پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی
میں تمام تر حکومتی دعوؤں کے باوجود خون ریزی اور قتل و غارت گری کا سلسلہ
تھمنے میں نہیں آرہا۔ 27 مارچ کو متحدہ قومی موومنٹ کے دو کارکنوں کے قتل
کے بعد، شروع ہونے والی پر تشدد کاروائیاں تاحال جاری ہیں۔ ایم کیو ایم نے
منگل کے روز یوم سوگ منایا تو جمعرات کو اے این پی نے اپنے کارکن کے قتل پر
سوگ کا اعلان کیا۔ جمعے کو دہشت گردی کے واقعات میں ایک بار پھر تیزی آگئی
اور ایک دن میں14 افراد بدامنی کی نذر ہوگئے۔ جس کے بعد ایم کیو ایم نے
ہفتے کو پھریوم سوگ منانے کا اعلان کیا، جس پر شہر کے کاروباری، تجارتی
مراکزاور تعلیمی ادارے بند رہے۔
سیاسی کارکنوں کاقتل یقینا قابل افسوس و مذمت ہے لیکن اس کے رد عمل میں
پورے شہر کو بند کرواکر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا اور درجنوں افراد کو
مارکر جلاﺅ گھیراﺅ سمیت سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانا کہاں کا انصاف
ہے؟ شہر قائد میں کافی عرصے سے آگ و خون کایہ کھیل کھیلا جارہا ہے، جس نے
عوام پر عرصہ حیات تنگ کردیا ہے۔تادم تحریر بھی ہر طرف قاتلوں کا راج ہے
اور شہری گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ غریب مزدوروں کے چولہے ٹھنڈے
پڑگئے ہیں۔ معمولات زندگی درہم برہم اور دہشت گرد دندناتے پھررہے ہیں، مگر
قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بسی سے تماشا دیکھنے میں مصروف ہیں۔ ایسا
لگتا ہے کہ ظلم و جبر کا ایک طوفان ہے جو سب کچھ بہالے جائے گا۔
یوں تو کراچی میں ایک دن میں نصف درجن اموات معمول کا حصہ ہیں اور لوگ اب
اس کے عادی بھی ہوگئے ہیں، لیکن گزشتہ کئی روز سے دہشت گردی اور پر تشدد
واقعات میں تیزی کی لہر دیکھنے میں آئی ہے۔ مارچ کا مہینہ گزشتہ سات ماہ کے
دوران سب سے زیادہ خون ریز ثابت ہواہے، جس میں اب تک 82 افراد لقمہ اجل بن
چکے ہیں۔ ان میں ایم کیو ایم، اے این پی کے عہدے داروں سمیت، وکیل، پولیس
اہل کار اور عام شہری بھی شامل ہیں۔ جب کہ فروری میں 45 اور جنوری میں 32
افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس شہر میں جاری تشدد اور بد امنی
کی وجہ سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو گزشتہ چند روز کے دوران محصولات کی
وصولی میں 18 سے 20 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
حقیقت یہ ہے کہ اہلیان کراچی حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کی سیاسی
کشیدگی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ صدر مملکت آصف علی زرداری کراچی پہنچ گئے
ہیں۔انہوں نے کراچی کی بگڑتی ہوئی امن وامان کی صورت حال پر اعلیٰ سطحی
اجلاس طلب کر لیا ہے۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے بھی کراچی میں جاری بدامنی کا
نوٹس لیتے ہوئے بلا امتیاز کارروائی کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں ،مگر اس
قسم کے رسمی بیانات سے بدامنی کے واقعات کے آگے بندھ نہیں باندھا
جاسکتا۔علاوہ ازیں چند بڑے سیاسی اجتماعات کے انعقاد سے ہمیں یہ نہیں
سمجھنا چاہیے کہ کراچی دہشت گردوں کے نرغے سے آزاد ہوگیاہے۔ کراچی میں
