میں تو پہلے ہی کہتی تھی کہ
ہمارا میڈیا ہمیشہ یک طرفہ کاروائی کرتا ہے ۔ جی چاہے تو ذوالفقار مرزا اور
یونس حبیب جیسے لوگوں کو آسمان کی رفعتوں پہ پہنچا دے اور من میں آئے تو
”عدل بِنا جمہور نہ ہو گا“ اور ”دھرتی ہو گی ماں کے جیسی“ جیسے سہانے سپنے
دکھانے اور چیف جسٹس کی ڈرائیوری پر فخر کرنے والے عظیم بلکہ عظیم ترین
قانون دان اعتزاز احسن صاحب کو پاتال کی گہرایوں میں پھینک دے لیکن آج ایک
عظیم لکھاری کا یہ بیان پڑھ کر دل کو تسلی ہوئی کہ ”وہ دِن دور نہیں جب
وزیرِ اعظم کی وکالت کرنے کا فیصلہ چوہدری اعتزاز احسن کے کیریئر کا بہترین
فیصلہ ثابت ہو گا“۔ وگرنہ میں تو کئی دنوں سے پریشان بیٹھی تھی کہ آخر قوم
کے اس ”محسن “ سے کونسا گناہ سرزد ہوا ہے جو میڈیااس کے پیچھے لٹھ لے کے پڑ
گیا ہے ۔اعتزاز احسن نے یہ کہہ کر سپریم کورٹ کے سات رُکنی بنچ کے چھکے
چھُڑا دیئے کہ اُن کا موکّل ایک پیر اور ”گدی نشین“ ہے جس کے خلاف ایسی سخت
زبان استعمال کرنے والے بنچ سے انصاف کی کوئی توقع نہیں ۔اس لئے فوراََ بنچ
تبدیل کی جائے ۔ وہ دراصل کہنا تو یہ چاہتے ہوں گے کہ ایسی سخت زبان
استعمال کرکے بنچ نے ان کے موکّل کی توہین کی ہے اس لئے یہ کیس توہینِ
عدالت کا نہیں بلکہ ”توہینِ گدی نشین“ کا بنتا ہے اور یہ کیس بنچ پر چلنا
چاہیے نہ کہ ان کے موکّل پر لیکن چونکہ وہ بہت ”ٹھنڈے ٹھار“ انسان ہیں اس
لئے
کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے
کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے
اب سمجھ میں آیا کہ دوسرے ”ٹھنڈے ٹھار“ گیلانی صاحب نے کیوں تپ کر یہ کہا
کہ ”میں وزیرِ اعظم ہوں چپڑاسی نہیں“ ۔ میرا خیال ہے کہ وہ یہاں کچھ چُوک
گئے اور ”گدی نشین “ کی جگہ وزیرِ اعظم کہہ گئے۔ یا پھر ہو سکتا ہے کہ آقا
کی طرف سے یہی حکم ملا ہو ۔ بہر حال پاکستان کے سارے پیروں اور گدی نشینوں
کو نوید ہو کہ اب کوئی ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا کہ ان کی پُشت پر ایک
گدی نشیں وزیرِ اعظم اور ایک عظیم ترین وکیل موجود ہے ۔ توہینِ عدالت کا
فیصلہ جو ہو ، سو ہو لیکن یہ طے ہے کہ آئندہ کوئی بھی یوں گدی نشینوں کی
توہین کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا اور اگر پھر بھی ”لوگ“ باز نہ آئے تو
فیصلے کے لئے پارلیمنٹ سے رجوع کیا جائے گا ، عدلیہ سے ہرگز ہرگز نہیں
کیونکہ عظیم تر قومی مفاد میں جنابِ صدر نے آئین کی تشریح کا حق عدلیہ سے
واپس لے کر اپنے پاس رکھ لیا ہے ۔ تشریح وہ خود کریں گے اور جب جی چاہے گا
”ربڑ سٹمپ پارلیمنٹ“ سے اس کی منظوری لے لیں گے اورایسا بھی ملک و قوم کے
