خلافت اور جمہوریت کے نتائج

کلمہ حق....مولانا محمد منصور احمد

عوام چار برس کے طویل انتظار کے بعد بالآخر اس مقام پر پہنچ گئے ہیں ‘جہاں وہ ہاتھ اٹھا اٹھا کر اور جھولیاں پھیلا پھیلا کر اپنے حکمرانوں کے لئے بد دعائیں کرتے ہیں ۔ پھر جب ان سے جان چھوٹ جائے تو خوشیاں مناتے ہیں اور کسی نئے سراب کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوتے ہیں ۔ہم نے اپنی مختصر زندگی میں جتنے حکمرانوں کو ایوان حکومت سے رخصت ہوتے دیکھا ‘ ان کو روتے اور عوام کو خوش ہوتے ہی دیکھا ۔ عوام تو خوش ہوتے ہی ہیں لیکن اہل علم اور اہل دل بھی مسرت محسوس کئے بغیر نہیں رہتے۔

امت مسلمہ کے یہ سرخیل اور سرتاج ایسے مواقع پر کیوں خوش ہوتے ہیں ‘اس کا جواب مجھے ولی کامل حضرت اقدس مفتی محمد فرید صاحب رحمة اللہ علیہ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم حقانیہ کے ملفوظات میں ملا ۔ آپؒ ارشاد فرماتے ہیں: ”اس زمانے میں جولوگ برسر اقتدار آتے ہیں اور اسلامی نظام سے غداری کرتے ہیں ‘یہ سب واجب العزل ہیں ‘ لیکن ان کو معزول کرنا ہمارے بس کی بات نہیں،لہٰذا جوبھی ان لوگوں میں سے معزول ہوتا ہے اور اقتدار سے محروم کیا جاتا ہے ‘توہمارے دل اس کے معزول کئے جانے پر خوش ہوتے ہیں “۔

تاریخ اسلام کا ایک طالب علم جب ماضی کے عظیم حکمرانوں کے حالات ِ زندگی کا مطالعہ کرتا ہے اور پھر ایک نگاہ اپنے گرد وپیش پر ڈالتا ہے توبلا اختیار اس کے ہاتھ رب کریم کی بارگاہ میں اٹھ جاتے ہیں کہ کوئی ایک تو ڈھنگ کا حکمران پاکستان کے نصیب میں بھی فرما‘جو عوام کی دولت کا امین ہو ، خائن نہ ہو ، باکردار ہو، بدکردار نہ ہو، خود دکھ جھیل کر اپنے عوام کو راحت پہنچانے والا ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے عہدے اور منصب کے بارے میں احکم الحاکمین کے سامنے جوابدہی کا احساس رکھتا ہو۔

بات تو عجیب سی لگتی ہے کہ ”چہ نسبت خاک را بعالم پاک“لیکن اپنے حسین ماضی سے اگر ہم اجتماعی طور پر کچھ نہیں سیکھ سکے تو شاید انفرادی اور ذاتی طور پر ہی کوئی فائدہ اٹھا سکیں ۔ اسی نیت سے امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اﷲ علیہ کے حالات زندگی سے چند سطریں نذر قارئین ہیں۔ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:

عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اﷲ علیہ نے زمامِ حکومت ہاتھ میں لیتے ہی بلاتا خیران چند عمالِ حکومت کو معزول کیا ، جو سخت ظالم اور ناخداترس تھے ، ان کے سامنے شاہی تزک و احتشام اور جانشینی کا جو سامان پیش کیا گیا ، اس کو بیت المال میں داخل کیا ، اور اسی گھڑی سے ان کی سیرت یکسر بدل گئی ، اب وہ سلیمان کے جانشین نہ تھے ، بلکہ امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے جانشین تھے ، جو اری اور باندیوں کو تحقیق کے بعد ان کے خاندانوں اور شہروں کو واپس کر دیا ، مظالم کا تصفیہ کیا ، اور اپنی مجلس کو جس نے کسریٰ و قیصر کے دربار کی حیثیت اختیار کر لی تھی ، سنت اور خلافت ِ راشدہ کے نمونہ پر سادہ اور مطابق سنت بنا دیا اپنی جاگیر مسلمانوں کو واپس کردی ، بیوی کا زیور بیت المال میں داخل کیا ، انہوں نے ایسی زاہدانہ زندگی اختیار کی ، جن کی نظیر بادشاہوں میں تو کیا مل سکتی ہے ، درویشوں اور فقراءمیں بھی ملنی مشکل ہے ، لباس میں ایسی کمی کی کہ بعض اوقات کُرتا سوکھنے کے انتظار میں جمعہ میں تاخیر سے پہنچنا ہوتا ، بنی امیہ جو ساری سلطنت کو اپنی جاگیر اور بیت المال کو اپنی ملکیت سمجھتے تھے ، اب اپنا نَپا تُلا حصہ پاتے ، خود ان کے گھر کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ اپنی بچیوں سے ملنے گئے تو دیکھا جو بچی ان سے بات کرتی ہے ، وہ منہ پر ہاتھ رکھ لیتی ہے ، سبب دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ان بچیوں نے آج صرف دال اور پیاز کھائی ہے ، رو کر فرمایا کہ کیا تم اس پر راضی ہو کہ تم انواع و اقسام کے کھانے کھاﺅ اور تمہارا باپ جہنم میں جائے ؟ یہ سن کر وہ بھی رو پڑیں ، اس وقت جبکہ وہ روئے زمین کی سب سے بڑی سلطنت کے حکمران تھے ، ان کی ذاتی ملکیت کا یہ حال تھا کہ باوجود شوق کے حج کا خرچ ان کے پاس نہ تھا ، نوکر سے جوان کا سچا رفیق تھا ، پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ ہے؟ اس نے کہا کہ دس بارہ دینار ، کہا کہ اس میں حج کیسے ہو سکتا ہے ؟ اس کے بعد ایک بڑی خاندانی مالیت آئی تو خادم نے مبارک باد دی ، اور کہا کہ حج کا سامان آگیا ، فرمایا ہم نے اس مال سے بہت دنوں فائدہ اٹھایا ہے اب یہ مسلمانوں کا حق ہے ، یہ کہہ کر اس کو بیت المال میں داخل کر دیا ۔

ان کے دو وقت کھانے کا حساب دو درہم یومیہ سے زیادہ نہ تھا ، احتیاط کا یہ عالم تھا کہ اگر سرکاری شمع جل رہی ہو اور کوئی ان کی خیریت دریافت کرنے لگتا ، یا ذاتی بات چیت شروع کر دیتا تو فوراً اس کو گُل کر دیتے ، اور اپنی ذاتی شمع منگواتے ، بیت المال کے باورچی خانہ میں گرم کئے ہوئے پانی سے غسل کرنے سے بھی ان کو احتراز تھا ، بیت المال کے مُشک کو سونگھنا بھی گوارا نہ تھا ۔

ان کی احتیاط تنہا اپنی ذات تک محدود نہ تھی، بلکہ وہ اپنے عمال حکومت کو بھی احتیاط کا سبق دیتے تھے ، اور ان سے توقع کرتے تھے کہ وہ بھی حکومت کے معاملہ میں اسی قدر محتاط ہوں گے ، والی مدینہ ابو بکر بن حزم نے سلیمان بن عبدالملک کو درخواست دی تھی کہ حسب دستور سابق ان کو سرکاری موم بتیاں اور قندیلیں ملنی چاہئیں ، سلیمان کے انتقال کے بعد یہ پرچہ عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کے ملاحظہ میں آیا ، آپ نے لکھا کہ ابو بکر مجھے یاد ہے کہ تم اس عہدے سے پہلے جاڑے کی اندھیری راتوں میں بے شمع و موم بتی کے نکلتے تھے ، تمہاری وہ حالت اس حالت سے بہتر تھی ، میرے خیال میں تمہارے گھر کی موم بتیاں اور قندیلیں کافی ہیں ، انہی سے تم کو کام لینا چاہیے ، اسی طرح کی ایک درخواست پر جس میں سرکاری کام کے لئے کاغذ طلب کیا گیا تھا ، لکھا کہ :” قلم باریک کر دو اور گٹھا ہوا لکھو ، اور ایک پرچہ میں بہت سی ضرورتیں لکھدیا کرو ، اس لئے کہ مسلمانوں کو ایسی لمبی چوڑی بات کی ضرورت نہیں جس سے خوامخواہ بیت المال پر بار پڑے “۔

