فتوحات اتوار بازار۔بیان م حسن لطیفی و ظفر اقبال کا

یکم اپریل۔ ۲۱۰۲

شہر کراچی کے حالات کے برعکس پرانی کتابوں کا اتوار بازار حسب معمول مہربان رہا، احباب صبح صبح پہنچ جاتے ہیں، ایک دوسرے کو کتابوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے، بازار میں رکھی کوئی کتاب کسی ایک کے پاس پہلے سے موجود ہو تو دوسرے کو اسے خریدنے کا مشورہ دیتے ہوئے، کسی دوسرے کو درکار کتاب فراغ دلی سے فوٹو کاپی یا اسکیننگ کے لیے فراہم کرتے ہوئے۔ گھر سے نکلا تو رستے میں عابدہ رحمانی صاحبہ یاد آئیں جنہوں نے مہینہ بھر قبل انٹرنیٹ پر موجود ’ بزم قلم ‘ نامی ایک ادبی فورم پر شامل کی گئی ایک روداد کے جواب میں کہا تھا کہ بھارت میں ٹنڈلکر اور پاکستان میں پیٹرول اور ڈالر سو کا ہندسہ عبور کرجائے تو آگاہ کرنا۔ اب انتظار ڈالر کا ہے کہ بقیہ دو تو منزل پر پہنچ کر شاد ہوئے ہیں لیکن دم پھر بھی نہیں لیا، مزید آگے جانے کا ادارہ رکھتے ہیں۔ علی گڑھ سے کراچی آئی پروفیسر صاحبہ آج صبح عازم وطن ہوئیں، ان کے قیام کے دوران کراچی کے حالات اچھے نہ رہے ، پروفیسر صاحبہ کے ارادوں میں کھنڈت پڑتی رہی ، ادھر میں فون پر ان کی ڈھارس بندھاتا تھا کہ یہ تو ’معمول ‘ کی بات ہے ، ہمارے لیے تو اسے معمول بنے کئی برس گزر چکے ہیں۔ حضرت صبا اکبر آبادی نے برسوں پہلے شعر کہا تھا :
یہ ہمیں ہیں کہ ترا درد چھپا کر دل میں
کام دنیا کے بدستور کیے جاتے ہیں
اہل کراچی تمام تر خدشوں کے باوجود اپنے کام بدستور کیے جاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس مرتبہ ایک بہت کمال کی کتاب ہاتھ لگی ہے، یہ ہے " ناصر کاظمی-ایک دھیان"مصنف: شیخ صلاح الدین، انیس سو بیاسی میں شائع ہوئی تین سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب لاہور سے شائع ہوئی تھی، اس کا ذکر بہت سنا تھا۔" ناصر کاظمی-ایک دھیان" یاد نگاری کا بہترین مرقع ہے، شیخ صاحب نے موضوع کا حق ادا کردیا ہے۔کتاب کو احباب کے لیے اسکین کررہا ہوں، ایک ممکنہ طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ احباب کے ’برقی آڈرز‘ موصول ہوں اور کتاب جہاں ہے جیسے ہے کی بنیاد پر روانہ کردی جائے۔یاد رہے کہ محدود تعداد میں کاپیاں ہونے کے سبب پہلے آئیے اور پہلے پائیے کے زریں اصول پر عمل کیا جائے گا لہذا اپنے آرڈز ابھی سے بکُ کرالیجیے۔

ناصر کاظمی پر بہت کم کتابیں لکھی گئی ہیں، ایک حالیہ ملاقات میں ہم نے یہ گلہ انتظار حسین صاحب سے کیا کہ ان کی خودنوشت چراغوں کا دھواں میں ناصر کاظمی کا ذکر دلنواز ہے تو سہی لیکن ایک تشنگی پھر بھی باقی رہ گئی ہے۔انتظار صاحب نے انکشاف کیا کہ وہ ان دنوں اپنے عزیز از جان دوست ناصر کاظمی پر ایک کتاب لکھنے میں مصروف ہیں۔
 

image

" ناصر کاظمی-ایک دھیان" کے مصنف شیخ صلاح الدین کا ذکر چراغوں کا دھواں میں انتظار صاحب نے بھی کیا ہے:
آ شیخ صلاح الدین
جا شیخ صلاح الدین
پنجابی میں وہ بولا
پا شیخ صلاح الدین

