پاکستان تقریباً ڈھائی سال سے گیس کی کمی
کے مسائل سے دو چار ہے جس کی وجہ سے سردیوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ معمول بنتی
جارہی ہے۔ گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث صنعتیں اور سی این جی خاص طور پر متاثر
ہو رہے ہیں ۔ صوبہ پنجاب میں صنعتوں کو پانچ دن گیس کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی
ہے۔ گیس لوڈشیڈنگ کے باعث فیصل آباد میں 700 سے زائد صنعتی ادارے بند ہیں
جس کے نتیجے میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے تین لاکھ مزدور بیروزگار
ہوگئے ہیں،جن میں چالیس ہزار سے زائد خواتین مزدور بھی شامل ہیں۔ صنعتوں
میں گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث مینوفیکچرنگ سیکٹر کا ماہانہ خسارہ چالیس کروڑ
روپے تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ دوسری جانب سی این جی شعبے کی حالت بھی کوئی
اچھی نہیں ہے ، ملک بھر میں سوائے صوبہ خیبر پختونخواہ کے باقی تمام صوبوں
کے سی این جی اسٹیشنز کو ہفتے میں دو سے تین دن سی این جی کی فروخت بند
کرنی پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کے ہفتہ بھر سی این جی اسٹیشنز کے باہر گاڑیوں کی
لمبی قطاریں لگی رہتی ہیں۔ سردیوں کے اختتام کے ساتھ گھریلو صارفین کچھ حد
تک گیس کی لوڈشیڈنگ سے آزاد ہو گئے ہیں اور انہیں گیس کے مسائل کا سامنا
نہیں، گزشتہ دنوں گھریلو صارفین بھی گیس کی قلت سے تنگ تھے۔
مستقبل میں گیس کی لوڈشیڈنگ سے نجات حاصل کرنے کے لئے گیس کی کمی پورا ہونا
ضروری ہے۔ اس سلسلے میں آج کل متعدد منصوبوں پر غور کیا جارہا ہے۔ان میں سے
ایک منصوبہ پاک ایران گیس منصوبہ بھی ہے جس کے تحت پاکستان ایران سے یومیہ
دوکروڑ مکعب میٹر گیس درآمد کرے گا۔ منصوبے میں گیس کی ترسیل کے لیے دوہزار
سات سو پچھتر کلو میٹر طویل پائپ لائن بچھائی جائے گی جبکہ اس منصوبے پر
ساڑھے سات ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ پاک ایران گیس منصوبے کے تحت ایران گیس کو
بلوچستان کی سرحد تک پہنچائے گا جو کہ براستہ گوادر کراچی پہنچا کر مرکزی
ٹرانسمیشن نظام کا حصہ بنا دیا جائے گا۔
آج کل اس منصوبے میں تیزی سے پیش رفت ہوتی نظر آرہی ہے۔پاکستان کی جانب سے
پائپ لائن کی مشاورت کا کام جرمن کمپنی آئی ایل ایف کسنلٹنگ انجینئرنگ
کمپنی کو دے دیا گیا ہے۔ پاکستان کو روس اور ایران کی جانب سے پاک ایران
گیس پائپ لائن میں سرمایہ کاری کی پیشکش کی جاچکی ہے جبکہ ایران نے پاکستان
نے گیس پائپ لائن کی پاکستان میں تعمیر کے لئے 25 ارب روپے دینے پر رضامندی
بھی ظاہر کر دی ہے، جس پر غور کیا جارہا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کا کہنا ہے
کہ ایران سے رقم کا حصول نہ ہونے کی صورت میں پائپ لائن کے حوالے سے متعدد
متبادل اختیار کیئے جاسکتے ہیں۔
اس سے قبل حکومت ایران کی مسلسل پیشکشوں کے باوجود امریکی دباﺅ کے باعث
پاکستان کی جانب سے صرف زبانی باتیں کی جا رہی تھیں اور کوئی قابل بھروسہ
جواب نہیں دیا جارہا تھا مگر اب پاکستان نے پائپ لائن کے حوالے سے انتظامات
میں پیش رفت کی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان پاک ایران گیس پائپ
لائن منصوبے کو مکمل کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان حکمرانوں کا کہنا ہے کہ ملک کو
