ہم نے خود جب گھر کو جلایا ساری کہانی ختم ہوئی

وطن ِعزیز ہندوستان میں جب بھی کوئی مجلس وزارت تشکیل دی جاتی ہےتو کسی نہ کسی مسلمان رہنما کو وزیرِ اوقاف بنا دیا جاتا ہے اور وہ بصد شوق اسے قبول کر لیتا ہے۔ یہ بات کچھ حیرت انگیز لگتی ہے کہ ان حریص سیاستدانوں کو بھلا وقف میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے لیکن کرناٹک میں اوقاف سے متعلق اقلیتی کمیشن کی حالیہ تفتیشی رپورٹ نے ساری غلط فہمی دور کردی اور ثابت کر دیا یہ نہ صرف سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہے بلکہ اس کا انڈا سب سے بڑا ہے ۔ ہندوستان میں قومی سطح پر ہونےوالے سب سے بڑے گھپلے ٹوجی کی لاگت ۱یک لاکھ ۷۶ ہزار کروڑ ہے جبکہ صرف ایک ریاست کرناٹک میں ہونے والی اوقاف کی بدعنوانی ۲ لاکھ۳۵ ہزار کروڑ ہے ۔کیوں نہ ہوجب بنگلورو کے لال باغ علاقے میں ۹۰ہزار مربع فٹ زمین جس کی قیمت ۹۰ کروڑ روپئے بنتی ہے صرف ایک کروڑ میں فروخت ہو جائے ۔اسی شہر کی ایک پانچ ستارہ ہو ٹل ونڈسر منور اپنے ۵۰۰ کروڑ کی لاگت کے ہوٹل کا کرایہ صرف ۱۲ ہزار روپئے ماہوار ادا کرے جبکہ عدالت سے رجوع کرنے پر کرایہ ۶ لاکھ طہ کیا جائے ۔ایک کروڑ اور ۹۰ کروڑ میں ۹۰ گنا کا فرق ہے نیز ۶ لاکھ اور۱۲ ہزار میں ۵۰ گنا کا فرق ۔ سوچنے والی بات ہے کہ آخر یہ فرق کس کی تجوری کا سانپ بنتا ہے؟ اور جہنم کے اندر جب وہ نمودار ہوگا تو اس کا زہر کس قدر خطرناک ہوگا ۔

مشہورِزمانہ سچر کمیٹی کی رپورٹ شاہد ہے کہ ہندی مسلمان بڑے پیمانے پر غربت و افلاس کا شکار ہیں اور ان کی حالت صرف دلتوں سے کسی قدر بہتر ہے ۔اگر تقابل کیا جائے تو شہری آبادی میں جہاں نام نہاد اعلیٰ ذات کے لوگوں کا خرچ ۱۴۶۹ روپئے فی فرد ہے وہاں مسلمان صرف ۸۰۴ روپئے خرچ کر پاتا ہے لیکن یہ تو اوسط ہےحقیقت تو یہ ہے مسلمانوں کی کثیر آبادی؁۲۰۰۴ کے اعدادوشمار کے مطابق ۵۰۰ روپئےسے کم پر گذارہ کرنے کیلئے مجبور ہے ۔اس کے باوجود نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کا امیر ترین آدمی مکیش امبانی جب اپنا محل تعمیر کرنے کا خواب دیکھتا ہے اس کی نظر اس غریب ملت کی اوقاف پر جاکر ٹھہر جاتی ہے اور وہ الٹا ماؤنٹ روڈ پر ۲۷ منزلہ ذاتی گھر تعمیر کرنے کیلئے ۴۵ ہزار مربع فٹ کی زمین مہاراشٹر وقف بورڈ سے ۲۱ لاکھ روپئے میں خرید لیتا ہے جبکہ بازار بھاؤ کے مطابق اس کی قیمت ۵۰۰ کروڑ بنتی تھی۔اس زمین پر جو شاندارعمارت تعمیر کی گئی ہے اس کی قیمت کا اندازہ بین الاقومی تنظیم فوربس نے۹۰۰۰ کروڑروپیہ لگایا ہے ۔ اس عمارت کی ٹھاٹ باٹ کاا ندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ۲۷ میں سے ۶ منزلیں صرف گاڑیوں کے وقوف کی خاطر مختص کی گئی ہیں ۔ اگر کوئی مسلمان اس علاقے میں صرف۴۵۰ مربع فٹ کا کمرہ بھی خریدنا چاہے تو اسے ۲۱۰لاکھ سے زیادہ قیمت ادا کرنی پڑیگی۔

