صدارتی استثنا۔۔۔آرٹیکل 248 کا ایک جائزہ

تحریر: ظفر اعوان ایڈووکیٹ
سید یوسف رضا گیلانی نام کے شخص ،جو پاکستان کی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہیں ،نے سپریم کورٹ میں توہین عدالت کیس میں اپنا تحریری بیان جمع کراتے ہوئے، منجملہ دیگر ،یہ فرمایا ہے کہ۔۔۔۔
۔۔۔ سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کا فیصلہ صدر کو آئین کے تحت حاصل استثنا کی روشنی میں کیا گیا ہے۔صدر کو غیر ملکی مجسٹریٹ کے سامنے نہیں پھینکا جا سکتا۔صدر مملکت کے خلاف غیر ملکی عدالت میں مقدمہ نہیں چل سکتا ، اس لئے سات رکنی بنچ نے جو سوئس حکام کو خط لکھنے کا حکم دیا تھا ، اس کو واپس لیا جائے۔۔۔وغیرہ وغیرہ
وزیر اعظم صاحب کے اس بیان میں تین باتیں اہم ہیں :
(الف ) صدر کو آئین کے تحت استثنا حاصل ہے ،اس لئے خط نہیں لکھا جا سکتا ،
( ب )صدر کو غیر ملکی مجسٹریٹ کے سامنے نہیںپھینکا جا سکتا ، اور
( ج ) صدر مملکت کے خلاف غیر ملکی عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔

۔۔ صدر یا کسی دیگر ریاستی عہدیدار کو آئین کے تحت کیا کیا استثناءحاصل ہیں ؟ ان کا ذکر کرنے سے پیشتر ، یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا ایسا کوئی استثنا ءجسے claim یا pleadکیا جا رہا ہے ،آئین کی کسی دفعہ یا شق میں میں دو اور دو چار کی طرح ، واضح اور غیر مبہم انداز میں موجود ہے ؟اور وہ کسی عدالتی تشریح یا تاویل کا متقاضی تو نہیں ؟اور اگر بالفرض آئین کی کسی دفعہ میں expressly یا impliedly ایسے کسی استثنا یا immunity کاذکرموجود نہیں تو کیا کوئی متاثرہ شخص یا کوئی دوسرا شخص ( خواہ وہ اس متاثرہ شخص کا وکیل ہی کیوں نہ ہو )ایسے کسی استثناءیا تحفظ کو از خود presume کرکے کسی عدالتی حکم کی تعمیل سے انکار کرسکتا ہے ؟ یا عدالت کو اس امر پر مجبور کرسکتا ہے کہ آئین کی جو تاویل وہ کر رہا ہے ، اسے درست تسلیم کرکے اس کے واضح انکار کو سند جواز عطا کردی جائے ؟

وزیر اعظم اور ان کے وکیل کا سارا استدلال ، تمام تاویلیں اور تمام تشریحات ، بادی النظر میں ہی ،آرٹیکل 248 کے دائرہ کار اور سکوپ سے باہر ہیں۔ عدالت عظمیٰ کا حکم محض یہ تھا کہ
۔۔۔ وزیر اعظم سوئس حکام کو خط لکھیں۔۔۔۔

وزیر اعظم ، عدالت عظمیٰ کے اس حکم کے بلا چون و چرا ،آئین کے آرٹیکل 190کے تحت ، تعمیل کے پابند تھے ، جو غیر مبہم اور واضح انداز میں یہ کہتا ہے :
190۔پورے پاکستان کے تمام حکام عاملہ و عدلیہ ، عدالت عظمیٰ کی معاونت کریں گے۔۔

ایساکرنا ان کے لئے اس لئے بھی لازم تھا کہ انہوں نے آئین کے ّآرٹیکل91(4) کے تحت ، منجملہ دیگر ، ان باتوں کا حلف اٹھا رکھا ہے کہ:
بحیثیت وزیر اعظم پاکستان ، میں اپنے فرائض و کارھائے منصبی ایمانداری ، اپنی انتہائی صلاحیت اور وفاداری کے ساتھ ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور اور قانون کے مطابق ، اور ہمیشہ پاکستان کی خود مختاری ، سالمیت ، استحکام ، بہبودی اور خوشحالی کی خاطر انجام دوں گا ،۔۔۔۔۔۔

