حدِ نگاہ تک یہاں غُبار ہی غُبار تھا

کراچی کے موسم کو اُردو شاعری کے روایتی محبوب کے مزاج سے تشبیہ دی جاتی ہے جس کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی اُردو شاعری اور بالخصوص غزل کے روایتی محبوب کے بیشتر اعمال random کے اصول پر کام کرتے ہیں۔ بالکل لیمو پانی کی طرح، کبھی بھی کہیں بھی! یہی حال کراچی کے موسمی مزاج کا ہے۔ اِس موسم کے تمام اجزاءدرآمدی ہیں۔ بلوچستان میں جب ٹھیک ٹھاک ٹھنڈ پڑتی ہے تو وہ تھوڑی بہت خنکی کراچی بھیج کر اپنے کلیجے کو مزید ٹھنڈا کرتی ہے! جب ایران اور بلوچستان میں بادل برس برس کر زمین کی پیاس بجھا چُکتے ہیں تب ذرا رحم آتا ہے اور کراچی کی زمین پر چند بوندیں برساتے ہوئے گزر جاتے ہیں! سمندر سے پیاسے کو شبنم ملتی ہے مگر خیر اِس پر بھی کراچی کبھی کِسی کو بُخل کا طعنہ نہیں دیتا!

بارش کا موسم رہا نہیں اور سردی بھی رخصت ہوچکی ہے۔ برف باری تو ہوتی نہیں اور ابھی گرمیوں کی آمد میں خاصا وقت ہے۔ ایسے میں گرد و غُبار کے طوفان کو خیال آیا کہ چلو، کراچی میں ”فِل اِن دی بلینک“ کا کھیل کھیلیں، ذرا لوگوں کو غُبار کے جھکڑوں سے سرفراز کریں! ایک ہفتہ قبل ایک شب گرد کے بادل ایسے چھائے کہ کراچی کا سارا شو بگڑگیا۔ جو پیدائشی کوتاہ بین ہیں اُن کی صلاحیت تو دوچند ہوگئی کہ حدِ نگاہ چند گز تک محدود ہوکر رہ گئی! جنہیں طعنے ملتے تھے کہ کبھی خاک چَھانو تو جانو اُنہوں نے چَھنی چَھنائی خاک دیکھی اور ایسی دیکھی کہ اب مُدتوں نہ دیکھنے کی تمنا اور دُعا کیا کریں گے!

اتفاق دیکھیے کہ ہفتہ وار تعطیل سے بھرپور اِستفادے کے لیے ہم بھی کچھ تیار ہوکر گھر سے نکلے کہ ایک ولیمے میں شریک ہولیں۔ شادی ہال تک پہنچتے پہنچتے سَر میں اِتنی دُھول اَٹ چُکی تھی کہ
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو بتائے نہ بنے!

آج کل میڈیا کے اشتراک سے طرح طرح کے مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں۔ اُس دن ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے گرد میں اَٹنے کا مقابلہ ہو رہا ہے!

مُنہ کو دیکھے جانے کے قابل بنانے کے لیے اُسے رگڑ کر دھونے کے سِوا چارہ نہ رہا۔ ہمیں واش بیسن کے اوپر نصب آئینے کے سامنے مَبہوت دیکھ کر قرب و جوار کی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے بعض سادہ لوح افراد یہ سمجھے کہ شاید آئینہ جادو کا ہے جس نے ہمیں جکڑ لیا ہے یا پھر یہ کہ ہم ہر طرف سے مایوس ہوکر اپنے آپ پر مَر مِٹے ہیں! حالاں کہ حقیقت یہ تھی کہ ہم
آئینہ دیکھ اپنا سا مُنہ لے کے رہ گئے!

کسی کو شاید یہ گمان بھی گزرا ہو کہ ہم اپنے چہرے کے کھنڈر دیکھ کر عمارت کا اندازہ لگانے میں مصروف ہیں! ایک لمحے کو تو سمجھ ہی میں نہ آیا کہ آئینے میں ہمارے مقابل کون کھڑا ہے؟ شیشے کی دُھول ہاتھ سے ہٹائی تب اندازہ ہوا کہ کوئی اپنا اور شناسا ہے اور ہمیں پہچاننے کی کوشش کر رہا ہے! آئینے میں ہمارے مقابل جو بھی تھا وہ خاصا حوصلہ مند بھی تھا کہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہا تھا!

گھر سے شادی ہال تک کا سفر چالیس منٹ کا تھا مگر حُلیہ چُغلی کھا رہا تھا کہ ہم ایک عمر کی مُسافت طے کرکے یہاں پُہنچے ہیں! گرد و غُبار کے طوفان کی مہربانی سے سَر کے بال ایسے سخت ہوچکے تھے جیسے کھوپڑی پر ریگزین کی ٹوپی پہن رکھی ہو! مگر اِس طرف سے ہم زیادہ پریشان نہیں تھے کیونکہ آج کل بالوں سے کی جانے والی ہر اِنسانی اور قدرتی کِھلواڑ کو فیشن سمجھ کر محض قبول ہی نہیں کرلیا جاتا بلکہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے! ہم تو اِس بات سے ڈر رہے تھے کہ کہیں الیکٹرانک میڈیا والے اسپاٹ پر پہنچ کر ہماری عجیب ہیئت کو ”نگاہ زدِ عام“ نہ کردیں! ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ شادی ہال میں کام کرنے والے مزدور ہم سے اور ہم جیسے دوسرے مہمانوں سے زیادہ ”بنے ٹھنے“ دکھائی دے رہے تھے! لختِ جگر صباحت کو اللہ سلامت رکھے، اُس نے یہ کہتے ہوئے ہماری ”نرگسیت“ کا ”دی اینڈ“ کیا۔ ”بابا! ہٹ جائیں، میں بھی تو مُنہ دھوکر کنگھی کروں گی۔“

مُنہ ہاتھ دھوکر ہم اِس قابل ہو پائے کہ گرد و غُبار کے طوفان کو کچھ دیر مُنہ دے لیں! میز کے شیشوں پر اِتنی دُھول تھی کہ کوئی نہ بتائے تو یہ گمان گزرے کہ کِسی پُرانی، بھوتوں والی حویلی سے لائے گئے ہیں! کُرسیوں پر غُبار نے کچھ اِس طرح ڈیرہ ڈال رکھا تھا
مِلا ہو جیسے صدیوں بعد کوئی!

