ارباب غلام رحیم اسمبلی سے بے دخل، پیپلزپارٹی کی مفاہمت یاانتقام

پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے چار سال پورے کرکے پانچویں سال میں قدم رکھ دیا ہے۔ یہ مفاہمت کا ہی کمال ہے،مگر جاتے جاتے وہ بعض ایسے اقدام کررہی ہے جس کو انتقامی سیاست اور اداروں کے درمیان ٹکراﺅ کی سازش قرار دینا بے جا نہ ہوگا۔ وزیراعظم کی مسلسل عدالتی حکم عدولی، ان کے وکیل اعتزاز احسن کی جانب سے وزیراعظم کو توہین عدالت کیس میں سزا کی صورت میں، ججوں کے پتلے جلانے کی بات ہو یا پھر سندھ اسمبلی میں ارباب غلام رحیم کی نشست کو خالی قرار دینے کا عمل، یہ تمام صورت حال پیپلز پارٹی کے مفاہمت کے دعوﺅں، سیاسی سوچ اور جمہوری حکومت پر سوالیہ نشان ہے؟ اور صرف یہی نہیں بلکہ ہر جگہ تضاد ہے ۔ایک طرف پیپلز پارٹی سندھ میں لسانی بنیادوں پر صوبے کی بات کرنے والوں کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کرتی ہے تو دوسری طرف اس کا وزیراعظم اور وائس چیئرمین لسانی بنیادوں پر سرائیکی صوبہ کے لیے کوشاں ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر کراچی میں مہاجر صوبے کی آواز لسانی اور متعصبانہ ہے تو پھر لسانی بنیاد پر سرائیکی صوبے کے مطالبہ کی حمایت کیوں؟ یہ بات درست ہے کہ کسی بھی صوبے کی تقسیم اُس کے عوام کی مرضی ومنشا کے خلاف نہیں ہونی چاہیے، لیکن اس کا مقصد یہ بھی نہیں کہ جہاں ضرورت ہو وہاں انتظامی صوبے نہ بنائے جائیں ۔ اگر سندھ کے عوام صوبے کی تقسیم پر راضی نہیں ہیں تو کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں،لیکن یہی جذبہ پیپلزپارٹی کا دیگر صوبوں کے لیے بھی ہونا چاہیے اور اگر پنجاب یاخیبر پختونخواہ میں انتظامی صوبوں کی بات کی جائے تو کسی کو اعتراض بھی نہیں ہونا چاہیے۔سیاسی اور لسانی بنیاد پر سندھ کی تقسیم کی کوشش قابل مذمت ہے تو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی اس کو قابل مذمت ہونا چائے ۔عوامی نیشنل پارٹی کی ناراضگی کے خوف سے ہزارہ صوبہ کے مسئلے پر پیپلزپارٹی خاموش ہے۔ دراصل پیپلزپارٹی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ پر یقین رکھتی ہے اور یہی پوائنٹ اسکورنگ اب اس کے لیے مشکلات کا سبب بن رہی ہے۔ 2011ءکے رمضان سے قبل اس وقت کے وفاقی وزیر قانون بابر اعوان نے جب یہ اعلان کیا کہ عوام رمضان میں سرائیکی صوبے کی خوش خبری سنیں گے تو اسی وقت دانش مند افراد نے واضح کردیا تھا کہ لسانی بنیادوں پر صوبوں کی بات کی گئی تو یہ صرف پنجاب تک محدود نہیں رہے گی، اور ہوا بھی یہی سرائیکی کے بعد ہزارہ اور کراچی کی دیواروں پر مہاجر صوبے کے نعرے لکھے نظرآئے اور مظاہروں میں سنائی دیئے،جب کہ بلوچستان کی پختون پٹی میں بھی اسی طرح کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔

