نمود خان اور عمران خان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ففٹی ففٹی

آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے نمود خان کے ایک حالیہ پیغام نے چونکا دیا کہ وہ پاکستان کی حدود میں تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ آزاد کشمیر کی حد تک بدستور اپنی سابقہ جماعت مسلم کانفرنس میں شامل رہیں گے ۔ بلاشبہ یہ ایک عجیب فیصلہ تھا جس نے قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا۔

نمود خان کا تعلق آزاد کشمیر کے سابق صدر و وزیر اعظم سردار محمد عبد القیوم خان کے خاندان سے ہے وہ ہمیشہ ان کے ایک فرمانبردار عزیز کے طور پر ان کے ساتھ گامزن رہے ہیں ہر سرد و گرم صورتحال میں انہوں نے سردار عبد القیوم خان اور ان کے خانوادے کا ساتھ دیا ہے بلکہ اس حد تک ساتھ دیا ہے کہ بسا اوقات نمود خان کی یہ خواہش رہی کہ سردار صاحب انہیں سردار عتیق سے بھی زیادہ قریب تر سمجھنے لگیں لیکن ایسا نہ ہو سکا اس لئے کہ سردار عتیق کا تعلق سردار عبد القیوم خان سے ایک پسر کا ہے جبکہ نمود خان کا تعلق ایک عزیز کا ۔ ہماری معاصر تاریخ قیادت و سیادت کواپنے خاندانوں میں محدود رکھنے سے بھری پڑی ہے ارد گرد نگاہ ڈالئے صورتحال واضح ہو جائے گی ۔ چند تاریخی استثناءات موجود ہیں لیکن وہ شخصیات اتنی بڑی ہیں کہ ان کا یہاں تقابل عجیب محسوس ہو گا چیئر مین ماﺅ ہوں کہ امام خمینی ، نیلسن منڈیلا ہوں کہ مہاتیر محمد ، ان شخصیات نے قیادت و سیادت کو اپنے خاندانوں کی ملکیت نہیں بنایا رہ گئی باقی شخصیات تو انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔ نتیجہ یہ کہ حکمران خاندان وجود میں آگئے ۔ کشمیر میں ایسے حکمران خاندانوں میں شیخ محمد عبد اللہ مرحوم ، سردار عبد القیوم خان ، سردار محمد ابراہیم خان اور چوہدری نور حسین کے خاندانوں کے نام قابل ذکر ہیں۔ سردار سکندر حیات خان کو بھی اس میں شمار کیا جا سکتا ہے ۔لیکن لگتا ہے ان کی دال نہیں گلے گی ۔ باقی اللہ اللہ خیر سلا۔