توانائی کے نئے ذرائع کی سخت ضرورت ہے، امریکی پابندیوں سے پہلے ملک کا
مفاد ہے اور ایران سے گیس کی درآمد ملک کے مفاد میں ہے۔
امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن پاکستان کو دبئے لفظوں میں دھمکی دے چکی ہیں
کہ اگر پائپ لائین کی تعمیر صرف ایران نے یا دونوں ملکوں (پاکستان اور
ایران) نے مل کر شروع کی تو اس سے امریکی قانون کی خلاف ورزی ہوگی جس کے
اثرات پاکستان اور ایران دونوں اٹھانے پڑ سکتے ہیں۔ ہلری کلنٹن کا کہنا ہے
کہ تعزیرات عائد ہوئیں، تو پاکستان کا خاص طور پر نقصان ہوگا، کیونکہ اس کی
معیشت پہلے ہی مشکلات میں گھِری ہوئی ہے۔ اس کے جواب میں پاکستانی وزیر
خارجہ حنا ربّانی کھر کا کہنا ہے کہ پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گیس
کہاں سے آ رہی ہے، پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ مکمل طور پر قابل عمل
ہے اور اس کی تکمیل کے لیے مالی وسائل کے حصول میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں۔
لاس انجلس ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے پاکستان اور ہندوستان کو پاک
ایران منصوبے کی جگہ ترکمانستان سے افغانستان کے راستے گیس درآمد کرنے کا
مشورہ دیا تھا لیکن پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان دس سال سے جنگ
کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور اس راستے سے پائپ لائن کی تعمیر نہایت مشکل
ہے تاہم بھارت نے امریکہ مشورے کو منظور کر لیا ہے۔
امریکی کی جانب سے ایران پر پابندیوں اور دباﺅ کے باعث حال ہی میں سویڈن نے
پاکستان ایران گیس منصوبے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس منصوبے کی
مخالفت کر دی ہے جبکہ ترکمانستان ' افغانستان ' بھارت' پاکستان گیس پائپ
لائن منصوبے کو بھی غیر قابل عمل قرار دے دیا ہے اور کہا ہے کہ پہلے ایران
کو اپنے جوہری پروگرام سے متعلق عالمی برادری کے خدشات کو دور کرنا ہوگا۔
اس سے قبل چین کے صنعتی و کمرشل بینک اور پاکستان کے حبیب بینک نے بھی پاک
ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے لیے فنڈز دینے سے انکار کردیا تھا۔ امریکا
نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے لیے مدد کرنے والی کمپنیز اور
پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ اگر منصوبے پر کام کیا گیا تو ان پر سخت
پابندیاں لگادی جائیں گی۔تاہم پاکستان عالمی دباﺅ میں آئے بغیر منصوبے کو
2014ء مکمل کرنے کا خواہاں ہے۔
ماہرین کے مطابق پاک ایران گیس پائپ لائن میں تیزی ایران کی جانب سے خاص
دلچسپی اور پیشکشوں کے باعث آئی ہے۔ ایران پاکستان کے توانائی بحران کو دور
کرنے کے لئے متعدد پیشکشیں کر چکا ہے۔ حال ہی میں ایران کی جانب سے صوبہ
بلوچستان کے لئے بجلی کی پیشکش کی گئی جسے پاکستان نے قبول کیا اور پاکستان
نے ایران سے 70 میگا واٹ بجلی کی درآمد کا آغازکر دیا۔اس سے قبل پاکستان
ایران سے صرف 35 میگاواٹ بجلی لیتا تھا۔ پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ
دسمبر 2014ء میں مکمل ہوگا۔ اس پائپ لائن کی لمبائی تقریباً 14 سو کلو
میٹرہو گی جس میں سے ساڑھے گیارہ سو کلو میٹر طویل پائپ لائن ایرانی علاقے
میں جبکہ باقی پاکستان میں ہوگی۔ منصوبے کے تحت ایران پاکستان کو 25 سال تک
یومیہ 75 کروڑ کیوبک فٹ گیس فراہم کرے گا۔ |