بدامنی سے متاثر کراچی کے ایک مخصوص علاقے میں آپریشن کیوں؟

کراچی میں ایک بار پھر امن و امان کی صورت حال بگڑتی جارہی ہے۔ ملک کا اقتصادی دارالحکومت بدامنی کی زد میں ہے، مگر ہمارے ارباب اختیار روایتی دعوؤں سے آگے کچھ کرتے دکھائی نہیں دے رہے۔ لانڈھی میں مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد کے قافلے پر حملہ کیا گیا جس میں وہ محفوظ رہے، تاہم ایک کارکن اور 2 سیکورٹی اہلکار زخمی ہوگئے۔ جب کہ ملیر بار کے سابق صدر صلاح الدین جعفری قاتلانہ حملے میں بیٹے سمیت جاں بحق ہوگئے، جس کے خلاف ملیر بار نے غیر معینہ جبکہ سندھ بار کونسل نے کل 26مارچ کو عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔

کراچی کے علاقے لیاری میں وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک کے احکام پر گزشتہ پانچ روز سے آپریشن جاری ہے۔ لیاری کے مختلف علاقے میدان جنگ بنے ہوئے ہیں، اس آپریشن کے خلاف کالعدم پیپلزامن کمیٹی اور علاقہ مکین سراپا احتجاج ہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ جھڑپیں معمول بن گئی ہیں۔ گزشتہ روز پولیس اہلکاروں پر پیٹرول بم سے حملے کیے گئے، نامعلوم افراد نے تین بکتر بندگاڑیوں کو آگ لگادی جب کہ پولیس اور حساس اداروں نے مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے 50 کے قریب مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔

لیاری میں جاری آپریشن کے باعث حالات کشیدہ ہوچکے ہیں، دکانیں اور بازار بند ہونے کے ساتھ ساتھ اشیائے خورونوش کی فراہمی بھی بند ہے، جس کی وجہ سے اشیائے خور و نوش کی قلت پیدا ہوگئی ہے جب کہ ہزاروں افراد اپنے گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔

واضح رہے کہ یہ آپریشن کراچی میں بڑھتی ہوئی بھتا خوری کے خلاف متحدہ قومی موومنٹ کے زبردست احتجاج اور اس کے مطالبے پر کیا جارہا ہے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی جمعرات کے روز اسلام آباد میں اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کراچی میں ہر قیمت پر بھتا خوری کے خاتمے اور جرائم میں ملوث افراد کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی ہدایات جاری کی ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر سینیٹر شاہی سید نے کہا ہے کہ ہم کراچی کے دل لیاری میں آپریشن کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لیاری میں جاری مسلسل آپریشن انتہائی شرم ناک ہے۔

شہر کراچی میں قتل و غارت اور بھتا گیری عروج پر ہے، جس کا معاشی نقصان پورے ملک کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 2011ءمیں امن و امان کی صورت حال مجموعی طور پر ملک بھر میں بہت خراب رہی۔ خاص طور پر کراچی کے حالات نہایت دگرگوں رہے۔ پچھلے سال تشدد کے واقعات میں کراچی کے ایک ہزار 715 شہری قتل کیے گئے، جب کہ 379 افراد فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ گئے۔

ان اعداد و شمار کی روشنی میں کہا جاسکتاہے کہ پورا کراچی بدامنی سے متاثر ہے، پھر ایک مخصوص علاقے میں ہی یک طرفہ آپریشن کیوں کیا جارہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت اتحادیوں کے ہاتھوں بلیک میل ہورہی ہے اور اپنی حکومت بچانے کے لیے وہ اپنے اثر و رسوخ والے علاقے پر بھی چڑھائی کرنے سے دریغ نہیں کررہی ۔ یہ افسوس ناک صورت حال ہے پیپلزپارٹی کا یہ رویہ خود اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ اس اقدام سے جیالے مایوس ہیں اور ان میں بددلی پھیل رہی ہے۔ صدر مملکت بلاامتیاز کارروائی کی ہدایات جاری کررہے ہیں دوسری جانب عملی اقدامات ان کے اس دعوے کی نفی کرتے نظر آرہے ہیں۔

چند ماہ قبل سپریم کورٹ نے کراچی میں بدامنی، ٹارگٹ کلنگ اور تشدد کے خاتمے کے لیے خصوصی احکام جاری کیے گئے، جس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کسی حد تک عمل بھی کیا جس پر کراچی کے شہری مطمئن دکھائی دے رہے تھے۔ اس وقت حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں بھتا خوروں اور ٹارگٹ کلرز کی فہرستیں بھی پیش کی گئیں لیکن قوم کو اب تک ان ناموں سے آگاہ نہیں کیا گیا اور جرائم میں ملوث افراد کے خلاف اب تک کیا کاروائی کی گئی اس حوالے سے بھی قوم کو اندھیرے میں رکھا گیا۔

سندھ حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں کراچی میں بدامنی کے واقعات کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال دیتی ہیں۔ ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ یہ سنگین نوعیت کے الزامات حقیقی ہیں یا نورا کشتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب بھی کراچی میں درجن بھر لاشیں گرتی ہیں، وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک کراچی دوڑے چلے آتے ہیں، اتحادی جماعتوں میں صلح و صفائی کا تاثر دیتے ہیں اور چند احکام جاری کرتے ہیں تو وقتی طور پر امن بحال ہوجاتا ہے۔ ملک صاحب ہر بار نیا شوشا چھوڑ کر کراچی کے باسیوں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں، کبھی وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ”اب اگر ٹارگٹ کلنگ کا ایک بھی واقعہ ہوا تو ان سے برا کوئی نہ ہوگا“ لیکن صورت حال آج بھی جوں کی توں ہے۔ ملک صاحب کے اس قسم کے مضحکہ خیز دعوؤں اور پینترا بدلنے کے باعث ان کی ساکھ تباہ ہوکر رہ گئی ہے مگر شاید اس سے بھی انہیں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔

بلند بانگ دعوؤں اور بیانات جاری کرنے سے شہریوں کے جان و مال کا تحفظ نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے حکومتی ذمہ داران اور عہدیداروں کو کراچی میں بڑھتے فسادات کا قلع قمع کرنے کے لیے اب سنجیدگی سے اقدامات کرنے ہوں گے ورنہ آئندہ انتخابات میں انہیں عوامی غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
Usman Hassan Zai
About the Author: Usman Hassan Zai Read More Articles by Usman Hassan Zai: 111 Articles with 86249 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.