اس طرز حکومت کا نتیجہ کیاہوا؟اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمتوں کی بارش کیسے چھم چھم برسی؟ اور عوام کتنے آسودہ حال ہوئے‘یہ بھی سن لینا چاہیے: یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ مجھے عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ نے افریقہ میں زکوٰة کی تحصیل وصول پر مقرر کیا ، میں نے زکوٰة وصول کی ، جب میں نے اس کے مستحق تلاش کئے جن کو وہ رقم دی جائے تو مجھے ایک بھی محتاج نہیں ملا ، اور ایک شخص بھی ایسا دستیاب نہیں ہوا ، جس کو زکوٰة دی جاسکے ، عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ نے سب کو غنی بنا دیا ، آخر میں نے کچھ غلام خرید کر آزاد کئے ، اور ان کے حقوق کا مالک مسلمانوں کو بنادیا ۔

ایک دوسرے قریشی کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کی مختصر مدت خلافت میں یہ حال ہو گیا تھا کہ لوگ بڑی بڑی رقمیں زکوٰة کی لے کر آتے تھے کہ جس کو مناسب سمجھا جائے دے دیا جائے ، لیکن مجبوراً واپس کرنی پڑتی تھیں کہ کوئی لینے والا نہیں ملتا ، عمر کے زمانہ میں سب مسلمان غنی ہو گئے ، اور زکوٰة کا کوئی مستحق نہیں رہا ۔

ان ظاہری برکات کے علاوہ بڑا انقلاب یہ ہوا کہ لوگوں کے رجحانات بدلنے لگے ، اور قوم کے مزاج و مذاق میں تبدیلی ہونے لگی ، ان کے معاصر کہتے ہیں کہ ہم جب ولید کے زمانہ میں جمع ہوتے تھے ، تو عمارتوں اور طرزِ تعمیر کی بات چیت کرتے تھے ، اس لئے کہ ولید کا یہی اصل ذوق تھا ، اور اس کا تمام اہل مملکت پر اثر پڑ رہا تھا ، سلیمان کھانوں اور عورتوں کا بڑا شائق تھا ، اس کے زمانہ میں مجلسوں کا موضوع سخن یہی تھا لیکن عمر بن عبدالعزیزؒ کے زمانہ میں نوافل و طاعات، ذکر و تذکرہ گفتگو اور مجلسوں کا موضوع بن گیا ، جہاں چار آدمی جمع ہوتے ، تو ایک دوسرے سے پوچھتے کہ رات کو تمہارا کیا پڑھنے کا معمول ہے ، تم نے کتنا قرآن یاد کیا ہے ، تم قرآن کب ختم کرو گے ، اور کب ختم کیا تھا ، مہینے میں کتنے روزے رکھتے ہو۔

ان دونوں حصوں کو ملاکر پڑھنے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ملک کی خوشحالی اور عوام کی آسودگی کابراہ راست تعلق حکمرانوں کی طرز حکومت سے ہوتا ہے ۔ یہ توخلافت کے طرز حکومت اور اس کے نتائج کاتذکرہ ہوا ،اب ایک نظر اپنے ہاں کی جمہوریت اور اس کے انجام پر ڈالتے ہیں ۔

