جمہوریت کے لبادے میں ملبوس اور
مسلط حکومت میں سب کچھ غلط نہیں ہورہا،قوموں کو سبق سیکھانے سیدھا راستہ
دکھانے کےلئے تاریخ میں ایسے کئی ظالم اور جابر حکمرانوں کے قصے موجود ہیں
جنہیں عوام نے اپنی طاقت سے ہٹادیا اور وہ اب افسانوں میں ڈھل چکے ہیں ان
کی باقیات لفظ اقتدار سن کر ہی کانپ جاتی ہے یہ کپکپی انہیں اپنے ہی کردہ
ظلم کی یاد دلاجاتی ہے۔یہ سب ڈکٹیٹر یا ڈکٹیٹر کے چاہنے والے تھے مگر ہمارے
حکمران دو ہاتھ آگے ہیں انہوں نے تو ہمیشہ آمروں کے خلاف جدوجہد کی ،ہمیشہ
فوجی سوچ سے تک نفرت کی اور اٹھتے بیٹھے ،سوتے جاگتے صرف جمہوریت اور
جمہوریت پسندوں کی بات کی اور اب پاک وطن میں ایسی جمہوری حکومت چلارہے ہیں
کہ آمریت بھی شرما جائے۔
قوم کی معصومیت اورخاموشی سے کس طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے کا وہ سبق دیا
جارہا ہے جسے برسوں یاد رکھا جائے گا ،مفاد پرست جو کل تک ملک اور قوم کے
لئے آمر کے ساتھ تھے آج زمینداروں اور جاگیرداروں سے قوم کو نجات دلانے کا
نعرہ لگاتے ہوئے حکومت سے چمٹے ہوئے ہیں انتہائی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ”
ہماری حکومت نہیں ہم تو ملک اور جمہوریت کے لئے اور ظالم جاگیرداروں سے
چھٹکارے کے لئے حکومت میں ہیں“۔
اب وہ وقت تیزی سے آرہا ہے جب عام آدمی اٹھ کھڑا ہوگا ، میں تو موجودہ
حکومت اور ان کے اتحادیوں کو مبارک باد دونگا کہ وہ اپنی چالوں سے سوتی
ہوئی قوم کو جگانے اور انقلاب لانے پر مجبور کررہے ہیں بلکہ کرچکے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بحیشت قوم ہم کرپشن کے دلدل میں پھنس چکے ہیں یہ ہی
کرپٹ سوچ شیطان ذہنوں کے حامل حکومتی ٹولہ کی حوصلہ افزائی کررہی ہے اور
انہیں ”جو چاہے وہ کرو“ کے مصداق موقعہ فراہم کررہی ہے اور نیک و محب وطن
لوگوں کو خوفزدہ کررہی ہے ۔
ملک کے سب سے بڑے صوبہ میں بجلی کے بحران کے باعث سڑکوں پر لوگوں کا احتجاج
اور اور سب سے بڑے شہر میں ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ مافیا کی کارروائیوں سے
پائی جانے اور کرپٹ حکومت اور ان کے منافق اتحادیوں و ساتھیوں کی خاموشی پر
امن شہریوں کو انقلاب کا راستہ دکھارہی ہے۔
گمان ہے کہ اس بار انقلاب ایسا ہوگا کہ نام نہاد انقلابیوں کے ہوش ٹھکانے
آجائیں گے، جمہوریت پسندوں کی دکانوں پر حقیقت پسندی فروخت ہونے لگے گی،
ایک اشارے پر ہجوم کو خاموش کرنے والے دانتوں میں انگلیا ں داب نے پر مجبور
ہوجائیں گے، جو باہر ہے وہ بھی اندر ہوجائیں گے اور جو اقتدار میں ہیں
انہیں باہر جانے کی مہلت نہیں ملے گی(انشاءاللہ ایسا ہی ہوگا)
مجھے اللہ پر یقین ہے کہ وہ دن آنے والا ہے جب امریکہ پر یقین کرنے والوں
کو امریکہ ہی ٹارگٹ کرے گا ماضی کے کئی ظالموں کی طرح وہ بھی ماضی کی کہانی
بن جائیں گے اس لیئے کہ اب امریکہ کو ان پر بھروسہ نہیں رہا اب امریکہ اپنی
گرتی ہوئی ساکھ کی طرف متوجہ ہوگیا ہے اسے اپنے مفادات کے لئے پا ک زمین کا
استحکام عزیز ہوگیا ہے وہ اب اپنی چالیں تبدیل کررہا ہے،اور وہ بھی اللہ کے
