موبائل فون کے فوائد اور نقصانات

سائنس کی ترقی کی بدولت انسان چاند سے آگے جانے کی سوچ رہا ہے اور کہتے ہیں کہ اس صدی کے آخر تک سائنس اتنی ترقی کر جائیگی کہ بیماری لیس انسان پیدا ہونے ممکن ہو جائیں گے۔ اس ترقی کی وجہ سے ایجاد ہو ئی کچھ دیگر خرافات کی طرح ایک ایجاد موبائل فون بھی ہے جسے کہ گوروں نے اسلیے ایجاد کیا تھا کہ انکی گوری میم اگر کبھی غلطی سے کسی دوسرے کے ساتھ ادھر ادھر کھانے پینے چلی جائے تو اسکی ویئر اباﺅٹ یعنی اسکی صحیح جگہ پتہ چلائی جاسکے اور اس سے رابطے میں رہا جاسکے۔ تا ہم ہر چیز کے غلط استعمال کے ریکارڈ قائم کر نے والی پاکستانی قو م نے موجودہ موبائل فون کا بھی وہ حشر کیا ہے کہ اس کا ایجاد کردہ قبر میں بھی بے چین ہوتا ہوگا کہ یہ میں نے کیا بنا دیا؟ ۔ اب موبائل فون کا حال یہ ہے کہ گدھا گاڑی والا ایک ہاتھ سے کھوتا چلا رہا ہوتا ہے اور دوسرے میں موبائل پکڑے اپنی جورو؟؟۔ سے باتیں کر رہا ہو تا ہے اور تو اور دودھ پیتا بچہ بھی موبائل فون کی رنگ ٹون سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے!۔

موبائل فون در اصل اس لیے ایجاد ہوا تھا کہ ایمرجنسی میں کسی بھی شخص سے کہیں بھی رابطے میں رہا جاسکے۔ تا ہم ہم پاکستانیوں نے اسے اب چوبیس گھنٹے کی ایمر جنسی بنا دیا ہے اور ہر وقت اسے فرشتے کی طرح ساتھ لیے گھومتے ہیں۔ اب یہ موبائل فون سات ماہ سے لیکر ستر سال کے ہر مر د عورت اور تیسری جنس کی اتنی شدید ضرورت بن گئی ہے کہ اسکے بغیر انسان لیٹرین میں بھی نہیں جاسکتا۔ پہلے پہل فکس فون ہوتا تھا بونڈی کرنے والا بھی شرم کرتا تھا اور تمیز کے دائرے میں رہ کر اپنی ؟؟ سے ادھر ادھر بات کر تا تھا۔ یا پھر جان بوجھ کر کبھی کبھی رانگ نمبر ملا کر لوگ ادھر ادھر چھیڑ خانی کر لیا کرتے تھے۔ یا پھر اکثر ایک فون میں کئی کئی لوگ وائر لیس کی طرح آن لائن ہو جاتے تھے اور وہیں گپ شپ ہو جاتی تھی۔ پہلے زمانے میں سی ایل آئی کی سہولت نہیں تھی لہذا پکڑے جانے کا بھی ڈر نہیں ہو تا تھا۔ کچھ عرصہ بعدکارڈلیس فون آیا تو عاشقوں کو کچھ آسانی ہوئی کہ گھر یا گلی کے کونوں کھدروں میں مچھر کی طرح چھپ کر گپ شپ کر لیا کرتے تھے۔ پھر ایک اور کارڈلیس آیا جسکی رینج ہی چالیس میل تھی، لوگوں کو اور آسانی ہوئی۔ تاہم موجودہ اٹھنی برابر موبائل فون نے تو ان بیچاروں کی تمام مشکلا ت ہی آسان کر دیں۔ اب یہ بیچارے بھائی لوگ، بیچارے اس لیے کہ انہیں کھانے پینے اور پہننے کا بھی ہوش نہیں ہوتا۔ آدھی شرٹ اندر، آدھی باہر، بال بکھرے سے کہ نیا اسٹائل ہے، بازو میں گانے کی طرح کا ایک دھاگہ، گاڑیوں کی نمبر پلیٹ کی طرح کی بیلٹ، نوکدار جوتے، ہر وقت کانوں میں موبائل فون کی ٹونٹیاں لگائے گفت و شنید میں مصروف پائے جاتے ہیں یا ٹھکا ٹھک میسجنگ ہو رہی ہوتی ہے۔