دستور اور قانون کے مطابق اپنے فرائض اور کارھائے منصبی سرانجام دینے کے علاوہ ، وزارت عظمیٰ تو درکنار ، خود اسمبلی کی رکنیت کا تسلسل ، آئین کے آرٹیکل 63 کی پابندی سے مشروط ہے ، جو یہ کہتاہے:
(63 1 )کوئی شخص مجلس شوریٰ ( پارلیمنٹ ) کے رکن کے طور پر منتخب ہونے یا چنے جانے اور رکن رہنے کے لئے نا اہل ہوگا ، اگر۔۔۔
(a )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(b)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(c)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(d)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( e )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( f )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( g )وہ کسی ایسی رائے کی تشیر کر رہا ہو یا کسی ایسے طریقے پر عمل کر رہا ہو جو نظریہ پاکستان یا پاکستان کے اقتدار اعلیٰ، سالمیت یا سلامتی یا اخلاقیات ، یا امن عامہ کے قیام یا پاکستان کی عدلیہ کی دیانتداری یا آزادی کے لئے مضر ہو ، یا جو پاکستان کی مسلح افواج یا عدلیہ کو بدنام کرے یا اس کی تضحیک کا باعث ہو ؛یا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیر اعظم کا رویہ آئین کے محولہ بالا ان تینوں آرٹیکلز کا منہ چڑا رہا ہے۔صدر کے استثناکے حوالے سے انہوں نے ( یا ان کے وکیل نے ) جو موقف اپنایا ہے ، اس کی پشت پر تو آئین کی کوئی دفعہ یا شق نہیں ( اور اگر بظاہر نہ ہو توآرٹیکل 248 کی کوئی تاویل صرف عدالتی فیصلے کی صورت میں قابل قبول ہے ، کیونکہ آئین کی تشریح ، صدر ، وزیر اعظم ، پارلیمنٹ یا کسی بھی دوسرے ادارے کا کام نہیں ، صرف اور صرف اعلیٰ عدلیہ کا کام ہے ، پارلیمنٹ آئین بنا سکتی ہے ، اس میں ترمیم و تغیر کر سکتی ہے لیکن تشریح نہیں کر سکتی۔۔اس کے برعکس عدلیہ نہ صرف تشریح کرسکتی بلکہ ایسی کسی قانون سازی کو strike down بھی کرسکتی ہے )لیکن ان کے انکار کے حوالے سے واضح آئینی دفعات موجود ہیں جو کسی تاویل کی محتاج نہیں۔جب کوئی شخص بار بار اور واضح طور پر یہ کہتا ہے کہ میں عدالت عظمیٰ کے حکم کی تعمیل نہیں کروں گا ( اور اس انکار کے لئے اپنے دلائل دے کر اپنے انکار اور موقف پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے ) تو وہ اپنی نا اہلی کے پروانے پر بذات خود دستخط کرتا ہے اور الیکشن کمیشن کا کام ،ایسی صورت میں ، کوئی انکوائری کرنا نہیں بلکہ محض اس کے نا اہل ہونے کا نوٹیفکیشن جاری کرنا ہے۔

صدر کے استثنا کے حوالے سے جو دو دلیلیں دی گئی ہیں ،وہ اثبات کی بجائے ، استثنا کی نفی کرتی ہیں۔پہلی دلیل ہے کہ صدر کو غیر ملکی مجسٹریٹ کے سامنے نہیں پھینکا جاسکتا اور دوسری دلیل ہے کہ صدر کے خلاف غیر ملکی عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ان دلائل کا بوداپن اس بات سے ظاہر ہے کہ (۱) آئین ایسی کسی بات کی ضمانت نہیں دیتا ، اور(۲) ایسی کوئی ضمانت اگر بالفرض موجود ہو بھی یا presume کی جا سکتی ہو تو وہ بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے۔ پاکستان تو بین الاقوامی قوانین کا پابند ہے لیکن کوئی دوسرا ملک پاکستان کے آئین یا قوانین کا پابند نہیں۔ اگر عالمی عدالت میں عمر البشیری کی طرح ، صدر زرداری کے خلاف مقدمہ چلے تو کیا پاکستان یہ موقف اپنائے گا کہ ہمارے آئین میں اس بات کی گنجائش نہیں ؟