وسیع تر مفاد میں ہی ہو گا کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ پارلیمنٹ چوروں ، لٹیروں
، بھتہ خوروں ، قرضہ خوروں ، انگوٹھا چھاپوں اور جعلسازوں سے بھری پڑی ہے
جو صرف اپنے کام سے کام رکھتی ہے البتہ بوقتِ ضرورت ہاتھ ضرور کھڑے کر دیتی
ہے ۔۔۔۔۔ آج ہی اخبار میں یہ خبر چھپی ہے کہ اکہتر 71 اراکینِ پارلیمنٹ
ایسے ہیں جنہوں نے گزشتہ چار سالوں میں اپنے مُنہ سے ایک لفظ بھی ادا نہیں
کیا سوائے ہاتھ کھڑا کرنے کے ۔ اگر خُدا نخواستہ اور خاکم بدہن یہ پارلیمنٹ
تھوڑی سی بھی با شعور ہوتی تو پھر اٹھارویں ، انیسویں اور بیسویں ترامیم پہ
پھڈا ڈال بیٹھتی اور آخر قوم نے چار سالوں میں پارلیمنٹ پر چھ ارب اس لئے
تو صرف نہیں کیا کہ وہ ”ایویں خوامخواہ“ ہی پھڈا ڈالے ۔ شاید اسی لئے
گیلانی صاحب بار بار تنبیہہ کرتے رہتے ہیں کہ ادارے اپنی حدود میں رہیں اور
اتنا نہ اپنی جائے سے باہر نکل کے چل
دُنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ سنبھل کے چل
جب کوئی ادارہ اپنی ”جائے“ سے باہر نکل کے چلنے کی کوشش کرتا ہے تو گدی
نشینوں کو انہیں سیدھا کرنا بھی آتا ہے اسی لئے تو ثنا خوانِ زرداری اور
معروف لکھاری نے اعلیٰ عدلیہ کو تنبیہہ کرتے ہوئے حقِ نمک یوں ادا کیا ہے
کہ ”اعلیٰ عدلیہ نے چینی کی قیمت مقرر کرکے اپنی حدود سے تجاوز کیا لیکن
کسی نے تسلیم نہ کیا ۔ یوں چینی کے فیصلے کی طرح عدلیہ کو خط لکھنے کے
فیصلے کے بارے میں بھی سمجھ لینا چاہئے کہ اس فیصلے پر عمل در آمد کرنا بھی
انتظامیہ کے لئے مشکل ہے “ ۔ آگے چل کر وہ دھمکی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ
”منتخب حکومت کے پاس عوامی طاقت ہوتی ہے اور عدلیہ کے پاس اخلاقی“۔ بات تو
پتے کی ہے کہ عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کروانے کے لئے ”تھانیدار“ تو
گیلانی صاحب نے دینا ہے ۔ وہ تھانیدار تو خیر کیا دیں گے البتہ عوام کا جمِ
غفیر لے کر سڑکوں پر ضرور نکل آئیں گے ۔ لیکن کچھ بد باطن یہ بھی کہتے ہیں
کہ آمر مشرف کے پاس تو فوج کی طاقت بھی تھی اور قاف لیگ کی ”جمہوری“ حکومت
بھی ، پھر بھی اکیلے چیف جسٹس نے سبھی کا ”سوا ستیاناس“ مار دیا ۔ کہیں
ایسا نہ ہو کہ تاریخ ایک دفعہ پھر اپنے آپ کو دہرانے لگے ۔ PPP کو چاہیے کہ
ایسے حاسدوں کی باتوں پر کان نہ دھرے اور خاطر جمع رکھے ۔ میں وثوق سے کہتی
ہوں کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا ۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ اگر ایسا ہو جائے تو
کتنا مزہ آئے کہ ۔۔۔۔ ”خس کم ، جہاں پاک“ ۔ ۔۔۔۔ |