڈالے اور امریکا، فرانس ، اٹلی، جرمنی اور برطانیہ اتحاد کا مضبوط مشرقی متبادل پیش کرسکے۔ اسی ماہ نئی دہلی میں ’برازیل،روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ (BRICS) چوٹی کانفرنس ہونے والی ہے جس میں توقع ہے ایران پر یورپی پابندیوں پر بھی غور کیا جائیگا کیونکہ یہ سبھی ممالک ان پاپندیوں کی تائید نہیں کرتے۔ ممکن ہے کوئی ایسی صورت نکلے جس سے ایران کی مشکلات کم ہوں۔ہمارا خیال ہے کہ امریکا ایران تنازعہ میں ہند کو خاموش تماشائی بنے رہنے یا محض اپنا دفاع کرتے رہنے کے بجائے متحرک ہونا چاہئے اور ایران و یورپی ممالک کے ساتھ اپنے اثر رسوخ کو کام میں لاتے ہوئے ،اس تنازعہ کو حل کرانے میں مثبت رول ادا کرنا چاہئے۔ایک درجہ میں پاکستان کو بھی معاون بنایا جاسکتا ہے۔ہرچند کے وہ امریکا کے دباﺅ میں مگر اس کی جغرافیائی و سیاسی اہمیت مسلم ہے۔

آخری بات
اسرائیل، امریکا اور یورپی ممالک جو ایران کے نیوکلیائی اسلحہ کا ہوا کھڑا کررہے ہیں، خود ان کے پاس ایسے تباہ کن اسلحہ کا انبار موجود ہے۔ دنیا میں آج تک امریکا کے علاوہ کسی ملک نے نیوکلیائی بموں کا استعمال نہیں کیاجس سے جاپان میں لاکھوں افراد ہلاک ہوگئے اور جس کے اثرات 65سال گزرجانے کے باوجود کے بعد بھی زایل نہیںہوئے ہیں۔ چنانچہ ان ممالک کو ہرگزیہ اخلاقی حق حاصل نہیں کہ اپنا اسلحہ تلف کئے بغیر کسی دوسرے کوروکیں ٹوکیں۔ ہندستان کو دوٹوک الفاظ میں دنیا کو بتادینا چاہئے کہ ہمارے دو پڑوسی ممالک نیوکلیائی اسلحہ سے لیس ہیں اور ہم ان کے ساتھ ہمارے تعلقات مسلسل بہتر ہورہے ہیں۔ جب ہمیں ان سے کوئی خطرہ نہیں تواسلامی جمہوریہ ایران سے کیا خطرہ ہوسکتا ہے جس کے ساتھ ہمارے ساتھ ہمارے اچھے رشتے ہیں۔ اسلامی انقلاب کے بعدایران نے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس کا منفی اثر ہم پر پڑا ہو۔ رہا اسرائیل کے وجود کو خطرہ، تو اس کو یہ مشورہ دیا جانا چاہئے کہ وہ دادا گیری اور عظیم تر اسرائیل کے نظریہ کو ترک کرکے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بقائے باہم کے اصول پر رہنا سیکھے۔ ان عرب فلسطینیوں کے حقوق بحال کرے جو اس کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں اور عربوں کے مقبوضہ علاقے واپس کرے۔ ہمیں کسی بھی حال میں اسرائیل کی داداگیری کا موئد نہیںبن جانا چاہئے۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163204 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.