چھوٹا سا آلہ ہے رات کو لیکر بستر میں گھس جاﺅ، رات بھر چیٹ شیٹ یا پھر بات شات۔ اس فون کا لوڈ لینے میں اب اتنی آسانی ہو چلی ہے کہ اب چاہے پرچون والا ہو، دودھ والا ہو، پان والا ہو، کپڑے والا ہو، کتابوں والا ہو، فوٹو کاپی والا ہو، سبزی والا ہو، جوس والا ہو، پارلر والی ہو چاہے نائی ہو ہر کسی نے باہر ایک چھوٹا سا کھو کھا ایزی لوڈ اور موبائل کا ضرور رکھا ہوا ہوتا ہے تاکہ کسی بھی راہ چلتے کو لوڈ ہونے میں پریشانی نہ ہو۔

اگر ہم اسکے فوائد اور نقصانات کی بات کریں تو ایک کتا ب بن جائے۔ تاہم مختصراپہلے اسکے فوائد جاننے کی کوشش کر تے ہیں۔ موبائل فون نے لوگوں کو ایک دوسرے کی شہ رگ کی طرح قریب کر دیا ہے۔ عاشقوں کے لیے آسانی ہو چلی ہے۔ نقل کر نے میں آسانی، لڑکی ڈھونڈنے میں آسانی، پولیس بلانے میں آسانی ۔گدھا گاڑی والے کو بلانا ھو، رکشے ٹیکسی والے کو بلانا ہو، گٹر کھلوانے کے لیے جمعدار بلوانا ہو، گوشت سبزی منگانی ہو، لڑکی پٹانی ہو، آٹا پسوانا ہو، بکر ے کا گھا س منگوانا ہو، دودھ دہی، حتی کہ ماچس تک بھی فون پر منگائی جاسکتی ہے۔ ہمارے ایک جاننے والے جنہیں لیٹرین میں سگریٹ پینے کی عادت ہے کہ اسکے بغیر فراغت نہیں ہوتی۔ ایک روز اتفاق سے انکی سگریٹ لیٹرین میں بجھ گئی، گھر میں دوسری ماچس بھی نہ تھی، بڑے پریشان ہوئے۔ پھر فوراہی سائڈ پاکٹ سے موبائل فون نکالا اور بلڈنگ کے نیچے پرچون والے کو ماچس کا آرڈر دے کر ہوم ڈیلیوری ماچس گھر منگالی۔ دوبارہ سگریٹ سلگائی اور اپنا کام مکمل کر لیا۔ آجکل کے بچے بھی بڑے وہ ہیں؟؟ جس بچے کو بہلانا ہو موبائل میں گیم یا رنگ ٹون لگا کر ہاتھ میں تھما دیں بچہ خوش، میاں بیوی بھی خوش خوش اپنا کام کیے جائیں؟ اسکے علاوہ دور دراز کے عزیز و اقارب بھی فون پر بھگت جاتے ہیں اور جانے کا خرچہ بچ جاتا ہے۔

اگر ہم نقصانات کی بات کریں تو: آجکل چھوٹے چھوٹے بچے بھی اس لت میں پڑ کر بر باد ہو رہے ہیں۔ اغیار نے ہمیں پہلے نشے پر لگایا، پھر اسلحہ اور فحش فلمیں آئیں اور اب موبائل فون۔ کسی کی ضرورت ہو نہ ہو، رکھنا ضرور ہے۔فضول کا خرچ میں اضافہ ہے۔ہماری مرحومہ نانی ہمیں سگریٹ پھوکتے دیکھ کر کہتی تھی کہ : جتنے کی تم سگریٹ جلاتے ہو اتنے کا دودھ پی لیا کرو۔ ہم کہتے تھے کہ اماں جی کیا دودھ میں سگریٹ کا مزہ ہے؟؟اسی طرح اگر کسی کو کہو کہ موبائل پر خرچ کرنے سے بہتر ہے کہ تم ان روپوں کے سیب کھا لیا کرو تاکہ تم سنگل پسلی سے کچھ جان پکڑ لو ۔ تو آگے سے جواب ملتا ہے کہ کیا سیب میں موبائل والی لڑکی کامزہ ہے ؟ا ب حال یہ ہے کہ ایک گھر کا اتنا کھانے پینے کا خرچہ نہیں جتنا کہ اس موبائل فون کا ہے۔ ایک گھر میں اگر چھ آدمی ہیں تو چھ موبائل ، ہر بندہ پچاس روپے کا بیلنس روز خرچ کرے تو بن گئے تین سو روپے۔ اگر پچاس روپے کے ڈھائی کلو آلو پکائے جائیں تو پورا گھر تین ٹائم روٹی کھائے، کیا خیال ہے آپکا؟؟اسکے علاوہ چارچنگ کے لیے بجلی علیحدہ خرچ ہوتی ہے۔ مزید نقصان کی بات کریں تو کئی بے چارے فون پر لڑکی پھانسنے کے چکر میں ایسے گھن چکر ہوئے کہ جان سے ہی چلے گئے۔ ہمارے ایک واقف کار تو فون پر کان لگانے کے اتنے عادی ہوچلے کہ بات کرنی ہو چاہے نہ، فون انکے کان سے سوتے جاگتے ہمیشہ ہی لگا رہتا ہے۔ اسکول کالج کے طلبا ءکا یہ حال ہے کہ اسکول کالج جائیں یا آئیں فون انکے کان سے ہر وقت لگا ہے ۔ کبھی کسی سے گپ شپ کے لیے تو کبھی گانے وانے سننے کے لیے جسکی وجہ سے انکی پڑھائی کا بہت حرج ہوتا ہے۔ا ب تو بیگم بھی پھول یا گجرے کے بجائے میاں سے لوڈ کی فرما ئش ہی کر تی پائی جاتی ہے ، یا پھر چھوٹے منے کو پرچی پر نمبر لکھ کر پرچون والے کو بھجوادیا جاتا ہے کہ جی لوڈ کر دیں۔ اب یہ روز مرہ کے سودا سلف کی طرح ضروری آئیٹم ہو گیا ہے جس سے گھر کے خرچ میں غیر ضروری ا ضافہ اور میاں بیوی میں پھڈا۔ اب آپکو کسی سے دوستی کرنی ہو، لڑائی کر نی ہو، چھیڑ چھاڑ کر نی ہو تمام کام کے لیے یہ موبائل ہی کام آتا ہے۔ رہی سہی کسر روز مرہ کے آنے والے پر کشش پیکچز نے پوری کر دی ہے کہ تین روپے میں پورا گھنٹہ یا پوری رات لمبی بات، رضائی میں سر دیوں کی رات ، نہ دیکھی ذات پات بس لگے ہیں ٹائم ضائع کرنے میں۔ آجکل خواتین کے لیے بھی سپیشل پیکجز شروع کیے گئے ہیں ، یعنی سوپ ڈراموں کی طرح سوپ پیکج۔ ان کے لیے آسانی یوں ہے کہ کپڑوں ، چوڑیوں ، زیورات سے لیکر کھانے کی تر کیبوں اور سٹار پلس کے ڈراموں پربھی سیر حاصل گفتگو صرف دو روپے میں ہو جاتی ہے۔ تاہم گھر کے دیگر کام میں حرج ضرور ہو رہا ہوتا ہے ، نتیجہ گھر میں پھڈا ۔ اسکے علاوہ بہت سی لڑکیاں اس فون کے چکر میں اجنبی لوگوں کے ہتھے چڑھ کر کہیں کی نہ رہیں اور لڑکے ایسے گھن چکر ہوئے کہ انہیں اور کوئی شغل ہی نہیں سوجھتا، سوائے موبائل کے ۔ تو دیکھیے ہیں کتنے نقصانات۔

ایک خبر کے مطابق اسوقت وطنِ عزیز میں بارہ کروڑ کے لگ بھگ موبائل فون استعمال ہورہے ہیں۔ اگر ایک بندہ دس منٹ روزانہ بات کرنے کی ایوریج بھی لگاﺅ تو ایک ارب بیس کروڑ منٹ روز ہوا میں اڑاکر تقریبا ایک ارب روپے ہی روز اس فضول خرچی میں ضائع کیے جارہے ہیں۔ اسی طرح ایک سروے کے مطابق ہم پاکیستانی ایشیا میں میسج بھیجنے میں پہلے نمبر پر پائے گئے ہیں، چلو شکر کہ کہیں تو پہلا نمبر ملا۔ حال ہی میں پڑوسی ملک ہندوستان میں کیے گئے سروے کے مطابق وہاں لیٹرینیں کم اور موبائل زیادہ ہیں۔کیسا؟ ہے نہ حیرت کی بات!

