نام کتاب: ”قرآن کی پہلی سورة
الفاتحہ اور آخری تیس سورتیں“
مصنف: ڈاکٹر عرفان احمد خاں
ہندی ترجمہ : سید منصور آغا
سرورق دیدہ زیب، عمدہ طباعت ،سفید کاغذ،صفحات : 203، قیمت : 100 روپے
ناشر ان: قرآن فاؤنڈیشن انڈیا، نئی دہلی،
دی ایسو سی ایشن فار انڈر اسٹینڈنگ قرآن، یو ایس اے
تنصرہ نگار : سہیل انجم
زیر تبصرہ کتاب کے مرتب و مترجم سید منصور آغا اسلامی فکر کے حامل سینئر
صحافی ہیں۔صحافت کے ساتھ اسلامی علوم خصوصاً مطالعہ قرآن ، تصوف اور تاریخ
اسلامی میں ان کی دلچسپی رہی ہے۔ چنانچہ اسلامی اور فقہی معاملات پر بھی ان
کی نگارشات کو قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ عصری وسیاسی مسائل پر بھی جب
وہ قلم اٹھاتے ہیں تو اسلامی ذہن کے ساتھ بے لاگ تجزیہ و تبصرہ کرتے ہیں۔
وہ اردوکے علاوہ ہندی اور انگریزی میں بھی اظہار خیال کی دسترس رکھتے ہیں
اور ان زبانوں کے کہنہ مشق مترجم بھی ہیں ۔ مختلف موضوعات پر ان کی ترجمہ
کی ہوئی متعددکتابیں شائع ہوکر مقبول ہو چکی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ”قرآن کی
پہلی سورة الفاتحہ اور آخری تیس سورتیں“ انگریزی سے ہندی کے قالب میں ڈھالی
گئی ہے اور جو حال ہی میں شائع ہو کر منظر عام پر آئی ہے۔
اس کتاب کے مصنف فلسفہ کے پروفیسر ڈاکٹر عرفان احمد خاں خود عالم دین ہیں
اور قرآن پر گہری نظر رکھتے ہیں۔وہ امریکہ میں مقیم ہیں اور ”دی ایسو سی
ایشن فار انڈر اسٹینڈنگ قرآن“ کے ڈائرکٹر ہیں ۔ یہ ادارہ قرآن میں دلچسپی
پیدا کرنے اور اس کا پیغام عام کرنے کا کام کرتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ڈاکٹر
عرفان کی دو کتابوں کے چند اہم ابواب پر مشتمل ہے۔ اس دو ابواب ”قرآن کے
اہم تصورات اور اصطلاحیں“ اور ”سورة فاتحہ“ ان کی وقیع تصنیف Reflection on
the Qura'n--سے لیے گئے ہیں۔ باقی دو ابواب Understanding The Qura'n An
Outline Study Of The Last Thirty sur'hپر مشتمل ہیں۔ مترجم نے یہ انتخاب
اس طرح کیا ہے اس مختصر کتاب میں وہ بنیادی باتیں آ جائیں جو قرآن، اس کے
موضوعات اور طرز تخاطب کو سمجھنے میں معاون ہوں۔ ترجمہ ایسی سلیس ،رواں عام
فہم زبان میں کیا گیاہے کہ ترجمہ کا گمان نہیں ہوتا جس سے اس کی افادیت
دوبالا ہوگئی ہے۔یہ کتاب دراصل قرآن کا اچھا تعارف ہے ، اس لئے دعوتی مقصد
سے اسے غیر مسلموں کو بھی پیش کیا جاسکتا ہے اسی نظریہ سے اسکی قیمت کم
رکھی گئی ہے۔ |
ترجمے کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ مترجم نے قرآن کے اصطلاحی الفاظ کو بدستور
برقرار رکھا ہے ۔ وجہ اس کی یہ بیان کی ہے کہ مترادفات سے ان کا مفہوم کچھ
سے کچھ ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور اللہ، رسول، ایمان،آخرت، عبادت،نماز، دوزخ
اور جنت وغیرہ الفاظ کو نہیں بدلا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان اصلاحوں جو
مترادفات غیر مذاہب سے اخذ کئے جاتے ہیں ان سے وہ مفہوم جوں کو توں ادا
نہیں ہوتا جوہم قرآن اور احادیث سے اخذکرتے ہیں۔مثال کے طور پر ہماری جنت
کیسی ہوگی اس کا تفصیلی نقشہ صرف قرآن اور فرمان رسول کے حوالے سے ہی
کھینچا جاسکتا ہے، دیگر مذاہب کی کتابوں سے نہیں۔ جس خالص توحید کا تصور
اسم ذات ”اللہ“ میں سمویا ہوا ہے وہ ایشور یا گاڈ میں نہیں ہے۔ اسی طرح
”دوت یا سندیش واہک“ ہمارے رسول یانبی کا بدل نہیں ۔وہ صرف اللہ کے پیغام
کو اس کے بندوں تک پہنچاتا ہی نہیں بلکہ خود اس کا نمونہ بھی اس جاری اور
ساری کرنے کےلئے اپنی جان لڑا دیتا ۔ان کا کہنا یہ بھی ہے یہ اصطلاحی الفاظ
ہندی داں طبقہ کےلئے اجنبی نہیں ہیں۔
ڈاکٹر خان اس کتاب کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ ”اس کا مقصد قارئین کو یہ بتانا