اب ایک نظر ، آرٹیکل 248 پر ، یہ آرٹیکل کہتا ہے :
248 ( 1 )۔صدر ، کوئی گورنر ، وزیر اعظم ، کوئی وفاقی وزیر ، کوئی وزیر مملکت ، وزیر اعلیٰ اور کوئی صوبائی وزیر اپنے متعلقہ عہدے کے اختیارات استعمال کرنے اور اس کے کارہائے منصبی انجام دینے کی بنا پر ، یا کسی ایسے فعل کی بنا پر جو ان اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اور کارہائے منصبی انجام دیتے ہوئے کئے گئے ہوں یا جن کا کیا جانا مترشح ہو ، کسی عدالت کے سامنے جوابدہ نہیں ہوں گے ،مگر شرط یہ ہے کہ اس شق میں کسی امر سے کسی شخص کے وفاق یا صوبے کے خلاف مناسب قانونی کاروائیاں کرنے کے حق میں مانع ہونے کا مفہوم اخذ نہیں کیا جائے گا۔
( ) صدر یا کسی گورنر کے خلاف اس کے عہدے کی میعاد کے دوران کسی عدالت میں کوئی فوجداری مقدمات نہ قائم کئے جائیں گے اور نہ جاری رکھے جائیں گے۔
( )صدر یا کسی گورنر کے عہدے کی میعاد کے دوران کسی عدالت کی طرف سے اس کی گرفتاری یا قید کے لئے کوئی حکم جاری نہیں ہوگا۔
( )صدر یا کسی گورنر کے خلاف ، خواہ اس کے عہدہ سنبھالنے سے پہلے یا بعد میں اس کی ذاتی حیثیت میں کسی فعل کے کرنے یا نہ کرنے سے متعلق ، اس کے عہدے کی میعاد کے دوران کوئی دیوانی مقدمہ جس میں اس کے خلاف داد رسی چاہی گئی ہو ، قائم نہیں کیا جائے گا ، تا وقتیکہ مقدمہ قائم ہونے سے کم از کم ساٹھ دن پیشتر اس کو تحریری نوٹس نہ دیا گیا ہو یا قانون کے ذریعے مقررہ طریقے کے مطابق نہ بھیجا گیا ہو جس میں مقدمہ کی نوعیت ، کاروائی کی وجہ ، اس فریق کا نام ، کیفیت اور جائے رہائش جس کی جانب سے مقدمہ قائم ہو نا ہے اور دادرسی جس کا دعویٰ وہ فریق کرتا ہو ،درج ہو۔

متذکرہ آرٹیکل کے جائزے کے حوالے سے ،محمد صلاح الدین شہید کی کتاب۔۔ بنیادی حقوق۔۔ سے ایک اقتباس نقل کرنا ، مفید ہوگا :
(۲)احتساب بذریعہ عدالت
اسلامی ریاست کے سربراہ کو عدلیہ کے مقابلے میں کوئی تحفظ ( immunity ) حاصل نہیں ہے اسے عام شہریوں کی طرح عدالت میں طلب کیا جا سکتا ہے اور ایک عام شہری اس کے خلاف مقدمہ دائر کرسکتا ہے۔
خلیفةالمسلمین حضرت عمر اور حضرت ابی بن کعب کے درمیان کسی معاملہ میں تنازع ہوا۔حضرت ابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے قاضی مدینہ زید بن ثابت کی عدالت میں مقدمہ دائر کردیا۔عدالت سے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حاضر ہونے کا حکم جاری ہوا۔وہ حاضر ہوئے مگر گواہ نہ ان کے پاس تھا نہ مدعی کے پاس۔قاعدہ کے مطابق حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو قسم کھانا تھی۔حضرت ابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس کے لئے تیار ہیں تو انہوں نے اپنا دعویٰ واپس لے لیا۔

حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک نصرانی کو بازار میں اپنی زرہ فروخت کرتے دیکھا تو اس سے کہا زرہ میری ہے۔اس کے انکار پر مقدمہ قاضی شریح کی عدالت میں پیش ہوا۔انہوں نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے شہادت طلب کی ، وہ پیش نہ کرسکے۔چنانچہ فیصلہ نصرانی کے حق میں سنا دیا گیا اور خود حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اسے قبول کرتے ہوئے فرمایا : شریح تم نے ٹھیک فیصلہ کیا۔فیصلہ سن کر نصرانی حیرت زدہ رہ گیا اور بولا ،۔۔ یہ تو پیغمبرانہ عدل ہے کہ امیر المومنین کو بھی عدالت میں آنا پڑتا ہے اور انہیں اپنے خلاف فیصلہ بھی سننا پڑتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ زرہ امیر المومنین ہی کی ہے ، یہ ان کے اونٹ سے گر گئی تھی ، میں نے اٹھا لی۔

عدلیہ کی یہ حیثیت دور بنی امیہ میں بھی باقی رہی۔عتبی کہتے ہیں کہ میں قاضی مدینہ محمد بن عمران کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے محافظ دستہ کا سربراہ اپنے ساتھ ابراہیم بن محمد کو لے کر آیااور کہا کہ امیر المومنین نے ایک تنازعہ میں جو ان کے اور ابراہیم کے درمیان ہے مجھے اپنا وکیل مقرر کر کے آپ کی عدالت میں بھیجا ہے۔قاضی صاحب نے کہا ، ثبوت پیش کرو کہ خلیفہ نے تمہیں اپنا وکیل مقرر کیا ہے۔اس نے کہا آپ سمجھتے ہیں میں نے غلط بیانی کی ہے ؟ قاضی نے نرمی سے کہا ، یہ بات نہیں ، بات قانون کی ہے ، جب تک شہادت نہیں ہوگی فیصلہ نہیں دیا جا سکتا۔اس نے جا کر خلیفہ ہشام کو اطلاع دی۔جو خود حاضر عدالت ہوا اور قاضی نے روداد مقدمہ سن کر فیصلہ خلیفہ کے خلاف دیا۔

قاضی محمد بن عمران ہی کی عدالت سے ایک اور مقدمہ میں خلیفہ منصور کے نام سمن جاری ہوا دعویٰ کچھ اونٹ والوں نے اپنے حق کے سلسلہ میں دائر کیا تھا۔قاضی صاحب نے سمن میں لکھا کہ یا تو ان لوگوں کو ان کا حق دے دو ورنہ عدالت میں حاضر ہوجاؤ! خلیفہ مسجد نبوی میں لگی ہوئی کھلی عدالت کے سامنے حاضر ہوا اور قاضی نے اونٹ والوں کے حق میں اور خلیفہ منصور کے خلاف فیصلہ دیا۔

ان نظائر سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی ریاست میں ایک عام آدمی عدالت میں مقدمہ دائر کرکے حکومت کے اعلیٰ ترین عہدیدار کو ملزموں کے کٹہرے میں لا سکتا اور اپنا حق وصول کرسکتا ہے۔عدالت کا یہ اختیار کہ وہ بڑے سے بڑے آدمی کو طلب کرسکتی ہے ، انتظامیہ پر اس کی گرفت اتنی مظبوط کردیتا ہے کہ محض عدالت میں طلبی کا خوف ہی ایک موثر محتسب کا کام دیتا اور لوگوں کے حقوق معرض خطر میں پڑتے۔( صفحات 223تا 225 ، بنیادی حقوق شائع کردہ ادارہ ترجمان القرآن لاہور۔دوسرا ایڈیشن )

پاکستان ، آئین کے آرٹیکل 2 کی رو سے ایک کلمہ گو ریاست ہے ، جس کے لئے ، اوپر نقل کردہ اقتباس میں ، بیان کردہ نظائر کی عدم پیروی یا ان سے انحراف کی کوئی گنجائش ہی نہیں اور آرٹیکل 2 الف ایسی تمام راہیں مسدود کردیتا ہے۔