پہلے زمانے میں کاروبار حکومت ایسے چلتا تھا کہ قابل اور دیانتدار وزیر بادشاہوں کو عوام کے مفاد میں مشورے دیتے تھے اور بادشاہ ان کی قدر کرکے احکامات جاری کرتے تھے لیکن اب یہ طریقہ بدل گیا ہے ۔ بادشاہ سلامت خود لوٹ مار کرتے ہیں اور وزراءکی فوج ظفر موج ان کا دفاع اور خوشامد ۔ جب تک بادشاہ سلامت تخت حکومت پر براجمان ہوں ، وہ ہر عیب سے پاک اور ہر برائی سے مبّرا نظر آتے ہیں اور جب ان کی جگہ کوئی نیا ”باس“آجائے تو پھر ان کی آنکھیں کھلتی ہیں اور حقیقت حال نظر آنا شروع ہوتی ہے ۔

کہتے ہیں کہ ایک رات شدید بارش ہوئی اور سخت طوفان آیا ۔ تمام حیوانات ، چرند پرند سردی کے مارے سکڑ رہے تھے اور کسی گرم جگہ کی تلاش میں تھے ۔ اتنے میں سورج نکل آیا ، کچھ روشنی اور کچھ حرارت پڑی توسب کی جان میں جان آئی ۔ گیدڑ نے دیکھا کہ وہ گوبر اور مینگنیوں پر بیٹھا ہے ، اسے سخت بھوک بھی ستا رہی تھی۔ اتنے میں ایک آفت زدہ پرندہ اس کے پاس آکر بیٹھا تو اس نے اچھل کر اسے پکڑ لیا ۔ پرندے نے رحم طلب نگاہوں سے گیدڑ کو دیکھا اور کہا کہ میں اتنا چھوٹاسا ہوں ، مجھے کھاکر کیا کروگے؟ تم جو حکم دوگے میں مانوں گا ۔ گیدڑ بہت خوش ہوا ۔ اس نے کہا کہ جو میں کہتا ہوں ، تم بھی کہتے جاؤ!
گیدڑ کے کان میں ایک مینگنی بھی لٹک رہی تھی ، اس نے پرندے کو کہا :تم کہو کہ شہزادہ بیٹھا ہے سونے کے تخت پر اور کان میں سونے کی بالی ہے ۔ پرندے نے اس کی بات دھرادی اور گیدڑ بے وقوف اپنی خوشامد پر اتنا خوش ہوا کہ فورا پرندے کو آزاد کردیا ۔ پرندہ وہاں سے اڑا اور درخت پر جابیٹھا ۔ جب تسلی ہوگئی کہ اب تو میں گیدڑ کی پہنچ سے دور ہوں تو چیخ چیخ کر کہنے لگا:سنو!گیدڑ بیٹھاہے گوبر کے تخت پر اور اس کے کان میں مینگنی ۔ آپ ا خبارات دیکھیں تو آپ کو گیدڑ اور پرندے کی یہ دلچسپ کہانی روزانہ پڑھنے کو ملے گی۔

جہاں ہر سمت بدعنوانی کا راج ہو ، کوئی احتساب ہو نہ کوئی قانون ، عہدے اور مناصب اہلیت کے بجائے ذاتی وفاداری اور خوشامد پر ملتے ہوں ۔ پوری کوشش ہوکہ عدالتیں ہمارے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی بن جائیں ۔ قوم کا پیسہ بے دردی سے لوٹ کر بیرون ملک اثاثے بنائے جاتے ہوں اور حکومت کو خدمت کے بجائے لوٹ مار کا ذریعہ سمجھا جاتا ہو ، ایسے ممالک میں پھر شاعر اس قسم کے شعر کہا کرتے ہیں
ایک ہی الّو کافی تھا بربادی گلستاں کو
ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے ، انجام گلستاں کیا ہوگا

