ابن صفی، نشہ اور سانپ

پاکستان میں سِرّی ادب کے بانی ابن صفی کی صلاحیتوں پر کسی کو کیا شک ہوسکتا ہے؟ مرحوم نے عمران جیسا لازوال کردار دیا۔ اُن کے تحریر کردہ جاسوسی ناول پڑھنے والے کسی اور ہی دنیا کے مکین ہو جاتے تھے۔ ابن صفی مرحوم اِس قدر ڈوب کر ناول تحریر کرتے تھے کہ ہر منظر تمام جزئیات کے ساتھ ہماری آنکھوں کے سامنے آ جاتا تھا اور ہم کسی اور دنیا میں سُکونت اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ مگر گزشتہ دنوں ایک خبر ایسی پڑھی کہ ابن صفی مرحوم کی ساری محنت زائد از ضرورت، بلکہ غیر ضروری سی محسوس ہوئی۔

بھارت چونکہ ہماراہمسایا ہے اِس لیے سوچا جاسکتا ہے کہ وہاں بھی طرح طرح کے نشے مقبول ہوں گے۔ اور ہوں گے کیا، مقبول ہیں۔ بھارتی شہر حیدر آباد (دکن) کے لوگ ”کَھٹّے“ کے نشے میں چُور رہنے کے حوالے سے خاص شہرت رکھتے ہیں مگر آج کل حیدر آباد دکن میں ایک اور نشہ تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ نئی نسل پیسے دیکر خود کو سانپ سے ڈسوا رہی ہے! آپ سوچیں گے کہ مارکیٹ میں یہ کیسا نشہ آیا ہے اور ابن صفی مرحوم کا ذکر کہاں سے آگیا۔ بات کچھ یوں ہے کہ جواں سال لڑکیاں اور لڑکے سو سوا سو روپے دیکر اپنی زبان کو سانپ سے ڈسواتے ہیں۔ ایسا کرنے کا فائدہ؟ زبان کو سانپ سے ڈسوانے والے تین دن تک ایک الگ ہی دنیا میں سُکونت اختیار کرلیتے ہیں۔ اِن تین دنوں میں وہ خود کو جیمز بونڈ سمجھتے رہتے ہیں! یہ خبر پڑھ کر ہمیں خیال آیا کہ ابن صفی مرحوم رات دن ایک کرکے، دماغ کی ساری توانائی نچوڑ کر کہانیاں ترتیب دیتے اور ناول لکھتے تھے تو قارئین اُنہیں پڑھ کر خود کو علی عمران، جیمز بونڈ، شرلاک ہومز اور پتہ نہیں کیا کیا سمجھتے تھے۔ اِتنی مغز پاشی کرنے کے بجائے اگر ابن صفی مرحوم دو چار زہریلے سانپ پال لیتے تو شوقینوں کو زبان پر ڈسواکر تین چار دن کے لیے جیمز بونڈ، شرلاک ہومز اور علی عمران بننے میں خاطر خواہ مدد دے سکتے تھے! اور یوں خود کو صفِ اول کا یا بہترین سیکریٹ ایجنٹ سمجھنے کے شوقین خیالوں کی دنیا میں گھر بنانے کے لیے ناول پڑھنے کے محتاج نہ ہوتے! ممکن تھا کہ اِس صورت میں ابن صفی زیادہ کماتے!

اللہ نے ہر خطے کو چند خصوصیات بخشی ہیں۔ جاپانیوں پر صرف محنت کی نعمت اُتاری گئی ہے۔ مغرب کو بھرپور ترقی اور اُس سے بھی بھرپور بے حیائی اور مادر پدر آزادی اُتارنے کے لیے منتخب کیا گیا۔ ہمارا خطہ شاید طرح طرح کے نشے اور شوق اُتارنے کے لیے منتخب کیا گیا ہے! کوئی بازو میں سُوئی ٹھونس کر مخمور ہوتا ہے تو کوئی زبان کو سانپ سے ڈسواتا ہے! نشوں کی کوئی قید بھی نہیں اور کمی بھی نہیں۔ جہان بھر کی ورائٹی ملتی ہے۔ بولو جی، تم کیا کیا خریدو گئے!