مذکورہ تک بندی حفیظ ہوشیار پوری کے ذوق سخن کا نتیجہ ہے جو ہر کس و ناکس کو دیکھتے ہی رواں ہوجاتے تھے، مبارک احمد پر نظر پڑی تو پکار اٹھے :
اس کی خالہ کا ہو خدا حافظ
جس کا خالو ہے مبارک احمد
صفدر میر کو دیکھا تو شعر موزوں کیا:
دیکھیو نہ رہ جائے کوئی در کھلا
پھر رہا ہے شہر میں صفدر کھلا

ان دنوں ذکر حضرت ظفر اقبال کا ہے، کراچی کے ادبی پرچے مکالمہ میں ’میر کے تاج محل کا ملبہ ‘ لکھ کر تو آپ پہلے سے زیادہ مشہور ہوگئے ہیں۔ اکثر یہ دیکھا ہے جس کسی کتاب ہا معلومات کی جب جب بھی خصوصیت سے ضرورت پڑی، انہی دنوں میں اتوار بازار سے مطلوبہ کتاب مل گئی ۔کچھ ایسا ہی اس بار بھی ہوا جب حضرت ظفر اقبال کا شعری مجموعہ ’ رطب و یابس‘ اتوار بازار میں رکھا نظر آیا۔ بانو قدسیہ کا کہنا ہے کہ ”ظفر اقبال کی شاعری دراصل ایک خوبصورت بٹن کی مانند ہے، ایک ایسابٹن جو لنڈے کے پرانے کوٹ سے اتار کر شہر کی سب سے دیدہ زیب عورت اپنے چمڑے کے چمکیلے کوٹ میں ٹانک لے‘ ، اس بٹن میں چار سوراخ ہیں اور تمنا کی ابتری کا مضبوط دھاگہ‘ ، بٹن کے ایک سوراخ میں اس کے زبان کے تجربات ہیں، دوسرے سوراخ سے گھروں کے اندر جھانکا جاسکتا ہے، تیسرے سوراخ سے گلابی مزاح کی دھوپ جھلکتی ہے اور چوتھا سوراخ بہت مہیب اور غم دیدہ ہے“

سبحان اللہ۔۔۔بانو آپا ، آپ کے کیا کہنے۔۔۔ لوگ انہی باتوں کی وجہ سے تو آپ پر اور اشفاق صاحب پر جان چھڑکتے ہیں۔ یہ بھی تو سوچیے کہ حضرت ظفر اقبال کی شاعری پڑھنے کے بعد ان کے بے بس و بے کس قاری کے سر میں جتنے سوراخ ہوئے ہیں ان کا مداوا کرنے والا کون ہے ؟

شہر کی سب سے دیدہ زیب عورت حضرت کی شاعری کا بٹن اپنے کوٹ میں جب بھی ٹانکے گی، گمان ہے کہ اسکا کوٹ چمکیلا ہرگز نہیں رہے گا، ہمیں تو آپ کا بیان کردہ دھاگہ تمنا کی ابتری کا کم اور تمنا کی افراتفری کا زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ رہا سوال چوتھے سوراخ کا جو آپ کا الفاظ میں "بہت مہیب اور غم دیدہ ہے“، تو عرض یہ ہے کہ یہی چوتھا سوراخ حضرت کی شاعری میں نمایاں اور بڑا نظر آتا ہے اور بعض نقادوں کی نظر میں سوراخ مذکورہ سے جناب شاعر کی شاعری اسی مہیب خلا میں جا گری ہے جس کا ذکر آپ کرچکی ہیں، رہ گئی غم دیدگی کی بات تو اس کے متاثرین میں جناب شاعر نہیں بلکہ ان کا قاری شامل ہے۔
 

image


فلیپ لکھنا تو ایک فیشن بن گیا ہے، ہندوستان کے ایک بہت پڑھے لکھے شخص نے آخری عمر میں کہا تھا کہ میں نے اپنی زندگی میں اب تک جتنی کتابوں پر فلیپ لکھے ہیں، میں ان سے دستبرداری کا اعلان کرتا ہوں۔ ذرا ملاحظہ تو کیجیے کہ کتاب میں دھرا کیا ہے :

ستر پوشی ہے قافیہ بندی
ہاں ذرا کس کے باندھیے شلوار
٭
سوچیے شعر کا نیا کوئی کوڈ
ساتھ چلتا نہیں ہے یہ بھی موڈ
٭
دھوپ سے کچھ بچاؤ رہتا ہے
سر پہ رکھتے ہیں شاعری کا ٹوپ
٭
خیر آپ بھی بدمعاش ہوں گے
میں ہوں ذرا مختلف لفنگا
٭
میں اتنا بدمعاش نہیں یعنی کھل کے بیٹھ
چبھنے لگی ہے دھوپ، سوئٹر اتار دے
٭