پیپلز پارٹی واقعی مفاہمت اور جمہوریت پر یقین رکھتی ہے تو کم از کم الیکشن کے سال میں وہ مفاہمت کو مفاہمت ہی رہنے دے ۔ مگر اس کے بعض اقدام دیکھے جائیں تو حقیقت میں ایسا نہیں ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اب پیپلز پارٹی کے نظریاتی اور جیالے کارکن بھی یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ” نظریہ اور جیالا پن بےنظیر بھٹو کی لاش کے ساتھ دفن ہوچکا، اب صرف نظریہ ضرورت رہ گیا ہے، جب تک آصف زرداری اور ان کے ساتھی موجود ہیں بھرپور فائدہ اٹھاﺅ، وقت آنے پر اپنا فیصلہ کرو“۔ 1997ءمیں پیپلز پارٹی کی بدترین شکست کی وجہ یہی نہیں تھی کہ پیپلز پارٹی کا ووٹ بنک ٹوٹ گیا تھا، بلکہ پیپلز پارٹی کے ووٹرز کی ناراضگی تھی جو پولنگ اسٹیشن تک نہ پہنچے، مگر قیادت سے ناراضگی کے باوجود نظریہ پر قائم رہے، لیکن آج صورت حال بالکل مختلف ہے۔ نظریاتی لوگ الگ ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔شاید اقتدار کے زعم میں صدر زرداری اور ان کے ساتھیوں کو اس کا احساس نہ ہو لیکن انتخابات کے وقت ضرور احساس ہوگا۔ دراصل گزشتہ چار سالوں میں صرف وعدے اور اعلانات ہی ہوئے عملی طور پر کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ مفاہمت کی سیاست کا فائدہ مخصوص افراد نے تو اٹھایا لیکن عوام کو کچھ نہ ملا۔ جس نے پیپلز پارٹی کی قیادت کے سامنے جھکنے سے انکار کیا، اگر وہ کمزور تھا تو انتقام کا نشانہ بنا اور مقابلے کا تھا تو الزام تراشی شروع کی گئی۔

اس کی واضح مثال حال ہی میں مسلم لیگ ہم خیال کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کی سندھ اسمبلی کی رکنیت کے خاتمے کا فیصلہ ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ارباب غلام رحیم 7 اپریل 2008ءسے تاحال اسمبلی سے غیر حاضر رہے اور 7 اپریل 2008ءحلف کے وقت ایوان میں ان پر پھینکے جانے والے جوتے نے ان کو خوف زدہ کیا اور وہ خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ ارباب غلام رحیم نے مسلم لیگ( ق) شجاعت گروپ کے حکومت کا حصہ بننے سے پہلے ہی ہم خیال گروپ میں شمولیت اختیار کی، پہلے صوبائی اور اب مرکزی صدر ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے ارباب رحیم کی نشست کا خاتمہ کرکے انتقامی کاروائی کی غلط بنیاد رکھی ہے۔ طویل عرصے تک کسی رکن کے غیر حاضر رہنے کا یہ پہلا موقع نہیں، اس سے پہلے اور آج بھی کئی مثالیں موجود ہیں۔ 2002ءکی اسمبلی کے دو ارکان جن میں ایک پیپلز پارٹی کے رہنما اور سندھ کے موجودہ سینئر وزیر پیر مظہر الحق کی بیٹی ماروی مظہر اور دوسری ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کی بیوی تھیں، تقریباً چار سال تک ایوان سے غیر حاضر رہیں۔ اور ان کی چھٹی کی درخواستیں مسلسل منظور ہوتی رہیں۔ موجودہ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی رقیہ خانم سومرو گزشتہ چار سال سے شدید علالت کی وجہ سے ایوان میں نہیں آسکیں، جب کہ پیپلز پارٹی کے اقلیتی رکن لعل چند ایک طویل عرصے تک بیرون ملک رہنے کے بعد، حالیہ سینیٹ الیکشن کے دوران وطن واپس آئے ۔ ارباب غلام کی چھٹی کی درخواستیں بھی جولائی 2011ءتک مسلسل منظور ہوتی رہیں اور پیپلز پارٹی نے ان چھٹی کی درخواستوں کی بنیاد پر، کئی مرحلوں میں فائدہ اٹھایا۔