اس خطۂ اراضی کی تاریخ بھی نہایت دلچسپ ہے ۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب ہندوستانی عوام جمہوریت کی نیلم پری سے نابلدتھے۔ ہر طرف نواب اور راجہ مہاراجہ حکومت کیا کرتے تھے ۔ ان کے درمیان اقتدار کی خاطرجنگ و جدال بھی برپارہتا تھا ۔اس با وجود گوالیار کے مہاراجہ مادھو راؤ شندے کو مسلم یتیم بچوں کا خیال آیا اور انہوں یہ زمین کریم بھائی یتیم خانہ تعمیر کرنے کی غرض سے خیرات کی ۔آگے چل کر ہندوستان میں سیکولرجمہوریت کا بول بالا ہو گیا۔ آئین سازی ہوئی جس کےذریعہ اس مسلم مذہبی ٹرسٹ کووقف بورڈ کے تحت کر دیا گیا اور یہ زمین ہمارے نام نہاد نمائندوں کے قبضہ قدرت میں آگئی۔مہاراشٹرکے مسلمانوں نے یہاں کانگریس پر بھرپور اعتماد کیا اور اسے اپنے لئے باعثِ رحمت سمجھا لیکن ان جمہوری حکمرانوں نے یتیموں کی زمین کو بھی ایک سرمایہ دار کا محل کی تعمیر کیلئے فروخت کردیا اور اس کی قیمت ڈکار گئے ۔ اس موقع پر امت کے ان دانشوروں اور اور مفکرین کوجودن رات جمہوریت کی تسبیح و تحلیل میں غرق رہتے ہیں ایک لمحہ کیلئے ٹھہر کر ٹھنڈے دل سے اس پرغور کرنا چاہئے کہ اس سیکولر جمہوری نظام نے گزشتہ ۶۵ سالوں میں مسلمانوں کو دیا کیا ہے اور ان سے چھینا کیا ہے ؟

اس بارے میں دو وکلاء آشیش جوشی جو وزارتِ اقلیت میں منصوبہ بندی کے ڈائرکٹر ہیں اور احمد خان پٹھان جو وقف بورڈ کے رکن ہیں نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔اتفاق سے جس وقت یہ معاملہ اٹھا مہاراشٹر ہی کے عبدالرحمٰن انتولےوزیر برائے اقلیتی فلاح و بہبودہوا کرتے تھے اس کے باوجود معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہو گیا۔اس بارے میں سید شہاب الدین جیسے جہاندیدہ سابق سرکاری افسر اور سیاستداں بھی بہت زیادہ پر امید نہیں ہیں ۔ان کہنا ہے کہ مسلمانوں کو امبانی اس کی صحیح قیمت ۳۰۰۰ کروڑ کا مطالبہ کرنے پر اکتفا کر لینا چاہئے لیکن ۳۰۰۰ کروڑ تو دور کی بات ہے، کیا وقف بورڈ امبانی سے ۳ کروڈ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکےگا؟ اور اگر ہو بھی گیا تو وہ سرمایہ عام مسلمان کے فلاح و بہبود کے کام آئیگا؟ اس بارے میں کسی کو خوش فہمی کا شکارمایوسی کا سبب بن سکتا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مکیش امبانی کی اس بدعنوانی پر حکومتِ مہاراشٹر لگام لگاتی لیکن اتفاق سے اس وقت مہاراشٹر میں مسلمانوں کی نام نہاد ہمدرد کانگریس پارٹی کی حکومت تھی اور اس کے آدرش وزیر اعلیٰ ولاس راؤ دیشمکھ نے اورنگ آباد میں اوقاف کی ۱۴ ایکڑ زمین جس کی قیمت بازار میں ۶۰ کروڑ بنتی تھی اپنے بھائی دلیپ راؤ دیشمکھ کی نرمان بھارتی کو ۱۴ کروڑ میں بیچ دی۔ اب بھلا وہ کس منہ سے مکیش کو منع کرتے بلکہ یقیناً مکیش امبانی ان کی زبان پر بھی ایک آدرش طلائی تالہ لگا دیا ہوگا ۔جن رہنما ؤں کے ضمیر کی کنجی سرمایہ داروں کی تجوری میں بند رہتی ہے ان سے کسی خیر کی توقع کرنا خود فریبی کے علاوہ اور کیا ہے ؟