نظام اور اسے سپر پاورماننے لگا ہے۔
اب ذر ا کراچی کے حالیہ واقعات پر نظر ڈالیئے متحدہ سے تعلق رکھنے والے دو
بھائیوں کے قتل پر پورا شہر ہی نہیں صوبے کو آگ میں دھکیل دیا گیا لیکن
شائد وہ ہدف حاصل نہ ہوا جو انسانینت کے قاتل کا تھا تو تب ہی تو دو پختون
نوجوانوں کو نشانہ بنایاگیا تاکہ ایسی آگ لگے جو جلد نہیں بجھ سکے لیکن
اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے صورتحال بہتر کردی ،دوسری طرف سے ایسا ردِعمل
سامنے نہیں آیا جو دو بھائیوں کی ہلاکت کے بعد سامنے آیا تھا شائد اے این
پی کو قتل کے واقعے پر اپنی طاقت کا اظہار کرنے کی ضرورت نہیں تھی یا پھر
یہ لوگ اس شہر سے زیادہ محبت کرتے ہیں جس نے انہیں سخت ری ایکشن سے روکا ہو
آخر انہیں اس شہر نے کاروبار ، رہائش اور سب ہی کچھ تو دیا ہے؟
سوال یہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ اسی وقت کیوں احتجاج کرتی ہے جب اسے اپنی
کوئی بات منوانا ہو کارکنوں کا قتل تو اب تقریباََ روز کا معمول بن گیا ہے
؟ سیاست کی تاریخ میں متحدہ کے احتجاج ہمیشہ ہی خونی رہے ،میں یہ نہیں کہتا
کہ اسے متحدہ نے خونی بنایا لیکن مجھے یہ دکھ ضرور ہے کہ اس قدر خون بہنے
کے باوجود متحدہ اپنے شہیدوں کے قاتلوں کو گرفتار کرانے میں ناکام رہتی
ہے۔۔۔آخرکیوں؟ اپنے قیام سے ابھی تک متحدہ نے کوٹہ سسٹم بھی ختم نہیں
کراسکی جو اس کا بنیادی اور دیرینہ مطالبہ تھا اور ہے ۔اور تو اور متحدہ
اپنے لاپتہ کارکنوں کا بھی پتہ نہیں لگاسکی جو 92ءاور 96ء کے دوران لاپتہ
ہوگئے تھے ایسی بے بسی کیوں ؟ متحدہ آخر حکومت میں رہ کر کیا کچھ حاصل
کررہی ہے جو اپوزیشن میں رہ کر حاصل نہیں کرسکتی ؟ اور کس چیز کے کھونے
کاڈر ہے جو متحدہ کے کارکنوں کی جانوں سے زیادہ اہم ہے ،جانیں بھی جارہی
ہیں اور کچھ حاصل بھی نہیں کیا جارہا ہے پھر بھی حکومت کا ساتھ حیرت ہے ؟
متحدہ اپنے کارکنوں کے قاتلوں کو بھی گرفتار نہیں کراسکتی تو پھر وہ کیوں
مسلسل 12 سالوں سے حکومت کا حصہ بنی ہوئی ہے ؟ رہی بات عام مہاجروں کی تو
اس سے منہ خود متحدہ نے موڑلیا تھا اور لفظ مہاجر جو پہلے ہر کارکن کی زبان
پر ہوتا تھا سلام کے ساتھ جئے مہاجر کہکر ہاتھ ملایا جاتا تھا، اسے تو ”خود
جو جھکنے والا نہیں“ نے مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل
کرتے ہوئے اپنے آپ کو اردو بولنے والے تسلیم کرلیا تھا اور لفظ مہاجر بولنے
والے دھڑے کو غدار قرار دیدیا تھا۔اخر یہ کیسی سیاست ہے یہ سیاسی جماعت بھی
ہے یا بقول ایک نوجوان ٹی وی اینکر کے ” مافیا “ ہے؟۔
اس سے بڑی شرم کی بات اور کیا ہوگی کہ حکومت میں رہتے ہوئے متحدہ کے کارکن
اور عہدیدار قتل ہوجاتے ہیں پر متحدہ حکومت سے احتجاجا الگ ہونے کے بجائے
اور قریب چلی جاتی ہے ، اور نہ جانے کیا کچھ حاصل کر جاتی ہے جس کے دباﺅ کے
باعث وہ حکومت سے چمٹی رہنے پر مجبور ہے؟؟
صدر کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب سے قبل ایک روزہ احتجاج اور پھر