ایسے ملکوں میں حکمرانوں کے پاس مہنگائی ، غربت ، بدحالی اور بد انتظامیوں کی طرف توجہ دینے کا وقت نہیں ہوتا ۔ وہ بجلی جو پہلے کبھی کبھی جاتی تھی ‘ اب کبھی کبھی آتی ہے۔چوکوں میں ، چوراہوں میں ، شہروں میں ، محلوں میں بجلی کے غیر اعلانیہ تعطل کے خلاف مسلسل احتجاج ہورہا ہے لیکن ذمہ داروں کے لئے سب اچھا ہے اور پھر ہر گزرتا دن پہلے سے بڑھ کر تاریکیوں اور اندھیروں کا پیغام لاتا ہے۔

یہ سب کچھ بھی قابل برداشت ہوسکتا تھا لیکن نیٹوسپلائی کی بحالی کا معاملہ، جس پر پارلیمنٹ کا اجلاس جاری ہے انتہائی سنگین ہے ۔ تعجب ہے ان نام نہاد مسلمانوں پر جو اس پر بحث کررہے ہیں کہ کیا قیمت وصول کرکے ہم اپنی سرزمین ، اپنے پڑوسیوں اور کلمہ گو بھائیوں کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دیں ۔ پہلے علماءاور فقہاءتو اپنی کتابوں میں اس پر بحث کرتے رہے کہ اگر مسلمانوں کو ایک علاقے کے کافروں سے مقابلہ درپیش ہو تو وہ کن شرائط پر دوسرے کافروں سے مدد اور تعاون لے سکتے ہیں ۔ان کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہیں آئی ہوگی کہ ایک دور میں ایسے مسلمان بھی آئیں گے ‘جو مسلمانوں کے خلاف کافروں کو اپنا کندھا پیش کریں گے اور اسلام اور کلمے کے رشتے کو یوں چند سکوں کے عوض فراموش کرڈالیں گے۔

صدر پرویز کے دور حکومت کی ابتداءاورانتہاءدیکھیں تو صاف پتہ چل جائے گا کہ اپنے بھائیوں کا خون بیچ کر کوئی خوش حالی نہیں آسکتی البتہ زلزلے اور سیلاب ضرور آتے ہیں ۔ اس ظالم درندے نے کس طرح عزت مآب مسلمان بھائیوں اور عفت مآب بہنوں کو دشمنوں کے حوالے کیا ۔پاکستان کے ہوائی اڈے امریکہ کو پیش کئے اور اپنے ہی پڑوسیوں پر بارود کی بارش برسانے کے لئے نیٹو کو ہر ممکن سہولت فراہم کی ۔آپ کو یاد ہوگا کہ اس وقت ”لاجسٹک سپورٹ“کی اصطلاح اس مکروہ دھندے کے لئے متعارف کروائی گئی تھی اور ساتھ ہی”سب سے پہلے پاکستان“کا خوبصورت نعرہ بھی ایجاد کیا گیا تھا ۔ اس وقت کے ق لیگی تما م جرائم میں اس کے ہم دم ہم قدم تھے انہوں نے کہا تھا کہ اگر ہم امریکہ کا ساتھ نہ دیتے تو وہ ہمیں پتھر کے دور میں دھکیل دیتا ۔ لیکن سانحہ لال مسجد کے بعد جب تواتر کے ساتھ عذاب آنے لگے ، گندم نایاب ہوگئی ، پانی کے ذخائر کم ہونے لگے ، مہنگائی بڑھ گئی اور بجلی کے تعطل نے ناک میں دم کردیا، تب پتہ چلا کہ حکمرانوں نے پاکستان کے لئے کتنی غلط راہ کا انتخاب کیا تھا ۔

صدیوں پہلے کی تاریخ سے ہمارے حکمران کچھ نہیں سیکھ سکے ۔ اللہ کرے کہ چند سالوں پہلے کے واقعات ہی ان کی آنکھیں کھول دیں اور یہ نیٹو سپلائی کی بحالی سے انکار کرکے پاکستاب کو مزید عذاب سے بچالیں۔
usama hammad
About the Author: usama hammad Read More Articles by usama hammad: 22 Articles with 45426 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.