محبتوں کا لین دین

اپنے پیاروں کو وقت کا انمول تحفہ دیجیئے

کہتے ہیں زندگی گزارنے کے لیے محبتوں کا لین دین بہت ضروری ہے۔ اور جب تک انسان اپنی ذات کی نفی نہ کرلے یہ لین دین ممکن نہیں۔

اس مادیت پسند زمانے میں شخصی افراتفری بہت عام ہے۔ اپنے اطراف میں نظر دوڑائی جائے عجب احوال ہے کہ جسے لفظوں میں بیان کرنا شاید مشکل ہے۔ ایک ہی خاندان کے اہلخانہ بھی کئی کئی دنوں تک ایک دوسرے کے حالات سے ناواقف رہتے ہیں۔ ہر فرد پہلے سے زیادہ مصروف ہے اس کے پاس دوسروں کے لئے وقت نہیں۔ صاحب خانہ تو معاشی فکرو آگے بڑھنے کی جستجو میں مصروف ہیں ہی خاتونِ خانہ بھی وقت کی کمی کا شکار نظر آتیں ہیں۔ کہیں اولاد ماں باپ کی طرف سے عدم توجہی کا شکار نظر آتی ہے تو کہیں ماں باپ اولاد سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس نفسا نفسی کی وجہ سے دلوں میں دوریاں بڑھتی ہیں۔ اور رفتہ رفتہ خاندانوں کے شیرازے بکھرتے نظر آتے ہیں۔ یہی نفسا نفسی معاشرے کی ایک اکائی یعنی فرد کی سوچ سے نکل کر تمام معاشرے میں بے حسی کی صورتحال پیدا کر رہی ہے۔

آج ہر شخص کہتا نظر آتا ہے جلدی کرو ۔ میرے پاس وقت نہیں ہے مگر کوئی نہیں سوچتا کہ اُس کا وقت کہاں گیا۔ اِس صورتحال کا تجزیہ کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم نے خود بے جا مصروفیات میں خود کو پھنسا رکھا ہے ۔ جدید تکنیکی مہارتوں کے اِس دور نے جہاں انسان کو بہت ساری سہولتیں اور آسانیاں فراہم کی ہیں وہیں پر انسان کو بے شمار مسائل کا شکار بھی کردیا ہے۔ جس کی بناءپر جو کام اور رشتے ناطے پہلے بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہوا کرتے تھے وہ اب کم اہم فہرست میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے رویوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا نقطہ بحث ہے جس سے نگاہ نہیں پھیری جاسکتی۔کیونکہ رشتوں کو وقت کی کمی کا بہانہ بنا کر نظر انداز کرنے سے ڈپریشن کے مرض میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے اہل خانہ کی مرکزیت اور حیثیت کو نظر انداز کیے بغیر اپنے معمولات زندگی اور مصروفیات پر اثرِ نو نظر دوڑائی جائے۔

خواتین عموماً صبح سویرے اُٹھ جاتی ہیں ۔ بچوں کو اسکول بھیجنا شوہرکے دفتر کی تیاری سے دن کا آغاز ہوتا ہے۔ اِن کاموں کو نمٹانے کے بعد گھریلو دیگر ذمہ داریاں اور سسرال والوں کا خیال سب ہی ان کے دماغ میں ایک فہرست کی طرح مرتب ہوتا ہے۔ ایک کے بعد ایک کام وہ کرتی چلی جاتیں ہیں۔ اور یوں زندگی کا ایک دن گزر جاتا ہے۔

اور یہی حال صاحبِ خانہ کا ہے۔ فکرِ معاش اور زندگی کی گہما گہمی جو سورج چڑھتے ہی شروع ہو جاتی ہے رات گئے تک اعصاب شل ہو جاتے ہیں۔اور وقت کی کمی کے باعث ایک ہی کمرے میں رہنے والے یہ دو افراد رفتہ رفتہ اجنبی ہو جاتے ہیں۔