سب کچھ ٹھیک وعدہ پورا نہ کیا تو پھر قتل کا سانحہ اور پھر اس پر طاقت کا
اظہار ،ایسی طاقت اور قوت کا کیا فائدہ کہ کارکنوں کو بدلے میں اپنی جانوں
سے ہی ہاتھ دھونا پڑے ؟ اور پھر عبدالرحمن ملک کی آمد پھر خاموشی ، ذرا غور
تو کریں کہ وزیر داخلہ صاحب اس گھر کے راستے پر اس محلے میں بھی نہیں گئے
جہاں دو معصوم و مجبور نوجوان” قائد تیرے لیئے جان بھی قربان “ کہتے ہوئے
اپنی زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھے وہ سیدھا متحدہ کے پاس جاتے ہیں اور نہ جانے
کیا بات کرتے ہیں کہ متحدہ بھی سب کچھ بھول جاتی ہے ، احتجاج بھی ختم
ہوجاتا لیکن شہر میں ایک دوسری پارٹی یا کسی عام فرد کو ٹارگیٹ کرکے ہلاک
کردیا جاتا ہے متحدہ اسے کیسے روک سکتی ہے وہ تو اپنے ذمہ داروں کی بھی
حفاطت نہیں کرسکتی ؟
کراچی میں ان دنوں مہاجر لیبریشن آرمی کے نام سے ایک نئی بازگشت سنائی دے
رہی ہے جو لوگ اس کے پیچھے ہیں یقینا وہ نڈر،ایماندار اور خوف خدا رکھنے
والے نہیں ہیں بلکہ وہ منافقین میں سے ہیں تب ہی تو وہ سامنے نہیں آرہے
لیکن کیا ہماری ایجنسیاں ، پیپلز پارٹی کی پوری حکومت اور خود ”سب پہ بھاری
آصف زرداری“اس قدر کمزور اور نا اہل ہیں کہ وہ یہ بھی پتہ نہیں لگاسکیں کہ
اس لیبریشن آرمی کے پیچھے کون لوگ ہیں ؟ کن لوگوں نے پیپلز پارٹی کی اپنی
اراکین سندھ اسمبلی کو دھمکی آمیز خط لکھا ؟ کچھ نہیں تو کم از کم اس خط پر
ردِعمل کے جواب میں چراغ پا ہونے والوں سے یہ تو پوچھا جاسکتا ہے کہ بھائی
آپ کیوں چور کی داڑھی میں تنکے کے مصداق وضاحتیں یاشور شرابا کررہے ہیں؟
مجھے لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادیوں کی رسیاں ایک ہی جگہ سے ہل
رہیں ہیں اور وہاں کے سیکٹر انچارج ڈاکٹر عبدالرحمن ملک ہیں جو دکھاوے کے
لیئے وفاقی وزیر داخلہ بھی بن بیٹھے ہیں تب ہی تو کوئی سنجیدہ قدم اٹھانے
کے بجائے انہیں ہی آگے کردیاجاتا ہے۔
مہاجر لیبریشن آرمی کا اچانک وجود کیوں آیا ؟ یہ بھی ایک غور طلب بات ہے۔
ادھر خبر آتی ہے کہ امریکہ بلوچستان میں سالوں سے جاری کشیدگی کو اپنے
ایوان میں زیر بحث لاتا ہے اسے الگ ریاست بنانے کی تجویز پر غور کیا جاتا
ہے تو دوسری طرف ہمارے حکمران زیر زمین بلوچستان کے سیاسی کھلاڑیوں سے
رابطے شروع کردیتے ہیں (جو طویل عرصے سے بلوچستان کے ساتھ کی جانے والی
زیادتیوں پر زیر زمیں رہ کر جدوجہد کررہے ہیں)اور ان کے مقدمات تک کی واپسی
کا اعلان کردیا جاتا ہے بس یہ ہی لائن تھی جس نے کراچی میں مہاجر لیبریشن
آرمی کے وجود کا باعث بنا ۔
امریکا کو کیوں اچانک بلوچستان کے باغیوں سے محبت ہوگئی ؟امریکہ افغانستان
،عراق میں ناکامی کے بعد بھی سیدھے راستے پر نہیں آیا یہ بات حیرت انگیز
ہے؟ لیکن کیا امریکہ یہ طے کرچکا ہے کہ پاکستان کو اس طرح کمزور یا
خدانخواستہ ختم کرسکتا ہے ! میرا خیال ہے یہ امریکہ کی بھول ہے جس کا یقین
اسے جلد ہوجائے گا، بس اس انقلاب کو آنے دو ، جو آنے والاہے ہمارے حکمرانوں
کے رویئے کی وجہ سے ، امریکہ کی ہٹ دھرمی اور مسلم دشمنی کی وجہ سے۔ |