بانو قدسیہ اکیلی ہی نہیں ہیں ، انیس ناگی بھی کمر کس کے ان کی مدد کو پہنچے تھے ، کیوں نہ آتے کہ اپنے پرچے ’دانش ور ‘میں ظفر اقبال کی ’غزلاں‘ جو شائع کرتے تھے۔خامہ بگوش نے دانش ور میں چھپی ان کی ایک غزل کے یہ دو اشعار استاد لاغر مراد آبادی کو سنائے تھے:

جو آن کے ہمسائے ہمارے میں ر ہیں گا
تحقیق کہ خود ہی خسارے میں رہیں گا
اس گھر کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ وہ شوخ
ایک بار رہیں گا تو دوبارے میں رہیں گا

اور استاد گرامی نے یہ شعر سن کر فی البدیہہ فرمایا تھا:
ناگی نے جو چھاپیں ظفر اقبا ل کی غزلاں
جو ان کو پڑھیں گا وہ خسارے میں رہیں گا

اپنے قارئین کے لیے ہم نے ’رطب و یابس ‘ سے کچھ ’نمونے‘ پیش کیے ہیں، اب ملاحظہ کیجیے کہ انیس ناگی نے کتاب مذکورہ پر اپنی رائے دیتے ہوئے کیا ارشاد فرمایا ہے:
۔ظفر اقبال نے لفظ اور شے کا جو ربط دریافت کیا ہے اس کی بنیاد شخصی بو العجبی کے بجائے ایک تہذیبی تناظر سے دوسرے تہذیبی تناظر کی طرف روانگی کا سفر ہے۔ ظفر اقبال نے الفاظ کے عمومی رشتوں سے انقطاع کے ذریعے اپنی اپنی انفرادیت کا نقش قائم کیا ہے۔
۔ظفر اقبال نے ہمیں اپنے آپ کو اتنے قریب سے دکھایا ہے کہ خود اپنا وجود دیکھ کر گھن آتی ہے۔
۔رطب و یابس میں ظفر اقبال کا اردو غزل کی روایت کے بارے میں گہرا شعور جھانکتا ہے۔
۔ظفر اقبال نے غزل کے لسانی اسلوب میں ممنوعات کے استعمال سے گھٹن کی فضا کو ختم کیا ہے۔
۔اقبال کے بعد کی اردو غزل موضوعاتی اعتبار سے ڈانواں ڈول نظر آتی ہے، اس کی بے ہیئتی کو ظفر اقبال نے ایک طرح کا تیقن دیا ہے۔
۔رطب و یابس کے بغیر جدید غزل کا تصور تشنہ رہتا ہے۔

انیس ناگی بلکہ حضرت انیس ناگی اور بانو قدسیہ نے زیر موضوع کتاب کے تعریف میں جو نکات بیان کیے ہیں ،ان کو پڑھنے اور بعد ازاں یہاں درج کرنے کے دوران ہمیں ایک مرتبہ پھر اپنی سخن فہمی پر شبہ سا ہونے لگا ، اس شبے کو رفع کرنے کی غرض سے جی کڑا کرکے ایک مرتبہ پھر ’رطب و یابس ‘ پر ایک یاس بھری نظر دوڑائی، جو آبدار موتی ہاتھ لگے، پیش خدمت ہیں:
امید فصل ہو بنجر، قدیم بیویوں سے کیا
گھروں کو چھوڑیے اور کھیت میں غلہ اگائیے
٭
کچھ ترے بھائیوں نے مار رکھا
کچھ پڑیں اپنے گھر سے بھی ڈانگیں
روکو تو ہم کریں گے دنگا
بن جائے گا بات کا بتنگا
٭
میں ہوں، ظفر، اوکاڑہ ہے اور خوف کی خوش بو
دشمن ہے تو پنڈی سے بھی آ مجھ کو ملے گا
٭
جس نے چوری کی تھی سو پچاس پر چھوڑا اسے
جو سڑک پر جارہا تھا اس کو اندر کردیا
٭
ٹانگیں توڑی ہیں ڈاکوؤں نے
سر میں بھی کھلا ہوا ہے کھپا
٭
دی ہیں یہ گاجریں خدا نے
رکھ ہاتھ میں صبح و شام رمبا
سو میل ابھی پڑا ہے ملتان
ملتان سے آگے ہے تلمبا
٭
خصی ہوں خیال و خواب جن کے
دل کیوں نہ ہو ان کا بے امنگا
٭
دیر ہوجائے گی ، نہالیں اب
حسرتوں کا بھرا رکھا ہے ٹب
٭
پلےِ ہی، ظفر، ہیں اس طرح کے
کتیاُ تو نہیں تھی ڈب کھڑبی
٭
مندرجہ بالا اشعار کو پڑھنے کے بعد ہم اپنے قارئین سے رطب و یابس کے متعلق انیس ناگی اور بانو قدسیہ کے ارشادات کو دوبارہ پڑھنے کی استدعا کریں گے۔ آخر میں رطب و یابس میں درج حضرت ظفر اقبال کے اس شعر پر یہ تذکرہ ختم سمجھا جائے:
 