آرٹیکل 248 کی تشریح کرتے ہوئے یہ دیکھنا پڑے گا کہ آرٹیکل 2 اور 2۔الف کے تقاضے اور مطالبات کیا ہیں ؟ کیا ان کی روشنی میں۔۔قانون کی نظر میں برابری۔۔کے اصول کو ، اسلامی ریاست کے سربراہ کی صورت میں ( جس کے اولیں سربراہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمان قیامت تک کے لئے مشعل راہ ہے کہ خدا کی قسم ! اگر فاطمہ بنت محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ھاتھ کاٹ دیتا )معطل کرنا پڑے گا ؟اور کیا عام شہریوں کے مقابلے میں اسلامی ریاست کے سربراہ کو کسی نوع کا کوئی بھی تحفظ ( immunity )حاصل ہے ؟

مذکورہ بالا دونوں آرٹیکلز ، نہ صرف آئین کے بنیادی خد و خال( basic fratures ) کی تشکیل کرتے ، بلکہ اسے کنٹرول کرتے ہیں اور اگر آئین کی کوئی دفعہ یا شق ان سے متصادم ہو تو وہ براہ راست آئین سے متصادم ہے۔اس کسوٹی ( touch stone ) پر آرٹیکل 248 کو پرکھا جائے تو کیا صورت حال سامنے آئے گی ،آئیے ، یہ دیکھتے ہیں۔

اس آرٹیکل کی ذیلی دفعہ 1کے تحت صدر ، گورنر ، وزراءوغیرہ کو اپنے اختیارات کے استعمال کی بنا پر ، عدالت کے سامنے جوابدہ ہونے سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے لیکن کسی شخص کو وفاق یا صوبے کے خلاف مناسب قانونی کاروائی کا حق بہر حال حاصل ہے۔اس ذیلی دفعہ کا واضح مفہوم یہ ہے کہ مذکورہ بالا عہدیداران اپنے اختیارات کے استعمال کے دوران آئین کو پس پشت رکھ دیں ، قوانین کی مٹی پلید کر کے رکھ دیں لیکن وہ ذاتی حیثیت میں عدالت کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں۔۔ اور۔۔ ان کی بد اعمالیوں اور کرتوتوں کی جواب دہی وفاق اور متعلقہ صوبے کو کرنی ہو گی اور سزا بھی وہ ہی بھگتیں گے !یہ ذیلی دفعہ واضح طور پر آئین کے بنیادی اور مجموعی خد و خال کے منافی ہے۔ جواب دہی ، نمائندگی اور ذمہ داری کا جزو لاینفک ہے ، عوام آئین کے تحت اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں نہ کہ مطلق العنان حکمران !اگر وہ عدالت کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں تو شہریوں پر سے سننے اور اطاعت کرنے کا فرض ساقط ہو جاتا ہے۔

ذیلی دفعہ 2 مذکورہ دفعہ سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے ، اگر کوئی صدر یا گورنر منتخب ہونے سے پہلے قتل و غارت ، چوری ڈکیتی اور وسیع پیمانے پر لوٹ مار کی کاروائیوں میں ملوث تھا اور اس نے الیکشن کمیشن کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور پیسے کے زور پر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر خود کو منتخب کرا لیا اور پھر ( ملک و قوم کی بد قسمتی سے ) ایسے مناصب جلیلہ پہ فائز ہو گیا تو مذکورہ حرکتوں کے سبب اس کے خلاف جہاں کہیں بھی جتنے مقدمات تھے وہ ٹھپ ہو جائیں گے۔۔۔ آئین کا کتنا خوبصورت منشا ہے کہ میں کسی بینک میں ڈاکہ ڈال کر دس کروڑ یا دس ارب لوٹ لوں ، مجھ پر مقدمہ قائم ہو جائے ، میں اس کے باوجود الیکشن لڑوں ، جیت جاؤں ، وہی رقم خرچ کر کے ووٹ خریدوں اور صدر بن جاؤں۔۔۔۔ میرے خلاف کوئی مقدمہ جاری نہیں رہ سکے گا ، میں دھویا گیا ، پاک صاف ہوگیا ! اب میں آزاد ہوں ، سارے ملک کو لوٹ کر دولت بیرونی بینکوں میں جمع کرادوں ، میں کسی عدالت کے سامنے جواب دہ نہیں ! آئین میں ایسی کسی دفعہ کی شمولیت خود آئین کے لئے بھی باعث شرم ہے !

