ایک بار کا ذکر ہے کہ ایک خوبرو
لڑکی ایک مولوی صاحب کے پاس گئی اور ان سے چند سوالات پوچھنے کی اجازت طلب
کی، مولوی صاحب نے بخوشی اجازت دیدی، لڑکی نے پوچھا کہ ”کیا میں محلے کے
کسی لڑکے کوآئی لو یو (I Love You) کہہ سکتی ہوں، مولوی صاحب بولے ”جہنم
میں جانا چاہتی ہو؟“ لڑکی نے اگلا سوال کیا ”کیا میں کسی دوسرے محلے کے
لڑکے کو آئی لو یو کہہ سکتی ہوں؟“ مولوی صاحب کا پھر یہی کہنا تھا کہ ”کیا
تم جہنم کی آگ میں جلنا چاہتی ہو؟“ لڑکی نے اگلا سوال داغا، ”مولوی صاحب!
کیا میں آپ کو آئی لو یو کہہ سکتی ہوں؟“ مولوی صاحب نے کھلے ہوئے چہرے اور
شگفتگی کے ساتھ جواب دیا ”اچھا! تو تم جنت میں جانا چاہتی ہو“۔ کچھ ایسی ہی
صورتحال اس وقت ارض پاکستان میں پائی جاتی ہے، ہر شخص خود کو ”پکا
مسلمان“سمجھتا ہے اور دوسرے اسے دائرہ اسلام سے خارج نظر آتے ہیں۔ اکثر
لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اگر کسی کو جنت میں جانے کا شوق ہے تو وہ ہمارے ساتھ
چلے۔ شائد ہر کسی کی جنت الگ الگ ہے اور اس پر جانے کے راستے بھی، سب کے
راستے ایسے خوشنما دکھائی دیتے ہیں کہ آدمی دنگ رہ جائے، کیا صرف جنت کا
حصول ہی مطمع نظر ہونا چاہئے یا رضائے الٰہی کا؟ کیا ہمارے اکثر ”قائدین“کو
خود بھی یقین ہے کہ وہ جنت کے راستے پر گامزن ہیں، اگر وہ خود یقین کے ساتھ
کچھ نہیں کہہ سکتے تو دوسروں کو گارنٹیاں کیسے دے سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں اعتزاز احسن کی وزیر اعظم توہین عدالت کیس میں بحث بھی
مضحکہ خیز ہوتی جارہی ہے،اعتزاز احسن کی بات پر ہنسا ہی جاسکتا ہے اگر وہ
سپریم کورٹ سے یہ کہیں کہ میرا موکل ایک پیر ہے، گدی نشین ہے ۔ کیا کسی پیر
یا کسی گدی پر براجمان شخص پر کوئی قوانین لاگو نہیں ہوتے؟ کیا اسلام نے
کسی بھی مرحلہ پر ایسی تعلیمات دی ہیں، اسلامی تعلیم تو حضور اکرم ﷺ نے اس
طرح دی کہ”اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیا
جاتا“.... تو کیا آج کے ڈبہ پیر وں پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا؟ ویسے
اعتزاز احسن سے یہ سوال پوچھنا چاہئے کہ موجودہ حکومت میں کافی گدی نشین
موجود ہیں، کیاان میں سے ایک بھی کرپشن کے الزامات سے بچا ہوا ہے؟ ملتان کی
گدیاں تو اس وقت کرپشن کی ندیاں بنی ہوئی ہیں، پورے ملک میں جہاں کہیں
کرپشن کی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں ان میں سے اکثر کے تانے بانے ملتان جاتے
نظر آتے ہیں، جناب پیر آف ڈبہ شریف یوسف رضا گیلانی کا تو سارا خاندان ہی
مبینہ طور پر ان کہانیوں میں شامل ہے۔ پیپلز پارٹی کی پیٹھ میں چھرا
گھونپنے سے وہ انکاری ہیں لیکن اس ملک اور قوم کی شہہ رگ پر کسی قصائی کی