نہیں ہے کہ میں (مصنف) نے کیا مطلب سمجھا ہے بلکہ اس یہ ہے کہ قارئین کے
اندر قرآن کی روح کو سمجھنے اور اس کی آیات (نشانیوں) پر غور وفکر کرنے کی
دلچسپی پیدا کی جائے“۔ قرآن بھی جگہ جگہ غور وفکر کی دعوت دیتا ہے۔ خاص طور
پر کہا گیا ہے کہ بنی نوع انسان کو چاہئے کہ وہ کائنات کے بارے میں غور
وفکر کرے اور سوچے کہ اللہ تعالٰی نے یہ کائنات کیوں بنائی ہے۔اساتذہ (تفاسیر)
کہ اہمیت مسلم مگر قرآن سے وابستگی پیدا کرنے کے لئے اس کے ایک ایک لفظ
کوسمجھنا چاہئے۔
کتاب کے پہلے باب ”قرآن کے اہم تصورات اور اصطلاحیں“میں قرآن کے حوالے سے
اسلام کے بنیادی تصورات اور اصطلاحی الفاظ کو سمجھنے کی سعی کی گئی ہے۔
ایسے عربی الفاظ کا بھی مطالعہ کیا گیا ہے جن کے مطالعہ سے قرآن کو سمجھنے
میں مدد ملتی ہے۔ جن اہم تصورات اور اصطلاحوں کو شامل مطالعہ کیا گیا ہے ان
میں دین، نفس اور روح، خلق وامر، قدر، تسویہ، تزکیہ، اطمینان، ایمان ، کفر،
تصدیق، تکذیب، طغیان، فساد، عمل صالح، عبادت، ذکر، تسبیح، استغفار، الانسان،
الناس، فلاح، خسران، یتیم، مسکین، رقابہ، الکتاب اور القرآن قابل ذکر ہیں۔
ان کی تشریح بڑے دلنشین انداز سے کی گئی ہے جس سے بات آسانی سے سمجھ میں
آجاتی ہے۔انکا سمجھنا اس لئے اہم ہے کہ ان کے سمجھے بغیر قرآن کو ٹھیک سے
سمجھنا ممکن نہیں۔
دوسرے باب”قرآن کی قسمیں“ میں بتایا گیا ہے کہ قرآن میں جگہ جگہ مختلف
چیزوں کی قسمیں آئی ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان قسموں کی بڑی اہمیت ہے۔
اس باب میں قرآن میں ”قسم“ کی اہمیت کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی
ہے۔
تیسرا باب میں سورہ الفاتحہ کی ہر آیت مبارکہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی
ہے ۔ اس مطالعہ یہ حقیقت روشن ہوتی ہے کہ قرآن کی اس افتتاحی سورہ میں اللہ
تعالیٰ نے اس پیغام کی روح کو سمودیا ہے جس کےلئے یہ آسمانی صحیفہ نازل ہوا
ہے۔ آخری باب میں قرآن کی آخری تیس سورتوں(سورہ البروج تا الناس) کا مطالعہ
کیا گیا ہے۔سورة کے عربی متن کے بعد کھڑے کالم میں ہر لفظ کا الگ الگ ترجمہ
درج کیا ہے۔ اس کے بعد ہر آیت کا مربوط ترجمہ پیش کردیا ہے۔ اس کے بعد
آیتوں میں باہمی ربط کا خلاصہ کیا گیا ہے۔ اور آخر میں یہ بتایا گیا ہے اس
سورہ کا مرکزی موضوع یاپیغام کیا ہے؟ان مطالعہ سے یہ حیرت انگیز انکشاف
ہوتا ہے کہ جو آیتیں باہم بے ربط نظر آتی ہیں ان کے اندر ایک گہرا ربط
موجودہے اور پوری سورہ ایک جامع اور کامل خطبہ ہے۔یہی دراصل اس کتاب کا
نادر پہلو ہے جو قاری کی دلچسپی قرآن میں پیدا کرتا ہے۔
آخر میں مجموعی طور پر ان آخری تیس سورتوں میں پیغام ربانی کو سلسلے وار
بیان کیا گیا ہے جیسے کہ اللہ کی مدد آکر رہے گی، تزکیہ سے ہدایت تک، آخری
تیس سورتوں کا موضوع آخرت، اللہ کا گھر اور اس کے پڑوسی، اختتامی تبصرہ،
سچے دین اور مذہب کے نام پر گمراہی۔ اس طرح یہ کتاب ایک بہت ہی اہم موضوع
کا احاطہ کرتی ہے۔ جس طرح مصنف نے ترجمے کے اصولوں کو برتا ہے اسی طرح
مترجم نے بھی انگریزی سے ہندی میں ترجمہ کرتے وقت ان کا لحاظ اور خیال رکھا
ہے۔یہ سورتیں وہ ہیں جو عام طور پر نمازوں میں تلاوت کی جاتی ہے۔ توقع ہے
کہ ان کا مفہوم دل میں بیٹھ جانے سے نماز میں خشوع اور خضوع میں اضافہ
ہوگا۔یہ مختصر مطالعہ سے قرآن سے وابستگی پیدا کرنے میں اور اس کے پیغام کو
سمجھنے اور اس پر عمل کا شوق و ذوق پید ا کریگا۔کتاب مسلکی اختلافات سے پاک
ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ اہل نظر کی پسند اور معیار پر کھری اترے گی اور
قارئین اس سے بھرپور انداز میں استفادہ کر سکیں گے۔
یہ کتاب ایم ایم آئی پبلشرز، دعوت نگر ، ابوالفضل انکلیو، نئی دہلی ۔110025
یا اسلامک بک فاﺅنڈیشن، حوض سوئیوالان، نئی دہلی ۔110002سے طلب کی جاسکتی
ہے۔ |