بابری مسجد کی شہادت کا
سانحہ پور ی امت مسلمہ کے دلوں پر ایک ایسا گہر ازخم چھوڑ گیا ہے جس کی
تکلیف کا احساس رہتی دنیا تک تمام مسلمانوں کو تڑپا تااور ستاتا رہے
گا۔6دسمبر 1992کا دن تاریخ ِ ہند کابد ترین دن تصور کیا جاتاہے جہاں صدیوں
پرانی تاریخی بابری مسجدکو ہندو کار سیوکوں نے مسمار کردیا تھا بابری مسجد
کی شہادت نے اس وقت کی موجودہ حکومت اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں
پر ایک سوالیہ نشان چھوڑدیا ہے اس سے بھی بدترین دن 30ستمبر 2010 کا تھا جب
بھارت کی عدالت عالیہ نے ایک ایسا فیصلہ سُنایا جو مسلمانان ہند کے ساتھ
ساتھ پوری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں پر بجلی بن کر کوند گیا اور پرانے
زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا عدالت کے اس فیصلے نے کئی لوگوں کو سکتہ
میں ڈال دیا تو کئی جذباتی مسلمان اس غم کو برداشت نہ کرتے ہوئے اپنی جان
تک گنوا بیٹھے کیونکہ یہ فیصلہ نا قابل توقع اور انتہائی مایوس کن تھا یہ
فیصلہ سیکو لر مزاج اور انصاف پسند لوگوں کے لیے کم حیران کن نہ تھا جہاں
سارے حقائق و شواہد کو یکسر نظر انداز کرکے صرف ایک طبقہ کو خوش کرنے کے
لیئے محض ان کے عقائد کو بنیاد بنا کر صادر کیا گیا جو سیاسی مقاصد کے تحت
سیاسی لوح برادران ِوطن کے د ل و دماغ میں سرایت کر گیا اور کئی کروڑ وں
مسلمانوں کے جذبا ت سے کھیلا گیا حق کا گلہ گھونٹ کر ایک ایسا فیصلہ منظر
عام پرلایا گیا جویقیناہندوستان کی پیشانی پر ایک ایسا بد نما داغ چھوڑ گیا
ہے جو شاید ہی ہندوستان اس داغ کو کبھی دھو سکے گااوراگر بابری مسجد کو
انصاف نہ ملا تو یہ ظلم و زیادتی اور جبر کی ایک ایسی داستان رقم ہوگئی جو
تا قیامت کامل جہاں میں گردش کرتی رہے گی کیونکہ حقیقت میں بھارت کی عدلیہ
کا یہ فیصلہ مسلمانوں کے جذبات اور سچائی کا خون ہے جسے بھارت کی عدالت نے
بڑے ہی ڈرامائی انداز میں پیش کیا ہے یقینا یہ فیصلہ تاریخ کو مسخ کرنے کی
کوشش ہے اور مورخین جب بھی قلم اُٹھائیں گے ان فاضل جج حضرات کی دیانت داری
پر شک ضرور کریں گئے اور لوگوں کے ذہنوں میں بھی یہ سوال ضرور رہے گا کہ
کیا بھارت کے باعزت منصب پر رہنے والوں سے اسطرح کے فیصلے کی توقع کی
جاسکتی ہے جس میں جھوٹ اور بے بنیادباتوں کو کو سچ اور حقیت میں ڈھالنے کی
گھٹیاکوشش کی گئی ہو۔
واضح رہے کی بابری مسجد میں 1949میں جبراً مورتی رکھنے کے بعد مقامی
انتظامیہ نے اس مسجد میں مسلمانوں کے نماز پڑھنے پر پابندی عائدکر دی تھی
اور مسجد کے دروازے پر تالہ لگادیا تھا بعد میں فیض آباد کی ایک عدالت نے
1986میں ہندوں کے لیئے مسجدکو کھول دیا تھا جبکہ مسلمانوں پر پابندی عائد
رکھی گئی تھی لیکن معاملہ عدالت میں رہا اور اپریل 2002سے الہ آباد
ہائیکورٹ نے اس متنا زعہ زمین کے حقِ ملکیت سے متعلق سماعت شروع کردی اور
عدالت کے حکم پر ماہرین اثار قدیمہ نے بھی اس بات پر پتہ لگانے کے لیئے
کھدائی کا کام کیا تھا کہ آیا اس جگہ پر کبھی مندر تھا یا نہیں لیکن کھدائی
سے مندر کے موجود ہونے کا کوئی بھی ثبوت نہ مل سکابہرکیف عدالت نے خلاف