طرح چھریاں چلانے میں انہیں کوئی تامل نہیں، اس پر طرہ یہ کہ اب اعتزاز
احسن وکلاء تحریک میں دی گئی اپنی قربانیوں کا ذکر اس لئے کرتے نظر آتے ہیں
کہ وزیر اعظم کو ”باعزت“ بری کردیا جائے، اپنے سہیل وڑائچ کے الفاظ میں
”کیا یہ کھلا تضاد نہیں....“
اب نئی بات سن لیں! اپنے مولانا فضل الرحمان صاحب کا تازہ ترین فرمان ہے کہ
عوام مغربی تہذیب اور ”مغربی لونڈے“ کو قبول نہیں کریں گے۔ عوام اگر جان کی
امان پائیں توعرض کرنا چاہتے ہیں کہ جناب مولانا! اگر فتوے لگانے سے کبھی
فرصت ملے تو اپنے کارنامے بھی گنوا دیں جو آپ نے اس ملک کے لئے انجام دئے
ہیں۔ آپ وہی ہیں نہ جو کبھی بینظیر بھٹو کی حکومت میں کشمیر کمیٹی کے
چیئرمین ہوا کرتے تھے، بطور چیئرمین کشمیر کمیٹی ہوائی جہازوں سے بے شمار
سفر، فائیو سٹار ہوٹلوں میں رہنے اور کھانے پینے کے علاوہ کوئی دوسرا
کارنامہ اس دور کا ہی بتا دیں، مشرف دور میں اس کو وردی میں تحفظ دینے کے
لئے تو آپکی دن رات کی محنت شامل رہی، کیا کوئی اور کارنامہ ہے اس دور کا؟
آصف زرداری کے ساتھ کچھ عرصہ پیشتر تک آپکے انتہائی قریبی سیاسی تعلقات تھے،
انہی کے دور میں خیبر پختونخوا میں زمینوں کی الاٹمنٹیں اور دیگر کچھ
کارنامے تو میڈیا کے توسط سے ہم تک پہنچ چکے ہیں باقی کا آپ ہی بتا سکتے
ہیں۔ حضور والا! آپ تو اس ملک کے عوام اور خصوصاً ان لوگوں سے کوئی گلہ
نہیں کرسکتے جو آپ کو ووٹ دیتے رہے، اچھائی کی امیدیں وابستہ کرتے رہے، اگر
آپ نے کچھ کرنا ہوتا تو مشرف دور میں خیبر پختونخوا میں آپکی حکومت تھی،
ضرور کچھ نہ کچھ بہتری کر دیتے، اگر آپ نے عوام کی امیدوں پر پورا اترنا
ہوتا تو اب تک اتر چکے ہوتے۔ مولانا صاحب! اب عوام کافی حد تک سمجھتے جارہے
ہیں کہ کون ہے جس کے دل کے اندر اس ملک کا درد ہے اور کون ہے جس کے دل و
دماغ میں صرف اپنا جاہ و جلال ہے، اقتدار ہے اور پیٹ کا دوزخ بھرنے کا لالچ
ہے۔ کوئی مغربی لونڈا ہے یا مشرقی یہ تو سب جانتے ہیں البتہ ”دیسی بابوں“
کے بارے میں ابھی بھی عوام ”سب کچھ“ نہیں جانتی.... دعا کریں کہ وہ وقت نہ
آئے۔ باقی ”دیسی بابے“ خود بہت سیانے ہیں۔جناب والا! قوم صرف اس وجہ سے
جہنم کی حقدار نہیں ٹھہر سکتی کہ وہ کسی مشرقی یا مغربی لونڈے کے ساتھ چل
نکلی ہے اور نہ اس لئے جنت کی امیدوار کہ وہ اللہ کا نام لے کر اقتدار حاصل
کرنے والے بابوں اور منافقوں کے پیچھے پیچھے پھرتی رہے۔ اللہ کسی کا رشتے
دار نہیں، کوئی مغربی یا مشرقی لونڈا بھی اپنے اعمال و افعال سے اسے خوش
کرسکتا ہے اور کوئی لمبی داڑھی اور چوغے والا دیسی نابا بھی اسے ناراض کر
سکتا ہے....بات عمل کی ہے کہ اللہ کی مخلوق کے لئے کون کام کرتا ہے.... رہے
نام اللہ کا |