“ صوفی ازم انسانیت سے پیار و محبت اور امن کا درس دیتاہے“

صوفی ازم اور تصوف پر قلم اٹھانے سے قبل یہ امر پیش نظر رکھا جانا ضروری ہے کہ عوامی سطح پر جب اس حوالے سے بات کی جاتی ہے تو لوگوں کے پیش نظر کچھ صوفیا کرام اور بزرگ حضرات ہی ہوا کرتے ہیں۔ اس لئے بھی کہ یہ بزرگ ہستی اپنی ذات میں بہت صالح ، خدا ترس ، متتقی اور خا لق کی یاد میں مشغول اور مخلوق خدا کے لئے سراسر رحمت ہوتے ہیں۔جب ہی تو ہر دور میں امن و سکون قائم رہتا تھا۔ جس سے بنی نوع انسان فلاح پاتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان بزرگوں کے بارے میں ہر مکتبہ فکر کے لوگوں میں عزت و احترام آج بھی پایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم بھی بین ا لا قوامی سطح پر صوفی کونسل کو قائم کرکے دنیا بھر میں پاکستان کا سوفٹ امیج اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔تاکہ اس صوفی ازم کے ذریعہ امن قائم ہوسکے۔

صوفیانہ نظریات کا پرچار کرنے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے یہ واضح کرنا انتہائی ضروری ہوگا کہ ان کا تعلق لازمی طور پر اسلام سے نہیں۔ جب ہی ٢٠١٠ میں پاکستان میں منعقدہ صوفی ازم اور امن کانفرنس میں مختلف مما لک کے ٩٠ مندوبین نے شرکت کی تھی۔ جبکہ صوفی ازم پر پاکستانی معاشرہ میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں ایک عام تصور یہ بھی ہے کہ اللہ کا پسندیدہ شخص وہ ہوتا ہے جو ہمہ وقت نماز میں مصروف ، ہاتھ میں تسبیح اور یاد الٰہی میں مصروف ہو جبکہ کسی کی زیادتی پر خاموشی سے درگزر کردے۔ بالخصوص کوئی ایک گال پر طمانچہ رسید کردے تو دوسرا گال بھی پیش کردے۔ تاہم یہ امر پیش نظر رکھنا ضروری ہوگا کہ یہ تصوف اور طریقت نہیں ہے۔ اسلامی تصوف کا مقصد معرفت رب کا حصول اور اس کے بعد سب سے پہلے تزکیہ نفس اور پھر انوار الٰہی سے منور کرنا ہے۔ صوفی ازم وسیع معنوں میں دنیا اور اس کی آسا ئشوں سے بے رغبتی اور خداوند تعالٰی سے مضبوط تعلق جبکہ مخلوق خدا کی خدمت پر زور دیتا ہے- جبکہ صوفی ، ملا اور شاعر کے لئے ڈاکٹر، سر، علامہ محمد اقبال ، شاعر مشرق کہتے ہیں کہ:-
صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
ملا کی شریعت میں فقط مستی گفتار
شاعر کی نوا مردہ و افسردہ و بے ذوق
افکار میں سر مست نہ خوابیدہ نہ بیدار

یہاں اس امر کی وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ تصوف کا براہ راست تعلق اسلام سے نہیں ہے۔ تصوف قبل از اسلام بھی موجود تھا-جبکہ آج دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں سے ایک بڑی تعداد تصوف پر یقین رکھتی ہے۔ مہاتما گوتم بدھ اور بابا گرونانک اس کی روشن مثال تھے۔اس مکتبہ فکر کے لوگوں کا کہنا ہے کہ انسانی شخصیت کے اندر بیک وقت دو متحارب اور باہم مخالف و متضاد عناصر کام کرتے ہیں اور یہ ہی ہے اس نفس حیوانی اور اس کی روح ملکوتی۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ روح کی تقویت کے لئے سامان کیا جائے اور حیوانی عنصر کی تہذیب کے لئے تزکیہ کیا جائے۔ اس تزکیہ کا مقصد نفس کو فنا کرنا نہیں بلکہ ضبط نفس اور تزکیہ نفس ہے-اسلام میں نفس کشی کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ روح کی تقویت کے لئے ذکر الٰہی کی تلقین ہے-یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ظہور کے بعد جب دیگر مذاہب کے لوگوں کی بڑی تعداد مسلما ن ہوئی تو ان کے ہمراہ تصوف کی یہ تحریک مسلمانوں میں بھی داخل ہوگئی- جبکہ اسلام قبول کرنے والوں کی ابتدائی نسلوں میں صوفیوں کی حیثیت سے زندگی گذارنے والوں میں اویس القرنی، ہرم بن ہیان، حسن بصرٰی اور سید ابن المعاتب شامل ہیں- اس کے علاوہ ڈھائی قلندر بھی مشہور ہوئے ہیں جن میں سے آدھی قلندر حضرت رابعہ بصری بھی ایک صوفی تھیں جو خدا سے اپنی محبت کے حوالے سے معروف ہیں۔