جیب میں مال زیادہ دیر رہے تو تکلیف دیتا ہے۔ یعنی تنخواہ ایک ڈیڑھ ہفتے میں اُڑا دینا بھی ایک نشہ ہے! اور اِس سے بڑا نشہ ہے مہینے کے باقی دِنوں کی گاڑی کو اُدھار کے پہیوں پر چلانا!

قوم میں ایسے افراد اب خال خال ہیں جو بولنے کے نشے میں چُور نہ رہتے ہوں اور اُس سے بھی ایک قدم آگے جاکر شروع ہوتا ہے نہ بولنے سے گریز کا نشہ!

موسیقی کے نام پر، بلکہ موسیقی کی آڑ میں شور سے ”محظوظ“ ہونا بھی اب ایک مقبول نشہ ہے! بعض اشیاءکی تیاری شور کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ جہاں سنگِ مرمر کاٹا جارہا ہو وہاں کان کے پردے پھاڑ دینے والا شور ہوتا ہے مگر صاحب! بعض منچلے پتھر کاٹنے والی مشین چلاتے ہوئے بھی گانے سُنتے پائے گئے ہیں! یہ لوگ وہ ہیں جو اچھے خاصے نغمے کو جھنکار کی قبر میں دفن کرنے کا نشہ بھی کرتے ہیں!

کام پر جاتے وقت کوچ کے پہلے پائیدان پر لٹک کر جانے کا بھی عجب ہی نشہ ہے۔ یہی نشہ جب تیز ہوتا ہے تو بندہ کوچ یا ویگن کی چھت پر جا بیٹھتا ہے! چلتی گاڑی کی چھت پر بیٹھ کر کھلی فضاءسے لطف اُٹھانا ایک ایسا نشہ ہے کہ چڑھ جائے تو اُترنا بھول جاتا ہے اور پھر بندہ بس سے اُترنے کا نام نہیں لیتا!

شادی کی تقریب میں کھانا کُھلتے ہی پہلے ہَلّے میں پلیٹ کو پوری گنجائش کے ساتھ بھر کر بوٹیوں کا ہمالیہ تشکیل دینا بھی ایک نِرالا نشہ ہے!

اہل وطن نشوں کی تلاش میں اِتنے آگے نکل گئے ہیں کہ بہتوں کو گھسیٹ کر واپس لانا پڑتا ہے۔ ایک دن ہم گھر میں لکڑی کی چند اشیاءجوڑنے بیٹھے تو یاد آیا کہ لکڑی کو اچھی طرح جوڑنے والا گلو یعنی صمد بونڈ تو ہے ہی نہیں۔ ہم ہارڈ ویئر کی دُکان پر پہنچے اور صمد بونڈ طلب کیا۔ دُکاندار نے ہمیں سر سے پیر تک دیکھا اور بے یقینی سے بھرے لہجے میں پوچھا ”خیریت تو ہے؟ آپ یہ نشہ کب سے کرنے لگے؟“

ہم اُس کا سوال سُن کر سٹپٹا گئے مگر پھر سنبھل کر وضاحت کی کہ گھر کا فرنیچر ٹوٹ جائے تو اُسے جوڑنا کوئی نشہ نہیں، وقت کو بہتر انداز سے صرف کرنے کا ایک آزمودہ طریقہ ہے! دُکاندار نے بتایا کہ اب نوجوان صمد بونڈ کو کپڑے میں لگاکر سونگھنے کا نشہ بھی کرنے لگے ہیں!

شراب یقیناً اِنسان کو نشے میں غرق اور بدمست کردیتی ہے لیکن اگر غور کیجیے تو شراب میں اُتنا نشہ نہیں جتنا شراب پینے کے بعد لوگوں کو یہ بتانے میں ہے کہ ”او بھائی صاحب! ذرا بچ کے، میں نشے میں ہوں!“

خواتین ہی بتاسکتی ہیں کہ زیور پہننے میں کیا سُرور ہے اور وہی یہ بھی بتاسکتی ہیں کہ زیادہ سُرور تو پہنے ہوئے زیور کو دِکھانے میں ہے!