آجکل کے موبائل فون مختلف سٹائلش قسم کے ڈیزائنوں میں دستیاب ہیں، کئی ایک تو اتنے چھوٹے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ لونڈی یا لونڈا کسی سے موبائل پر بات کر ر ہے ہیں یا سامنے آنے جانے والے کو لائن مار رہے ہیں۔ رنگ ٹون کی طرف جائیں تو ہزار ہا مختلف قسم کی رنگ ٹون دستیاب ہیں۔ پچھلے دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں ایک نئی رنگ ٹون سنی کہ جیسے پولیس والے چھترول کر تے ہیں۔ کئی رنگ ٹون ایسی ہیں کہ جیسے کوئی کشتی لڑرہاہو، کچھ رنگ ٹون میں اوئے اوئے، بچہ رونے کی آواز، بیگم کی لڑنے کی آواز وغیرہ وغیرہ لگے ہوتے ہیں۔ تصاویر بنائیں، مووی بنائیں انٹرنٹ چلائیں سب کام اب ایک ہی موبائل میں ڈال دیے گئے ہیں۔کچھ ناہنجار اور خلفشار قسم کے لونڈے پڑوسیوں کے ہاں موبائل لگادیتے ہیں اور لائیو لڑائی جھگڑا اور کشتیاں دیکھتے اور ریکارڈ کرتے پائے جاتے ہیں۔آجکل کا موبائل فون، فون کے ساتھ ساتھ، ٹی وی، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، ریڈیو، وائرلیس فون، پیجر، موم بتی ، گھڑی ، الارم، کیلکولیٹیر، ٹیپ ریکارڈر، اسٹل کیمرا، مووی کیمرا ، واک مین اور نہ جانے کس کس کام آرہا ہے۔ پتہ نہیں آئندہ آنے والے دنوں میں اس سے اور کیا کیا کام لیے جائیں گے۔شاید ایک وقت ایسا آئیگا کہ تمام سمیں ایک ہی فون میں لگیں گی اور ہر فون کی گھنٹی الگ کلر میں بجا کریگی، اور یوں کئی موبائل رکھنے کا مسئلہ بھی حل ہوجائیگا۔ شروع شروع میں موبائل فون بہت ہوی ڈیوٹی ہوتا تھا مستقبل کا موبائل فون صرف دو بٹنوں پر مشتمل ہو گا ایک کان اندر اور دوسرا کالر کے پاس اور بس!