صوفی ازم نے ٦٦١ سے ٧٥٠ کے دوران امیہ خلافت کے ابتدائی دور میں مسلمانوں کو متاثر کیا ابتدا میں اس کی تعلیمات عربی میں تھیں پھر فارسی اور ترکی زبانوں میں دی جانے لگی۔ اس وقت کے لوگوں کا کہنا تھا کہ صوفی ازم قلب کو اجلا کرنے کا عمل ہے-کیونکہ تصوف کا علم کائنات اور اسی طرح انکا علم النفس ظن و تخمین اور اندازوں پر مبنی ہے اس کے بیشتر تصورات یونانی فلسفوں اور دیگر مذاہب میں پائے جانے والے متصفوا نہ روایات پر مبنی ہیں-جب ہی ہماری قوم میں بھی کافی حد تک آج کے جدید دور میں اثرات پائے جا تےہیں- جس کی وجہ سے ہی شاعر فی البدیہہ حاجی ابوالبرکات نے اپنی شاعری میں کہا ہے کہ:-
پیروں ، فقیروں کی عادی یہ قوم
نگینوں ، ستاروں میں الجھی ہوئی
جہاں میں کھڑا رہنا اس کا محال
ہے راحت طلب اور سوئی ہوئی

پاکستان میں صوفی ازم کو نسبتا“ بہتر انداز میں آج دیکھا جا رہا ہے- برصغیر پاک و ہند میں اگر مسلم صوفیا کرام کے پیغام کو صرف ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ لفظ “ محبت ، اللہ اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے بندوں سے محبت ہی تھی کہ برصغیر میں اسلام پھیلا اور خوب پھیلا تاہم عملی طور پر کئی مسالک کے لوگ صوفی اور تصوف کے معاملے میں تضادات کا شکار ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نیک عمل کی بنیاد پر ہی بدترین دشمن بھی بہترین دوست بن جاتے ہیں-۔تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے تاہم بدقسمتی سے ہمارے یہاں صوفی ازم کو عملی طور پر انسانیت کی بھلائی کے لئے استعمال نہیں کیا گیا-یہ امر قابل ذکر ہے کہ سندھ میں پاکستان کے دیگر صوبوں کے بر خلاف صوفی ازم کے لئے زیادہ اظہار پسندیدگی پایا جاتا ہے اس سلسلے میں صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی بہت مشہور ہیں اور پنجاب میں بابا بھلے شاہ مشہور ہوئے ہیں کیونکہ صوفی ازم درست معنوں میں انسانیت کا درس دیتاہے-جب ہی تو ان اولیائے کرام اور بزرگان دین کے ذرئیہ اسلام صحیح معنوں میں بر صغیر پاک و ہند میں پھیلا تھا۔

اس بحث کی روشنی میں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قول کے مقابلے میں عمل زیادہ پائیدار اور موثر ہوتا ہے۔ انبیا علیہ السلام سے لے کر صوفیائے کرام تک سب نے قول کے ساتھ عمل پر توجہ دی تھی- اگر صوفی ازم کو پیش نظر رکھتے ہوئے قول و فعل کا تضاد ختم کردیا جائے تو یقینی طور پر نتائج مثبت ہونگے- انشا اللہ-
کیونکہ نیعت صاف منزل آسان ہوجائے گی اور آپس میں بھائی چارے کی فضائ بھی پیدا ہوجائے گی اور آپس میں پھر پیارو محبت کے ساتھ اس دنیا فانی میں جینے لگیں گے جنگل کے قانون سے نکل کر۔۔۔۔۔۔۔! ختم شد

تحریر و تحقیق ؛ حاجی ابوالبرکات ، شاعر، ادیب، محقق و مصنف ،ایوارڈ یافتہ قلم کار۔ ممبر آرٹس کونسل آف پاکستان ، ممبر اکادمی ادبیات پاکستان- کراچی پاکستان-
Haji Abul Barkat,Poet/Columnist
About the Author: Haji Abul Barkat,Poet/Columnist Read More Articles by Haji Abul Barkat,Poet/Columnist: 13 Articles with 50085 views AUTHOR OF 04 BOOKS:-
1. ZAOQ - E -INQILAB
2.IZN - E - INQILAB
3.NAWED - E - INQILAB
4. QAHQAHE - HE - QAHQAHE
************************
MEMBER A
.. View More