نمود خان سردار عتیق کی جگہ نہ لے سکے اور نہ لے سکتے تھے سردار عبد القیوم خان سے سردار عتیق کا نسبی تعلق اپنی جگہ اس سے بڑھ کر ان میں قائدانہ صلاحیتیں بھی پیدا ہو چکی ہیں۔ سردار عتیق نے ملکی ، قومی اور بین الاقوامی امور کا جتنا مطالعہ کر رکھا ہے نمود خان کو ویسا مطالعہ نصیب نہیں ہو سکا حالانکہ ان کی ساری زندگی تحریک چلاتے گذری تاہم وہ ایک بے لوث شخصیت ہونے کے باعث اپنی تحریک کو دوسروں کے ذریعے لازم خیال کرتے رہے ، خود اپنے لئے وقت نہیں نکال سکے نمود خان نے ہمیشہ مسلم کانفرنس کے اندر رہ کر اس کی ”اصلاح“ کی کوشش کی ہے اب کی بار بھی انہوں نے ایسا ہی کیا ہے لیکن ذرا سے فرق کے ساتھ اور وہ یہ کہ آزاد کشمیر کی حدود میں وہ اسی جماعت میں شامل رہتے ہوئے سردار عتیق کے ساتھ چھیڑ خانی جاری رکھیں گے اور ان کی جانشینی کے لئے سوالیہ نشان بنے رہیں گے البتہ جونہی وہ دریائے جہلم عبور کریں گے وہ تحریک انصاف میںشامل ہو جایا کریںگے ۔ راقم نے انہیں کہا کہ اسے ففٹی ففٹی کہتے ہیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ نہیں وہ آزاد کشمیر میں ہوتے ہوئے سو فیصد مسلم کانفرنس میں اور دریائے جہلم عبور کرتے ہی سو فیصد تحریک انصاف میں ڈھل جایا کریں گے ۔ فوری طور پر تو یہ بات سمجھ سے بالا تر تھی کہ وہ دو سو فیصد کیسے بن جائیں گے لیکن غور کرنے پر پتہ چلا کہ نمود خان کا مسلم کانفرنس مارکہ مٹاپا انہیں دو سو فیصد میں ڈھال چکا ہے اب اس دو سو فیصد میںسے وہ آدھا مسلم کانفرنس کو اور آدھا تحریک انصاف کو دیں گے ۔ یہ ہوئی نا نمود خان کی منفرد بات ۔بیک وقت مسلم کانفرنس اور تحریک انصاف میں شامل رہنے کو کیا کہا جا سکتا ہے ؟ان سے آئیڈیالوجی کی بات ہوئی تو انہوں نے اس لفظ کا مطلب پوچھا مطلب خاصا مشکل تھا یہی نا کہ کوئی نہ کوئی نظریہ ہونا چاہیے جو زندگی کا نصب العین ہو ۔ دریائے جہلم کے ایک کنارے پر ایک نظریہ اور دوسرے کنارے پر دوسرا نظریہ ۔ یہ نمود خان کی نظر میں ان کے نظریہ الحاق پاکستان کی ایک نئی تعبیر ہے آزاد کشمیر میں ہوتے ہوئے وہ ایک ٹوپی پہنیں گے اور پاکستان میں قدم رکھتے ہی دوسری ٹوپی پہن لیں گے اس لحاظ سے ان کی بقیہ زندگی ٹوپیاں بدلتے گزر جائے گی۔ تحریک انصاف میں میوزیکل کنسرٹ بھی ہوتے ہیں آزاد کشمیر میں مسلم کانفرنس اس سطح پر نہیں اتر سکتی لیکن نمود خان دونوں جگہوں پر فٹ آجایا کریں گے ۔ ٹوپی بدلنے میں کیا دیر لگتی ہے ۔ مسلم کانفرنس کی علامت جناح کیپ ہے ۔ تحریک انصاف میں شام چوراسی گھرانے کی علامت بھی ٹوپی ہی ہے ۔ تحریک انصاف کی ٹوپی پہن کر وہ اس کنسرٹ میں حصہ لیا کریں گے اور سو فیصد جسم کے ساتھ شامل ہونگے تو تحریک انصاف کا وزن بھی مزید بڑھ جائے گا ۔ ساتھ ہی مسلم کانفرنس کو یہ خطرہ لاحق نہیں رہے گا کہ نمود خان کہیں پورا وزن اس پر ڈال دیں تو نقصان ہو سکتا ہے یعنی کشتی ڈوب سکتی ہے ۔ نمود خان سو بار کہیں کہ وہ آزاد کشمیر میں سو فیصد مسلم کانفرنس میں اور پاکستان میں سو فیصد تحریک انصاف میں رہیں گے حقیقت یہ ہے کہ وہ باقی زندگی ففٹی ففٹی رہیں گے ۔ چاہے وہ نمود و نمائش کے لئے دریائے جہلم کے دو طرف چھوٹے موٹے جلسے کرتے رہیں۔
خدا ہی ملا نہ وصال صنم
ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
Syed Muzammil Hussain
About the Author: Syed Muzammil Hussain Read More Articles by Syed Muzammil Hussain: 41 Articles with 68648 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.