اس بار بھی کوشش کی گئی، لیکن سینیٹ کے انتخاب میں مسلم لیگ ہم خیال نے صوبے میں اپنے امیدوار کو دست بردار نہ کرانے کا اعلان کر کے پیپلز پارٹی کو سندھ میں سینیٹ کے انتخاب کرانے پر مجبور کردیا۔ ورنہ پیپلز پارٹی کا یہ خیال تھا کہ ارباب غلام رحیم کی چھٹی کی درخواست اور ان کو صوبے میں قائد حزب اختلاف بنانے کے بدلے مسلم لیگ ہم خیال کے سینیٹ کے تمام امیدواروں کو دست بردار کرواکر صوبے میں بلا مقابلہ سینیٹ کا انتخاب کرایاجائے۔ لیکن ارباب غلام رحیم کے ساتھیوں نے اس کو تسلیم نہ کرتے ہوئے مفاہمت کی بنیاد پر سینیٹ کی ایک جنرل نشست کا مطالبہ کیا، جس کو پیپلز پارٹی نے گستاخی تصور کیا اور ارباب غلام رحیم کو قائد حزب اختلاف بنانے کی بجائے ایوان سے ہی باہر کردیا۔ سینیٹ الیکشن سے قبل ارباب غلام رحیم کی سندھ اسمبلی میں پیش ہونے والی چھٹی کی درخواستوں کو مسترد یا منظور کرنے کی بجائے التوا میں رکھا اور سینیٹ الیکشن کے بعد تین مرتبہ ان کی چھٹی کی درخواست مسترد کردی گئی۔ اور 21 مارچ2012ءکوارباب غلام رحیم کی غیر حاضری کے 40 دن مکمل ہونے کے بعد 22 مارچ2012ءکو پیپلز پار ٹی کے وزیر بلدیات آغا سراج درانی نے ایوان میں ارباب غلام رحیم کی سندھ اسمبلی کی نشست خالی کرنے کی تحریک پیش کی جو متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔ اگرچہ مسلم لیگ ہم خیال کے دوارکان نے احتجاج کیا، لیکن ووٹنگ کے عمل کے دوران وہ بائیکاٹ کرکے جاچکے تھے۔

ارباب غلام رحیم کو ایوان سے باہر رکھنے کے لیے پیپلز پارٹی 2008ءسے کوشاں تھی۔ کیوں کہ سندھ میں مضبوط سیاست دانوں میں ارباب غلام رحیم کا شمار بھی ہوتا ہے اور مستقبل قریب میں ارباب غلام رحیم کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد یا انضمام کرکے پیپلز پارٹی کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں۔ 2008ءکے عام انتخابات میں ارباب غلام رحیم کے حامیوں نے قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی چار نشستوں پر کامیابی حاصل ،لیکن ایک نشست اس وقت چلی گئی جب ان کے بھائی حاجی ارباب عبداللہ ایک ٹریفک حادثے کے دوران حلف برداری سے قبل ہی انتقال کرگئے۔ ضمنی انتخاب میں اُس نشست پر پیپلز پارٹی کے امیدوار شرجیل انعام میمن بلا مقابلہ کامیاب ہوئے۔ اس ضمن میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے اس وقت کے راہنما مخدوم شاہ محمود قریشی اور پیپلز پارٹی کے مخدوم امین فہیم نے ارباب غلام رحیم کومقابلے میں امیدوار نہ لانے پر تعاون کی یقین دہانیاں کرائی تھیں، اور یہی وجہ ہے کہ ارباب غلام رحیم ضمنی انتخاب میں اپنا امیدوار نہیں لائے۔ لہٰذا ارباب غلام رحیم اپنی نشست چار سال تک بچانے میں کامیاب رہے۔ کبھی 2009ءکے سینیٹ انتخاب، کبھی صدارت کے لیے ووٹ، کبھی صدر پر اعتماد کی قرارداد پر ووٹ اور کبھی کسی اور بنیاد پر نصف درجن سے زائد اُن کی چھٹی کی درخواستیں منظور کرلی گئیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے حالیہ سخت رویہ کی وجہ ارباب غلام رحیم اور مسلم لیگ( ن) کے درمیان بڑھتے ہوئے رابطے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ارباب غلام رحیم اور ان کے ساتھیوں کی ن لیگ سے کسی حد تک بات مکمل ہوچکی ہے، اب صرف اعلان باقی ہے اورجلد سندھ میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں ایک مضبوط گروپ سامنے آنے والا ہے ،جس میں ارباب غلام رحیم کے علاوہ ممتاز بھٹو، لیاقت جتوئی اور بعض دیگر باثرسیاست دان شامل ہوں گے ۔ اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ارباب غلام رحیم جیسے بااثر سیاست دان کو اسمبلی سے باہر کر کے پیپلز پارٹی نے بظاہر ایک جزوی کامیابی حاصل کرلی، لیکن عملی طور پر پیپلز پارٹی کو اس کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر ارباب غلام رحیم کی سیٹ کو غیر حاضری کی بنیاد پر ہی خالی کرنا تھا تو روز اول سے ہی ایساکیا جاتا اور اب لوگ اسے انتقامی کارروائی قرار دے رہے ہیں۔