اس آرٹیکل کی تیسری ذیلی دفعہ کہتی ہے کہ کوئی عدالت کسی صدر یا گورنر کی گرفتاری یا قید کا حکم جاری نہیں کرسکے گی جب تک کہ وہ صدر یا گورنر ہیں۔۔ یعنی ایک عام شہری تو جس وقت جرم کا ارتکاب کرے اسی وقت اسے گرفتار بھی کر لیا جائے اور قید بھی کردیا جائے۔۔ لیکن اس آسمانی مخلوق کو کچھ نہ کہا جائے۔۔ بھلے بعد میں پھانسی دے دی جائے !اگر دوران عہدہ جواب دہی کا اہتمام ہوتا تو مسٹر بھٹو کبھی پھانسی نہ چڑھتے !یہ دفعہ بھی پہلی دفعات کی طرح مضحکہ خیز ہے۔

چوتھی ذیلی دفعہ بھی عجیب و غریب ہے کہ پہلے کوئی متاثرہ شخص صدر یا گورنر کو مطلع فرمائے کہ حضور ! اگر آپ برا نہ منائیں تو میں آپ کے خلاف ایک عدد دیوانی مقدمہ دائر کرنا چاہتا ہوں ! یہ اطلاع بھی وہ ساٹھ روز پہلے دے ! تاکہ لاپتہ افراد کے کیس میں ایک اور کیس کا اضافہ ہو سکے!

آرٹیکل 248 کی چاروں ذیلی دفعات ، کسی طرح بھی آئین کے بنیادی خد و خال سے مطابق نہیں رکھتیں بلکہ واضح طور پر ان سے متعارض اور متصادم ہیں اور ان پر عمل درآمد کی صورت میں تمام شہری آئین کی پابندی سے آزاد ہو جاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی معصیت میں کوئی اطاعت نہیں اور عدالتیں ایسی دفعات یا شقوں کو ignore اورimplement نہ کرنے کی پابند ہیں ، انہیں آئین کے منافی اور متصادم قرار دینے کا اختیار بہر حال بدرجہ اتم ان کے پاس موجود ہے۔وزیر اعظم صاحب جس استثنائ کا ذکر فرمارہے ہیں ، اسے انہیں بین الاقوامی قانون میں تلاش کرنا ہوگا ،اگر بین الاقوامی قانون میں ایسی کوئی شق موجود ہے کہ کسی ملک کے صدر کو کسی دوسرے ملک کے مجسٹریٹ کے سامنے نہیں پھینکا جا سکتا یا اس پر کسی دوسرے ملک کی عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا تو پھر تو پاکستان کو ایسے کسی بین الاقوامی قانون کا نہ صرف احترام بلکہ اس کی پابندی کرنی ہوگی ، لیکن اگر ایسا نہیں ( اور یقینا ایسا نہیں ) تو پھر عدالت کے حکم کی تعمیل بھی کرنا ہوگی اور خط بھی لکھنا ہوگا۔۔ اور۔۔ اگر انہیں مرتبہ شہادت پر فائز ہونے کی آرزو ہے تو جانشین کو بھی یہی کچھ کرنا ہوگا ، الا یہ کہ ساری حکومت یا متعلقین کو آرٹیکل 63 کے تحت فارغ کردیا جائے ، توہین عدالت کے تحت کاروائی تو بہت بعد کی بات ہے-
Mumtaz Haider
About the Author: Mumtaz Haider Read More Articles by Mumtaz Haider: 88 Articles with 70664 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.