اہل کراچی سبھی کچھ درآمد کرتے ہیں، حتّٰی کہ موسم بھی۔ یہی سبب ہے کہ موسمی تبدیلیوں کو پہچاننے اور سمجھنے میں کم ہی کامیاب ہو پاتے ہیں! گرد و غُبار کی دبیز چادر جب شہر پر مُحیط ہوئی تو بہتوں کا ایمان تازہ ہوگیا یعنی خُدا یاد آگیا! تبدیلی کی صرف بات کی جاتی ہے، اُس کے لیے تیار کوئی نہیں۔ یہی سبب ہے کہ جب کوئی تبدیلی وارد ہوتی ہے تو آن کی آن میں قیامت سی برپا ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے! بات کچھ یوں ہے کہ ملک بھر میں تو سخت سردی میں دُھند پڑتی ہے اِس لیے لوگ اچھی طرح واقف ہیں کہ دُھند کِس بلا کا نام ہے۔ ایک بار کراچی میں اچانک، کسی پروگرام کے بغیر، بن بُلائے مہمان کی طرح، دُھند پڑی اور گز بھر کے فاصلے پر بھی کچھ دیکھنا ممکن نہ رہا تو کراچی میں بُہتوں کے دل یہ سوچ کر بیٹھ گئے کہ کہیں آنکھوں نے دیکھنا چھوڑ تو نہیں دیا! اب ذرا کوئی یہ وضاحت کرے کہ جب مطلع صاف ہوتا ہے اور سورج پوری آب و تاب کے ساتھ سروں پر ہوتا ہے تب ہمیں کون سا صاف دکھائی دیتا ہے۔ اِس شہر کے لوگ تو دیکھ کر بھی نہ دیکھنے کے عذاب سے دوچار رہتے ہیں!

پانی کے بادل تو شاید کراچی کا رَستہ بھول بیٹھے ہیں اِس لیے اُن کی آمد پر مَسرت کم اور حیرت زیادہ ہوتی ہے! جب پانی برسانے والے بادل نہ آئے تو شہر کی فضاءمیں آباد ہونے کو غُبار کے بادل آدھمکے۔ محکمہ موسمیات نے یہ کہہ کر لوگوں کو مزید دہلادیا کہ چار ہزار میٹر کی بلندی تک دُھول ہی دُھول تھی۔ آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پندرہ بیس گھنٹوں کے دوران فضاءمیں کتنی دُھول رہی ہوگی! اور جناب! یہ دُھول گئی کہاں؟ یہیں، کراچی میں رہ گئی۔ جو یہاں آتا ہے وہ پھر جاتا ہی کہاں ہے؟ یعنی واپسی کے خیال ہی سے پھر جاتا ہے!

محض چند گھنٹے رہنے والے گرد و غبار کے طوفان نے شہریوں کا وہ حال کردیا کہ لوگ ایک دوسرے کو پہچان کر بھی نہ پہچان پائے۔ یہ بھی مصلحتاً تھا، سب ایک دوسرے سے نظریں چُرائے پھر رہے تھے۔ کوئی نہیں چاہتا تھا کہ گرد وغبار کے چلتے پھرتے گولے گنڈے کی شکل میں کوئی اُسے دیکھے اور یاد رکھے!
مرزا تنقید بیگ اِس دُنیا میں آئے ہی دُھول اُڑانے کے لیے ہیں۔ ہر مُسلّمہ اُصول کی خاک اور گرد اُڑانے میں اُنہیں خاص لذت محسوس ہوتی ہے۔ شہر میں دُھول اُڑی تو مرزا چہک کر فرمانے لگے۔ ”آج کل ہماری قومی زندگی کا بھی کچھ ایسا ہی منظر ہے، ہر طرف دُھول اُڑ رہی ہے۔ ہر معاملے میں یکسر بے حِسی کا مظاہرہ کیا جائے گا تو قدرت کی طرف سے وارننگ کے طور پر گرد و غبار کا طوفان ہی آئے گا! زندگی کو دُھول کرنے والوں کے لیے گرد اور غبار کے طوفان ہی آیا کرتے ہیں!“

مرزا کو باقاعدگی سے تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا اِس لیے اب ہر بات میں کوئی نہ کوئی سبق ڈھونڈا کرتے ہیں! شہر سے گرد کا طوفان گزر تو گیا مگر نشانیاں چھوڑ گیا۔ جو لوگ کہیں کسی تقریب میں شرکت یا سیر و تفریح کے لیے ٹیپ ٹاپ میں گھر سے نکلے تھے وہ چند گھنٹوں کے لیے ناقابل شناخت ہوگئے۔ طوفان کے جانے کے بعد کی کیفیت شہزاد احمد کی زبانی بیان کریں تو
جل بھی چکے پروانے، ہو بھی چکی رسوائی
اب خاک اُڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 484319 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More