اوقاف کا مصرف کیا ہے ؟ اور اس سے امت کیلئے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے ؟ اس سے کانگریس پارٹی کے فاضل رہنما اچھی طرح واقف ہیں ۔ راجیہ سبھا نائب صدر رحمٰن خان فرماتے ہیں کہ اوقاف کے حوالے سے ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی اپنی رپورٹ کافی گہرائی کے ساتھ تحقیق و تفتیش کے بعد مرکزی حکومت کے سامنےپیش کر چکی ہے ۔ان کے مطابق اگر اوقاف کا صحیح استعمال ہوا ہوتا تو مسلمانوں کی تعلیم اور بیروزگاری کے مسائل حل ہوجاتے اور اس کے باعث پیدا ہونے والی غربت بیے اپنی موت آپ مر جاتی ۔ ان کے مطابق اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ۷۰ فیصد اوقاف ناجائز قبضے میں جاچکی ہیں تب بھی باقی ماندہ ۳۰ فی صد ایک خطیر سرمایہ ہے ۔ انہوں نے وزیر اعظم منموہن سنگھ کو سفارش کی ہے قومی وقف بورڈ قائم کر کے اسے پیشہ ور افراد کے حوالے کیا جائے لیکن کیا پیشہ ورسرکاری افسران بدعنوان نہیں ہیں ۔اس اقدام سے بدعنوانی کیسےختم ہوگی ؟کرناٹک اقلیتی کمیشن کے چیئرمن انور منیپاڈی کی رپورٹ کے مطابق اس لوٹ کھسوٹ میں جس قدر حصہ سیاستدانوں کا ہے اسی قدر آئی ای ایس، آئی پی ایس اور کے اے ایس کے اعلی ٰافسران بھی ملوث ہیں۔ ویسے جس فراخدلی کے ساتھ رحمٰن صاحب نے ۷۰ فی صد اوقاف کی زمین پر فاتحہ پڑھی ہےیہ شانِ قلندرانہ امت کیلئے سمِ قاتل ہے ۔اتفاق سے حالیہ بدعنوانی کی رپورٹ میں رحمٰن صاحب کا نامِ نامی بھی پایا جاتا ہے ۔

اوقاف میں بدعنوانی کا بیج بورڈ کی تشکیل کے وقت بویا جاتا ہے۔اول تو بورڈ بنایا ہی نہیں جاتا ،اگر بنایا بھی جائے تو نااہل اور چاپلوس لوگوں کو اس میں بھرتی کر لیا جاتا ہے جو سیاسی سفارش نامہ اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں اکثریت بدعنوان اور بدمعاش افراد کی ہوتی ہے ۔آزادی کے بعد سرکاری مسلمانوں کی ایک ایسی فوج تیار ہو گئی ہے جو اقتداروقت کا تعاون کرتی ہے اوربدلے میں مراعات حاصل کرتی ہے ۔ وقف بورڈ اس عمل کا ایک ذریعہ ہے ۔یہ لوگ دونوں ہاتھوں سے وقف املاک کو لوٹتے ہیں اس لئے کہ انہیں سرکاری تحفظ حاصل ہوتا ہے ۔کرناٹک میں ہونے والے حیرت انگیز انکشافات پر کانگریسی رہنماؤں کے بیانات اس امر کی چغلی کھاتے ہیں ۔قمرالاسلام صاحب کا کہنا ہے کہ سی بی آئی تحقیقات ہوں۔ وہ جانتے ہیں مرکز میں چونکہ کانگریس بر سر اقتدار ہےسی بی آئی کی تفتیش میں وہ بچ نکلیں گےیا اسے اس قدر طول دیا جائیگا کہ اس پر اقدام ہونے تک سارے مجرم مر کھپ جائیں گے۔سیدحارث صاحب کا دعویٰ ہے کہ انور منیپڈی کا ملت میں کوئی مقام نہیں ہے اور بی جے پی مسلمانوں کو بدنام کرنے کیلئے یہ سب کر رہی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن کا مقام ہے ان لوگوں نے ملت کی پشت زنی کیوں کی ؟اور اوقاف کی املاک کا بکنا بدنامی ہے یا اس کا منکشف ہونا؟ انور منیپڈی کے مطابق انہیں پہلے تو ۴ کروڑ رشوت کا لالچ دیا گیا اور پھر جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی۔ایسا کرنے والاوقف بورڈ کا سربراہ سید ریاض احمد فی الحال فرار ہے ۔ ان مسلم سیاستدانوں پرجو حکومت سے ساز باز کر کےمسلم اوقاف کو نیلام کررہے ہیں احمد فراز کا شعر معمولی سی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے :
کہ اقتدار ہے اوزار اس نقب زن کا
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے

اسلامی شریعت میں اوقاف کی حیثیت و اہمیت کا اندازہ کرنے کیلئے دور نبوی ؐکا ایک واقعہ قابلِ توجہ ہے ۔ مدینہ منورہ سے تقریبا ٦٠ میل شمال میں ایک درے کے درمیان خیبرنام کی ایک بستی آباد تھی۔ اس علاقے میں کھجور وغیرہ کی کاشت ہوتی ہے ۔خیبر کی فتح کے بعدمال غنیمت کے طور پران باغات کا ایک حصہ حضرت عمر فاروق ؓکو ملا تووہ نبی کریم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا کہ یارسول اللہؐ میں چاہتاہوں کہ اس زمین کو اللہ تعالٰی کی رضا میں دیدوں اس لئےآپ ؐ مجھے حکم فرمائیے۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ اگرتم یہی چاہتے ہوتو اصل زمین کو وقف کردو اور اس سے جو کچھ پیدا ہواسے بطورصدقہ تقسیم کردو چنانچہ حضرت عمر ؓنے اس زمین کو اس شرط کے ساتھ خدا کی راہ میں دیدیا یعنی وقف کردیا کہ اصل زمین کونہ تو فروخت کیا جائے ،نہ ہبہ کیا جائے اورنہ اسے کسی کی میراث قراردی جائے اور اس کی پیداوار سے بطور صدقہ فقیروں، قرابتداروں کو نفع پہنچایا جائے، غلاموں کی مدد کی جائے تاکہ وہ آزاد ہوجائے، اس زمین کی پیداوار سے مکاتب کی اعانت کی جائے ،جہادِ فی سبیل اللہ اورحاجیوں پرخرچ کیا جائے، مسافروں کی ضرورتیں پوری کی جائیں اورمہمانوں کی مہمان داری کی جائے ۔ اس زمین کامتولی بقدرحاجت اس میں سے کھائے یا اپنے زیرِ کفالت اہل وعیا ل کو کھلائے تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے لیکن اس آمدنی سے مالدار نہ بنے( بخاری ومسلم) ۔

یہ حدیث وقف کا مصرف بتلاتی ہے چنانچہ تمام مسلمانوں کا بالاتفاق یہ مسلک ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی کوئی جائیداد مثلاً زمین ومکان وغیرہ کسی نیک مقصد او راچھے کام کے لئے اللہ تعالٰی کی رضا وخوشنودی کی خاطر وقف کردیتا ہے تو یہ جائز ہے اور وہ وقف کرنیوالا بیشماراجروثواب سے نوازا جاتا ہے نیز یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ وقف جائیداد نہ فروخت کی جاسکتی ہے اورنہ ہبہ ہوسکتی ہے اور نہ کسی کی میراث بن سکتی ہے ۔ یہ حدیث وقف کی اہمیت بھی ظاہرکرتی ہے چونکہ وقف ایک صدقہ جاریہ ہے اس لئے اس کا ثواب وقف کرنیوالے کو برابرملتا رہتا ۔لیکن اس بابت واضح تنبیہ قرآن مجید میں موجود ہے۔ارشادِ ربانی ہے :اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقہ سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے (سورہ بقرہ ۱۸۸)۔