image


خاتم الشعراءہمیں مانیں نہ مانیں وہ ، ظفر
شاعری کے دین کو ہم نے مکمل کردیا

فتوحات اتوار بازار میں ایک کتاب لطیفیات (جلد اول و دوم)بھی شامل ہے۔اس کے مصنف اردو کے دانشور، صحافی، شاعر م حسن لطیفی ہیں۔ لطیفیات ان کی شاعری کا مجموعہ ہے جو سن انیس سو اٹھاسی میں لاہور سے شائع ہوا تھا۔ لطیفیات کی جلد اول یکم جولائی 1928 کو رفیق ِعام پریس لاہور سے شائع ہوئی تھی جبکہ جلد دوم یکم فروری 1935 کو شاطو پریس ، لدھیانہ سے شائع ہوئی۔ م حسن لطیفی ہفت روزہ مطالعہ مرتب کرتے تھے اورسارا پرچہ اول تا آخر خود تحریر کرتے تھے۔ بقول صادق الخیری ’ ’ان کا اخبار سولو جرنلزم کا پہلا اور آخری پرچہ تھا، جدید آزاد نظم کے پیش روؤں میں ڈاکٹر تصدق حسین خالد اور ن م راشد کا نام آتا ہے مگر م حسن لطیفی نے بہت پہلے اور بڑے اہتمام سے اس صنف کو روشناس کرایا تھا۔“

آج سے 83 سال قبل م حسن لطیفی (محمد حسن لطیفی) نے ایک شعر کہا تھا جو ’ناتمام غزل ‘کے عنوان کے تحت علی گڑھ میگزین میں جنوری 1929 میں اور لدھیانہ کے جریدہ مطالعہ کے 28 اکتوبر 1933 کے شمارے میں شائع ہوا۔ شعر زبان زد عام ہوا اور آج بھی ہے:

وابستہ میری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں
اچھاہوا جو مجھ کو فراموش کردیا
ناتمام غزل کے مزید اشعار ملاحظہ ہوں:
مضراب آرزو سے ذرا دل کو اور چھیڑ
کیوں مطرب اس رباب کو خاموش کردیا
رگ ہائے ماہتاب نے ٹپکا کے خون ناب
آسودہ موجِ بادہ کو سرِجوش کردیا
آیا جو نیم ہوش میں مخمورِ چشمِ مست
پھر جرعہ ِنگاہ سے مدہوش کردیا
وابستہ میری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں
اچھاہوا جو مجھ کو فراموش کردیا

م حسن لطیفی، قبرستان میانی صاحب میں آسودہ خاک ہیں۔ وہ لدھیانہ سے تعلق رکھتے تھے۔ یوں تو کئی ادیبوں نے ان کی پہلو دار شخصیت پر لکھا ہے جن میں جناب اے حمید نمایاں ہیں لیکن چند برس قبل شائع ہونے والی اردو کے ادیب و افسانہ نگار انتظار حسین کی خود نوشت چراغوں کا دھواں میں لطیفی صاحب کا ذکر ایک منفرد انداز میں ملتا ہے۔ لطیفی صاحب 11 دسمبر 1905 کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے ڈپلومہ حاصل کیا تھا۔ یورپ سے واپسی ہر وہ اپنے ہمراہ بیس ہزار کتابیں لائے تھے۔ وہ فرانس کے ایک روزنامے Le Petit Nicois Nice کے پنجاب میں نمائندے تھے۔ انہیں پنجابی، اردو، فرانسیسی، انگریزی، جرمن، اطالوی، عربی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ وہ کئی اہم کتابوں کے علاوہ تین سو نظموں اور پچھتر انگریزی مقالات کے مصنف تھے۔16 جولائی 1930 کے انقلاب میں م حسن لطیفی ،حضرت ساغر سیمابی کی ایک نظم پر تنقید کرتے ہوئے انہیں للکار بیٹھے تھے
:

image


اے ساغر سیمابی
اچھی نہیں قصابی
تو شعر نہ لکھا کر

علم ودانش کایہ پیکر آخری دنوں میں کسی دماغی خلل میں مبتلا ہوگیا تھا۔ لدھیانہ کے ایک صاحب حیثیت گھرانے سے تعلق رکھنے والے م حسن لطیفی صاحب آخری عمر میں لاہور کی سڑکوں پر سرگرداں نظر آتے تھے اور ایک مجنونانہ کیفیت ان پر طاری رہتی تھی۔ انتظار حسین لکھتے ہیں :
" پاک ٹی ہاوس کا دروازہ کھلتا ہے اور ایک نرالی شخصیت نمودار ہوتی ہے۔ لمبا لگ لگ، بدن سینک، سلائی۔بر میں ہرے رنگ کا کوٹ۔گم سم۔ خاموشی سے آکر بیٹھ جاتے ہیں
" لطیفی صاحب! چائے پیجیے گا"
ناصر کاظمی ان کا کتنا احترام کرتا تھا
"جی! اور دو توس بھی منگا لیجیے"
چائے آئی۔چائے کے ساتھ دو توس آئے۔لطیفی صاحب نے دونوں توس اٹھائے اور باہر نکل گئے۔تھوڑی دیر بعد خالی ہاتھ واپس آئے اور چائے پینی شروع کردی۔لطیفی

صاحب سے چائے کا جب بھی پوچھا گیا، انہوں نے توسوں کی فرمائش ضرور کی اور ہمیشہ یہ دیکھا گیا کہ توس آکر رکھے گئے، اور وہ لے کر باہر نکل گئے۔ ایک روز میں (انتظار حسین) کافی ہاوس میں اس زاویے سے بیٹھا تھا کہ میرا رخ دورازے کی طرف تھا۔ میں نے دیکھا کہ بار بار دروازے کے شیشے پر ایک کتے کی تھوتھنی نظر آتی ہے۔ میں حیران تھا کہ یہ کتا آخر کیا چاہتا ہے۔ تھوڑی دیر میں ویٹر نے پلیٹ میں دو توس لاکر رکھے ۔لطیفی صاحب نے دونوں توس رومال میں لپیٹے اور باہر نکل گئے، کچھ دیر بعد واپس آئے اور ہمارے ساتھ کافی پینے لگے۔ پھر وہ کتا نظر نہیں آیا۔

لطیفی صاحب کا تعلق لدھیانہ سے تھا۔لدھیانہ کے صاحب ثروت لوگوں میں سے تھے۔تقسیم کے بعد لاہور آئے تو یہاں بے گھر، بے در ہوگئے۔آج یہاں کل وہاں۔
 

image


ایک رات آوارہ گردی کرتے کرتے بہت رات ہوگئی۔سعید ساتھ تھا۔ ہم اس کے گھر کے قریب تھے۔ ناصر کاظمی نے کہا کہ آج رات سعید کے گھر قیام کرتے ہیں۔ہم نے وہیں ڈیرا ڈال دیا۔ صبح ناشتے کا خاص اہتمام کیا گیا تھا۔ناشتے سے ابھی ہم نے فراغت حاصل نہیں حاصل کی تھی کہ لطیفی صاحب نمودار ہوئے۔انہوں نے میز پر اپنا بڑا سا رومال بچھایا اور حلوہ پوری، توس وغیرہ سب سمیٹ کر اس میں باندھا اور خاموشی سے نکل گئے۔ ہم ہکا بکا کہ یہ کیا ہوا۔۔۔۔۔اگلی شام میں اس راہ سے گزرا تو دیکھا کہ دو کتے سعید کے گھر کے گیٹ کی طرف منہ کیے کھڑے ہیں۔اسی آن لطیفی صاحب ایک بڑا سا پڑا دونوں ہاتھوں میں سنبھالے برآمد ہوئے۔ دونوں کتوں نے انہیں اپنی اداوں سے خوش آمدید کہا۔پھر وہ برابر کی گلی میں مڑ گئے جہاں مزید کتوں نے اسی شان سے ان کا استقبال کیا۔ سعید انہیں اپنے گھر لے گیا۔ سعید محمود کا ایک شوق یہ بھی تھا کہ کسی ادیب میں جنون کے آثار دیکھتا اور وہ بے ٹھکانا ہوتا تو اسے اپنے گھر لے جاتا۔سعید کا گھر میرے (انتظار حسین) راستے میں پڑتا تھا۔صبح صبح جب میں سائکل پر سوار دفترکے لیے روانہ ہوتا تو سعید کے گھر کے احاطے میں جو درخت تھے، ان پر چڑیوں کے غول کے غول اترتے نظر آتے۔ چڑیوں نے سخت شور مچایا ہوتا۔چند دنوں تک سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ اس راہ میں آخر اسی ایک گھر پر چڑیوں کی یورش کیوں ہوتی ہے۔ایک دن لان پر جو نظر گئی تو دیکھا کہ لطیفی صاحب کھڑے ہیں ، ان کے دونوں کاندھوں پر چڑیاں لدی ہوئی ہیں۔ باقی کچھ درخت سے اتر اتر کر ان کے گردپھررپھر راڑ رہی ہیں اور شور مچا رہی ہیں۔ لطیفی صاحب کے ہاتھوں میں روٹی کے ٹکڑے یا دانا دنکا قسم کی کوئی چیز ہے۔وہ اسے بکھیر رہے ہیں۔