نام نہاد جمہوریت نے بھی ہمیں کئی نشے دیئے ہیں۔ جلسوں میں شرکت اور ”بے فضول“ کے نعرے لگانا بھی ایک وکھری ٹائپ کا نشہ ہے! اہل سیاست نے اب ایک نیا نشہ متعارف کرایا ہے اور وہ ہے پولنگ اسٹیشن کی زیارت کئے بغیر ووٹ ڈالنے نشہ! سِتم ظریف سیاست ہی نے خود کو ہر وقت صدر یا وزیر اعظم کی کُرسی پر جلوہ افروز دیکھنے کا نشہ بھی متعارف کرایا ہے! یہ کم بخت وہ نشہ ہے جس نے اچھے اچھوں کے کئی دوسرے آلتو فالتو نشے ہرن کردیئے ہیں!

دنیائے علم کی طرف آئیے تو کچھ عجب ہی بہاریں دکھائی دے رہی ہیں۔ ابن صفی مرحوم اور اُن کے قبیل کے دوسرے مصنفین کو مطالعہ کرنے اور اُس کی بنیاد پر سوچ سمجھ کر لکھنے کا نشہ تھا۔ یہ خاصا محنت طلب اور دماغ پھاڑ قسم کا نشہ تھا۔ اب خیر سے کچھ بھی پڑھے، سوچے اور سمجھے بغیر لکھنے کا نشہ لکھاریوں کے دل و دماغ پر سوار ہوگیا ہے! اِس منفرد نشے نے فکر و فن کی دنیا کے نئے پہلو بے نقاب کئے ہیں۔ سوچے بغیر لکھنے کا نشہ دراصل دن کی روشنی میں جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے کے نشے کی بائی پروڈکٹ ہے! وہ زمانہ ماضی کی گرد میں گم ہوچکا ہے جب ہماری جاگتی آنکھوں پر خوابوں کا نشہ سوار رہا کرتا تھا۔ اب تو خوابوں کو ہماری آنکھوں کا نشہ ہوگیا ہے!

فلم میکرز خواہ مخواہ اِتنی محنت کرتے ہیں۔ حیدر آباد دکن کے نوجوانوں سے کچھ سیکھیں، چند سانپ پالیں جن کا زہر مختلف شخصیات کے خبط میں مُبتلا کرنے کی صِفت رکھتا ہوں۔ مثلاً کسی فلم میں دلیپ صاحب والی اداکاری مطلوب ہو تو ہیرو کو ایسے سانپ سے ڈسوائیے جس کا زہر خود کو دلیپ کمار سمجھنے کے خبط میں مُبتلا کرتا ہو! بس، پھر کیا؟ تین دن تک جی بھر کے دلیپ صاحب کے معیار کی اداکاری کروائیے! اگر ڈائریکٹر چاہتا ہو کہ اداکار خود کو امیتابھ بچن سمجھنے کے خبط میں مبتلا ہو تو اُسے خاصے ”لمبو گلی کا دادا“ قسم کے زہریلے کوبرا کا بندوبست کرنا پڑے گا! اور اگر کوئی خود کو بیک وقت دلیپ کمار، راج کپور اور امیتابھ سمجھنے کے خبط میں مبتلا دیکھنا چاہتا ہو تو ذرا معیاری زہر والے سانپ کا نام شاہ رخ خان رکھے اور خود کو اُس سے ڈسوالے!

ویسے یہ بات ماننا پڑے گی کہ بیشتر پاکستانی اب خود کو کچھ بھی سمجھنے کے لیے سانپ سے ڈسے جانے
کے محتاج نہیں رہے! سر دست سوال یہ ہے کہ جو سانپ ہماری زبان کو ڈسے گا وہ خود کو تین چار دن کیا سمجھے گا! پاکستانی قوم جو الا بلا کھاتی ہے اُسے دیکھتے ہوئے پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی سانپ ہمیں ڈسنے کے بعد ڈسنے کے قابل ہرگز نہیں رہے گا!

غریبوں کا ایک نشہ ایسا ہے جو اگر چھوٹ جائے تو سو غموں سے اُن کی جان چھوٹ جائے۔ یہ ہے روٹی کا نشہ! اے کاش! کوئی سانپ ایسا بھی ہو جس کے ڈسنے سے روٹی کا نشہ اُترے اور بے چارے غریبوں کو روزانہ تین وقت پیٹ بھرنے کی مشقت سے نجات ملے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524699 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More