پائیدار امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ پورے شہر میں بلااستثناآپریشن
کرایا جائے ۔اس حوالے سے بے لاگ احتساب وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ،مگر
ہمارے ارباب اختیار اپنے ذاتی مفادات کے لیے چُپ سادھے ہوئے ہیں۔ کراچی کے
مسئلے پر قومی سیاسی جماعتوں اور حکومت کی یکسر لاتعلقی کا رویہ پریشان کن
ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں سمیت ہمارے سیاسی راہ نماﺅں نے بے حسی
کی چادر اوڑھ کر اس شہر بے اماں کے باسیوں کو قاتل درندوں کے رحم و کرم پر
چھوڑ دیا ہے۔ یہ صورت حال ہمارے لیے افسوس ناک ہے۔ آج خون مسلم اس سرزمین
پر اتنا سستا ہوگیا ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ کب کون اس ظلم کا شکار
ہوجائے۔
اس قدر سنگین حالات میں 30 مارچ کا دن بھی کرب ناک ماضی تازہ کرتا ہوا
آکرگزرہی گیا۔ جی ہاں! 30 مارچ وہ ہی دن ہے کہ جس میں اس مسلم ملک کی ایک
عفت مآب بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو گرفتار کرکے امریکی درندوں کے حوالے کیا
گیاتھا۔ اس واقعے کو 9 برس مکمل ہوگئے ،مگر ہم اپنی ایک مسلمان بہن
کوکافروں کے چنگل سے چھڑا نہ سکے۔ کراچی کے دگرگوں حالات کے باوجود جمعے کے
روز جماعت اسلامی، ڈاکٹر عافیہ موومنٹ، پاسبان اور ہیومن رائٹس نیٹ ورک کے
زیر اہتمام شہر کے مختلف علاقوں میں ریلیاں نکالی گئیں، جس میں مقررین نے
ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ اس موقع پر فوزیہ صدیقی کا کہناتھاکہ
آج کراچی سے کاروان غیرت کا آغاز کردیا جو پورے ملک میں احتجاج کرے گا۔
ہماری سیاسی جماعتوں کو اب سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے ڈاکٹر عافیہ
صدیقی کی رہائی کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ قدرت نے ہمیں ایسے کئی
مواقع عطا کیے جب ہم امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرببانگ دہل عافیہ کی
رہائی کی بات کرسکتے تھے ،لیکن افسوس کہ ہمارے حکمرانوں کی غیرت ان کے ضمیر
کی طرح سوچکی ہے۔ امریکی حکم ران ہمارے ملک میں ہی تین پاکستانیوں کے قاتل
ریمنڈ ڈیوس کو چھڑالے گئے اور ہم اپنی بہن (جس پر صرف امریکیوں پرگولی
چلانے کا نام نہاد الزام ہے) کے لیے کچھ بھی نہ کرسکے۔ ہم اپنی بے بسی کا
تماشا ہی دیکھتے رہ گئے۔ ہمارے ذمہ داران کی لاپرواہی کے باوجود درد دل
رکھنے والے مسلمان عافیہ کے غم میں بے چین ہیں۔ انہوں نے اپنی بے کسی و بے
بسی کے باوجود خون سے رنگین کراچی کی سڑکوں پر نکل کر اپنا احتجاج ریکارڈ
کرایا۔ قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کو امریکی قید و بند کی صعوبتیں برداشت
کرتے کرتے نوبرس ہوگئے ،مگر ہمارے حکمرانوں کی بے حسی میں کوئی فرق نہ آیا۔
وہ عافیہ جو اس ملت کی ایک قابل فخر بیٹی ہے، وہ عافیہ جو کینسر جیسے مہلک
مرض کا شکار ہوچکی ہے اور ہمارے زخموں میں وہ زخم جس کا درد سب سے بڑھ کر
ہے ،اسی عافیہ کی رہائی کے لیے جمعہ کے روز کیا جانے والا احتجاج اس بات کا
ثبوت ہے کہ یہ بے بس عوام اپنی بہن کی رہائی کے کس قدر طلب گار ہیں۔ ہماری
سیاسی جماعتوں پر بھی ذمہ داری عایدہوتی ہے کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی
رہائی کے لیے کردار ادا کریں۔ |