ایک دن لطیفی صاحب نے اپنا بوریا بستر باندھا اور اس گھر سے چلے گئے۔کتوں سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں اس لیے میں نے ان کے جانے پر اس علاقے کے کتوں پر اس کا رد عمل جاننے کاتردد نہیں کیا۔ہاں چڑیوں پر جو ان کے جانے کا اثر ہوا وہ میرے ذہن پر نقش ہے۔ صبح کو گزرتے ہوئے میں اس گھر پر ضرور نظر ڈالتا تھا۔چڑیوں کی چہک مہک غائب ہوچکی تھی۔کچھ دنوں تک تو یہ لگاجیسے اس علاقے کی چڑیاں چہکنا ہی بھول گئی ہیں۔" (چراغوں کا دھواں از انتظارحسین)

حکیم ناصر نے کیا خوب کہا تھا:
سارا ہی شہر اس کے جنازے میں تھا شریک
تنہائیوں کے خوف سے جو شخص مر گیا
م حسن لطیفی کے لوح مزار پر یہ عبارت کندہ ہے:
تاریخ وفات
میاں محمد حسن لطیفی صحافی پسر محمد شاہ صاحب رئیس لودیانہ
23 ،مئی 1959 مطابق 14 ذیقعد 1378 ہجری
وائے حسن لطیفی قادر بیاں ادیب
پسر سخی محمد شاہ ولی و سعد
آں گنج بخش فیض کرم مظہر سخا
مفلس را ابر باراں و منعم را مثال رعد
رفت از جہان فانی و ممکن نمی گذاشت

پیدا کند زمانہ حریفش بدور بعد
سیدم از سروش تاریخ رحلتش
گفتا بشب ماہ کمال از ما ذیقعد
14 ذیقعد 1378 ہجری
م حسن لطیفی کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
شاعر کی لرزتی ہوئی پلکوں سے جو ٹپکا
اس بیش بہا موتی کا ساحل تھا نہ بازار

اتوار بازار سے ملنے والی کتابوں کا تعارف پیش خدمت ہے:

دلی یاد آتی ہے۔یاداشتیں ۔مصنفہ: روح افزاءحیدر۔ناشر: ملٹی گرافکس اسلام آباد۔سن اشاعت: 2002۔صفحات: 295
ناصر کاظمی ایک دھیان۔مصنف: شیخ صلاح الدین۔ناشر: مکتبہ خیال لاہور۔سن اشاعت: 1982۔صفحات: 130
رطب و یابس۔شاعری۔ظفر اقبال اناشر: جنگ پبلیکیشنزلاہورسن اشاعت: 1991صفحات: 226
لطیفیات۔شاعریا۔حصہ اور و دوم۔م حسن لطیفی۔ناشر: ادارہ نقوش لاہور۔سن اشاعت: 1988۔صفحات: 351
اردو ڈائجسٹ۔آپ بیتی نمبر۔سن اشاعت: اپریل 2000۔صفحات: 350
اردو ڈائجسٹ۔عظیم سفرنامے نمبر۔سن اشاعت: سالنامہ 2000۔صفحات: 396

Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 300367 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.