آشیش جوشی نے مکیش امبانی کے خلاف اپنی شکایت میں لکھا ہے کہ ’’وقف جائیداد اللہ کے نام پر وقف ہوتی ہیں اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد کو مسلم سماج کے ضرورتمند اور مستحق افراد کے خیرو فلاح پر صرف ہونا چاہئے ۔ یہ قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ اوقاف کے جس مصرف کو ہمارے سیاسی رہنماؤں نے اپنے گوں ناگوں مفادات کے پیش ِ نظر بھلا دیا اسے ایک غیر مسلم ہمیں یاد دلا رہا ہے۔ یہ بھی ایک حسنِ اتفاق ہے کہ اوقاف کی املاک کو جو امت کے غریبوں کی امانت ہے ہمارے نام نہاد ہمدرد و بہی خواہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور ہماری دشمن سیاسی جماعت اپنے گوں ناگوں سیاسی مفاد کے پیش نظر انہیں بے نقاب کر رہی ہے ۔کرناٹک کی بی جے پی حکومت سے مشیت یہی کام لے رہی ہے ۔کرناٹک اقلیتی کمیشن کی جانب سے تیار کردہ اس ۷۰۰۰ صفحات پر مشتمل رپورٹ میں جوٹھوس تجاویز پیش کی گئی ہیں وہ رحمٰن خان کے بے جان مشوروں سے یکسر مختلف اور قابل توجہ ہیں:
•وقف بورڈ کو ایک سال کیلئے معطل کر کے لوک آیوکت کے ذریعہ بدعنوانی کی مکمل تحقیقات کروائی جائیں
•وقف املاک کو واپس لینے کیلئے ایک خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دیا جائے ۔آئی اے ایس افسر رجنیش گوئل کو ٹاسک فورس کا سر براہ مقرر کیا جائے۔
•بورڈ کی صاف و شفاف کارگذاری کی خاطرضابطہ سازی کی غرض سے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کی جائے
•کمیٹی میں دو آئی ایس افسران، ایک وظیفہ یافتہ جج،دو غیر سرکاری تنظیموں کے افراد اور اقلیتی کمیشن کے تین ارکان شامل ہوں
•دوسرے مرحلے کا سروے شروع کیا جائے ۔ اراضی کا تازہ آڈٹ کیا جائے۔
• غصب شدہ زمینوں پرناجائز قبضہ ختم کیا جائے
•غاصبوں کو ۵ – ۱۰ سال تک کی قید اوران پر مقبوضہ زمین کی قیمت سے دوگنا جرمانہ لگایا جائے ۔ وغیرہ ۔۔

یہ توکہنا مشکل ہے کہ ان سفارشات پر کس حد تک عمل ہوگا یا بلکہ سرے سے کچھ ہوگا بھی کہ نہیں؟ سدانند گووڑا یہ سب کرنے تک اقتدار میں بھی رہیں گے یا نہیں؟انہیں یدورپا اقتدار سے بے دخل کر دیں گے یا وسط مدتی انتخاب میں کا نگریس اقتدار میں آجائیگی ؟اس لئے کہ کر ناٹک کی غیر مستحکم سیاسی صورتحال میں کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن کسی سیاسی چمتکار کے چلتے اگر چند بڑی مچھلیوں کی جیب سے جرمانہ وصول ہو جائے نیز انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے روانہ کر دیا جائے تو اس لوٹ مار پر کسی نہ کسی حد تک لگام ضرور لگے گی اور اس کیلئے مسلمانانِ ہند اپنے ازلی دشمن بی جے پی کے ممنون و موکےر ہوں گے۔بقول شاعر :
تم ہی نہیں ہو دشمن اپنے ہم بھی ہیں کچھ ایسے ہی
ہم نے خود جب گھر کو جلایا ساری کہانی ختم ہوئی
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450008 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.