ارباب غلام رحیم کے ساتھیوں نے ابتدائی طور پر انہیں تحریک انصاف میں لے جانے کی کوشش کی، لیکن سونامی کی تباہ کاریوں اور اس کے زوال،پارٹی میں اندرونی اختلافات اور عمران خان کے غیر مناسب ،آمرانہ اور جاہلانہ رویے کی وجہ سے اب ارباب غلام رحیم اور ان کے ساتھیوں کی رائے تبدیل ہوچکی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جو شاہ محمود قریشی سندھ میں کئی بااثر افراد کو تحریک انصاف میں شامل کرانے کے لیے سرگرم تھے اب وہ خود ڈانواں ڈول دکھائی دیتے ہیں اور اُن کے حوالے سے بھی متعدد خبریں زیر گردش ہیں۔ تاہم پیپلز پارٹی نے ارباب غلام رحیم کی نشست چھین کر انہیں اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے سامنے کھل کر آجائیں اور اب انہیں آنا بھی پڑے گا۔ ہم خیال گروپ کے کچھ راہنماﺅں نے ارباب غلام رحیم کو مشورہ بھی دیا تھا کہ وہ 21 اور 22 مارچ 2012ءکے اسمبلی اجلاس میں شرکت کرکے پیپلز پارٹی کی حکمت عملی کو ناکام بنائیں، مگر وہ ایسا نہ کرسکے شاید انہیں گرفتاری کا خوف تھا، لیکن سیاست میں جیل اور موت سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ سیاست میں یہ دونوں چیزیں لازم وملزوم ہیں۔ ارباب غلام رحیم کو مجبوراً اب وطن واپس آکر حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا اور یہی ان کے حق میں بہتر ہے۔ ماضی میں انہوں نے جو غلطیاں کی ہیں اس کا تدارک بھی کریں، ورنہ سیاست سے الگ ہو کر اپنا سارا وقت تبلیغ کے لیے ہی وقف کردیں۔ ہم خیال گروپ کے کچھ راہنماﺅں نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ ن لیگ کے ساتھ ہونے والی مفاہمت میں ہم خیال کے ایک سابق سینیٹر، ارباب رحیم کے راستے کی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اور یہ وہی سینیٹر ہے جس نے سینیٹ کے انتخاب میں ووٹروں کے انکار کے باوجود الیکشن لڑنے پر اصرار کیا اور پھر ارباب غلام رحیم کو ان کی نشست سے محروم کراکر دم لیا۔ ہم خیال گروپ کے کچھ راہنماﺅں کا یہ الزام بھی ہے کہ یہ سابق سینیٹر ارباب رحیم کے مخالف ”شیخ “سے ملے ہوئے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے جس انتقامی سیاست کی بنیاد رکھی اسے اس سے کیا فائدہ ملتا ہے؟ ویسے سندھ کی تاریخ میں دو ارکان کی نشستیں غیر حاضری کی بنیاد پر ختم کی گئیں اور یہ دونوں کارنامے پیپلز پارٹی نے انجام دیے۔ 90ءکی دہائی میں سابق وزیراعلیٰ سندھ سید عبداللہ شاہ کے دور میں موجودہ صوبائی وزیر اور مسلم لیگ( ف) کے راہنما جام مدد علی کی نشست، اسی طرح غیر حاضری کو بنیاد بنا کر ختم کردی گئی تھی۔ اگر غیر حاضری غلط عمل ہے تو اس کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے انتقامی کارروائی نہیں۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 106731 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.