توقع وہ فیصلہ سنا یا جسکی امید نہیں کی جارہی تھی اور عدالت کا یہ فیصلہ
مسلمانان ہند کے ذہنوں پر کئی سوالات رقم کر گیا ہے مثلاً کیا کبھی سپریم
کورٹ میں کبھی مسلمانوں کا انصاف مل سکے گا،کیا بھارت میں قانون کی جڑیں
کھوکھلی ہو چکی ہیں ،کیا مسلمان بھارت میں دوسرے درجے کی شہری بن چکے
ہیں،کیا اب مسلمانو ں کی عزتیں و عصمتیں اور املاک بھارت میں محفوظ رہ
پائیں گے۔بھارت میں بابری مسجد کی المناک شہادت کے باوجود ہندووں کے ارادے
پست نہیں ہوئے اس لیئے آئے دن وہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کے جذبات کو
مجروح کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی بہودہ حرکات کرنے میں مشغول رہتے ہیں کبھی
مسجدوں پر توکبھی مسلمانوں کے گھروں پر پتھراﺅ کیا جاتا ہے کیونکہ یہ لوگ
جانتے ہیں کہ بھارت کا قانون اور حکومت ان لوگوں کے ساتھ ہے۔بابری مسجد کے
واقع کے بعد بھارتی مسلمانوں کا پرامن رہنا ملک کا امن خراب نہ کرنا اور
ہندوں کی طرح مشتعل نہ ہونے کی وجہ سے شاید ہندوں نے مسلمانوں کی امن کی
خاطر بنائی ہوئی خاموشی کو انکی کمزوری سمجھ لیا ہے ، جو چُپ رہے گی زنانِ
خنجر ،لہوپُکارے گا آستیں کا، اور شاید اسی لیئے اپنی حرکتوں سے بعض نہیں
آرہے ہیں۔ 13مارچ2012(ایس و نیوز ) کے مطابق بھارت ،پرتاب گڑھ کے ایک کالج
میں این سی ای آر ٹی کی درجہ 11میں پڑھائی جانےوالی عالمی تاریخ کی کتاب
میں اسلامی تاریخ کو مسخ کرکے پیش کیا مذکورہ کتاب میں حرم شریف میں صحابہ
کرام کے طواف اور فرشتوں کو دیکھتے ہوئے بتا یا گیا این سی ای آر ٹی کی
نصابی کتاب میں اسلامی تاریخ کے عنوان سے ایک مضمون کلاس 11کے طلباءکو پڑ
ھایا جاتاہے مضمون میں یہ بتایا گیا ہے کہ اسلام سے قبل مسجدوں میں بت رکھے
جاتے تھے اور کتاب کے صفحہ79پر حضرت جبرئیل کی ایک فوٹو بھی شائع کی گئی ہے
جبکہ صفحہ 80پر حرم شریف کی فوٹو شائع کی گئی ہے اور یہ لکھا ہے کہ 15صدی
میں حاجی کالے پتھر کو چھو رہے ہیں اور متعد د فرشتے اسے دیکھ رہے
ہیں۔فوٹوز میں کچھ خاکے بھی موجود ہیں۔
اس سے پہلے بھی دانستہ طور پر مسلمانوں کی دل آزاری والے مضامین نصاب کتب
میںشائع ہوتے رہے ہیں اور مسلمانوں کے احتجاج کے بعد ان پر پابندی بھی عائد
ہوتی رہی ہے لیکن ایک بار پھر این سی ای آر ٹی نے مسلمانوں کے جذبات مجروح
کیئے ہیںجب طلباءکے والدین نے اس کتاب کو دیکھا اور اس کا مطالعہ کیا تو
انہیں شدید تشویش ہوئی لہذا نہوں نے میڈیا کو اطلاع دی اور کتا ب کی فوٹو
کاپی بھی دی ۔میڈیا میں خبر آنے کے بعد بھارت کے مسلمانوں نے احتجاج کرتے
ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فو ری طور پر اس کتاب پر پابندی عائد کی
جائے اور غلط اسلامی تاریخ پیش کرنے والے مضامین کو مذکورہ کتاب سے نکالا
جائے۔بھارت میں پہلے ہی الیکڑانک میڈیا کے ذریعے ہندو عزم کو بڑھا چڑھا کر
پیش کیا جاتا او رمذہب اسلام اور اس کی تاریخ کو مسخ کیا جاتاہے اور اب ایک
سازش کے تحت سکول ،کالجوں کے نصابی مضامین میں اسلام کی غلط تصویر دکھا کر
مذہب اسلام بدنام کرنے کی گھناونی سازش رچی جارہی ہے۔ |