ٰٓایک بارسفر میں ایک خاتون سے ٹاکرا ہو۱۔ موصوفہ سر تا پا کالے برقعے میں ا یسے لپٹی تھیں کہ ہوا کے گزرنے کا راستہ یعنی روشندان تک نہ تھا۔ لگتا تھا کہ شاید انہیں سڑک بھی ہاتھ پکڑ کر پار کرانی پڑیگی۔ بہت تانک جھانک کی کہیں سے کو ئی کلو مل جائے کہ انکی عمر کا اندازہ ہو جائے تاکہ لائن مارنے میں آسانی رہے، پر موصوفہ نے شدید گرمی کے مہینے میں بھی پاﺅں میں جرابیں اور ہاتھوں میں دستانے تک چڑھائے ہوئے تھے اور آنکھوں کی جگہ صرف دو بٹن سے نظر آرہے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ کسی دینی مدرسے کی طالبہ ہیں اور ابھی ابھی سبق لیکر لوٹی ہیں ۔ تھوڑی ہی دیر بعد موصوفہ نے پرس سے ایسا شاندار قسم کا چمچماتا موبائل نکالا ، ہم ششد رہ گئے کہ اتنا قیمتی سیٹ تو صرف سوچ ہی ہوگی ہماری۔ اسکے بعد جو موصوفہ ٹھکا ٹھک دے میسج پر میسج شروع ہوئیں ، پورے دو گھنٹے کے سفر میں انکا ہاتھ مستقل کسی ٹائپسٹ کی طرح چلتا ہی رہا اور میسج کا تبادلہ ہوتا رہا۔ معلوم نہیں کہ دوسری طرف کونسی جنس تھی جس سے کہ چیٹنگ ہو رہی تھی۔ ہمیں صرف خاتون کے آئی ایکسپریشن نظر آرہے تھے جس سے کہ مخالف جنس کا اندازہ لگانا مشکل تھا ۔ ایک دو بار اٹھکر جھانک کر دیکھنے کی کوشش کی مگر موصوفہ نے خطرہ فوری بھانپتے ہوئے فون سائڈ میں کر لیا۔ ۔ تھوڑی دیر بعد موصوفہ ایک ٹونٹی سی کان میں ڈالکر بیٹھ گئی، قریب جاکر تھوڑی سی کانا پھونسی کی تو پتہ چلا کہ موصوفہ رمضان کے مہینے میں آنجہانی مائیکل جیکسن کا مشہورگانا۔۔۔۔۔ سن رہی تھیں۔ جس سے یہ کنفرم ہوگیا یہ مدرسے کے درسِ نظامی کی طالبہ نہیں بلکہ منہ سے کبوتر نکالنے والی یا کو ئی کرتب سکھانے والی ہے ۔پھر جناب! ایک گانے کے چکر میں موصوفہ کو جو چھینک آئی تو ہماری تمنا بھی بر آگئی اور سوہنے مکھڑے کا ایسا دیدار ہوا کہ بس نہ پوچھیں کہ اگلے پورے ایک ہفتہ ہم سوتے میں ڈر ڈر کر اٹھتے رہے اور روٹی بھی بمشکل گلے سے اترتی تھی کہ موصوفہ کا پورا چہرا ہی کیلوں اور مہاسوں سے ایسا بھر پڑا تھا کہ جیسے آسمان تاروں سے ۔ پھر ہمیں انکے نام نہاد حسن چھپانے کا راز بھی سمجھ میں آ ہی گیا۔تا ہم آپ لوگ تما م نقاب پوش خواتین کو ایسا مت سمجھیے گا۔

تو جناب! فوائد اور نقصانات تو ہر چیز کے ہوتے ہیں۔ آپ بھی موبائل فون کوصرف ضرورت کے تحت استعمال کریں نہ ہر وقت کان سے لگا کر کان کا کینسر کرا بیٹھیں۔ جدید تحقیق کے مطابق موبائل فون کی ریز سے کینسر کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ موبائل فون کبھی سامنے والی جیب میں دل کے پاس ہرگز نہ رکھیں اور نہ چارجنگ پر لگے فون کو بغیر چارجر کی تار نکا لے استعمال کریں۔ ویسے یار دیکھا جائے تو آج سے پہلے بھی تو دنیا والے بغیر موبائل فون کے گزارہ کر ہی رہے تھے۔ تو کیوں نہ ہم بھی اس فضول خرچ آلے سے جلد جان چھڑالیں۔
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 234811 views self motivated, self made persons.. View More