اگر ہم اپنی زندگی پر طائرانہ نگاہ دوڑائیں اور اپنے ان جملوں کا ’میں بہت مصروف ہوں ، میرے پاس وقت نہیں۔‘ حقیقت پسندانہ جائزہ لیں تو ہمیں جلد احساس ہو جائے گا کہ در حقیقت نہ تو ہمارے پاس وقت کی کمی ہے اور نہ مصروفیت زیادہ بلکہ ہم نے اپنی زندگی کی ترجیحات میں اہم رشتوں کو آخر میں رکھ دیا ہے۔

خواب گاہوں میں T.Vرکھنے کا رواج عام ہو گیا ہے۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد گھریلو ذمہ داریوں سے فراغت کے بعد T.Vپہ ڈرامے دیکھنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ جبکہ مرد حضرات اپنا فراغت کا وقت موبائل فون، انٹرنیٹ پر صرف کردیتے ہیں۔ لیکن ذرا غور کیجیئے T.V ڈرامے ، موبائل فون ، انٹرنیٹ اور وقتی دوستیاں یہ سب کچھ کیا اُن رشتوں سے زیادہ اہم ہیں جو ہماری زندگی کا سرمایہ ہیں۔

زندگی کی مصروفیت تو کبھی ختم نہ ہوگی گھریلو ذمہ داریوں کا کوئی اختتام نہیں۔ لیکن جذبوں میں سرد مہری اور دلوں میں دوریاں ، ایک دوسرے کے مسائل میں عدم دلچسپی آخرکار گھر کو مکان بنادیتی ہیں۔ رشتہ میاں بیوی کا ہو ، ماں باپ کا اولاد سے ہو یا پھر ایک دوست کا دوست سے ہم سب کو ہی ہمہ وقت ایک Listening earکی ضرورت رہتی ہے۔ مگر وقت کی کمی کا رونا رو رو کر ہم اپنی ذمہ داریوں سے بری و زماں ہو جاتے ہیں اور اپنے رشتوں سے دور۔

رشتوں کی خوبصورتی اسی طرح قائم رہتی ہے جب انھیں وہ توجہ پیار اور وقت دیا جائے جسکے وہ حقدار ہیں اور یہ وقت ملتا نہیں نکالنا پڑتاہے۔

رات کو دیر تک جاگنا اور صبح بدحواسی میں جلدی جلدی اپنے معمولات زندگی میں دوسروں سے بے خبر ہو کر الجھ جانا عقلمندی نہیں۔ اگر تمام اہل خانہ اپنے دن کا آغاز صبح صادق سے کریں اور صوم صلواة سے فراغت کے بعد ناشتہ ایک ساتھ کریں اور ایک دوسرے سے گفتگو کریں تو یقینا نہ صرف دن ذہنی یکسوئی کے ساتھ چست اور توانا گزرے گا بلکہ اہل خانہ کی محبت سے سرشار دلی سکون حاصل ہوگا۔ یہی کچھ اہتمام اگر رات کے کھانے میں بھی کیا جائے اور اہل خانہ کے مسائل میں دلچسپی لی جائے تو گھر کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔ ایسے ہی چھوٹے موٹے تحائف کا تبادلہ بھی اہم ہے۔ ہم عموماً گھر سے باہر اپنے اطراف کے لوگوں کے لئے تو بہت مہنگے تحفے تحائف خریدتے ہیں لیکن گھر والوں کے لئے ایک عام سی چیز تحفتاً خریدنا بھی فراموش کر جاتے ہیں ۔ بیوی کا شوہر کو تحفہ دینا ، شوہر کا بیوی کو تحفہ دینا۔ اولاد کا ماں باپ کو تحفہ دینا۔ بہن بھائیوں میں تحائف کا تبادلہ چاہے وہ بہت معمولی نوعیت کے تحائف ہی کیوں نہ ہوں ایک عجیب خوشی سے سرشار کردیتے ہیں۔ ایک ایسی خوشی جو شاید باہر والوں کے مہنگے تحائف سے بھی حاصل نہ ہوتی ہو کیونکہ یہ محبتیں ہیں۔ جو روحانیت رکھتی ہیں اور یہ رشتے خدا نے بنائے ہیں ان کا خیال رکھنا ہماری سب سے اہم مصروفیت اور ترجیح ہونی چاہیے۔

آج انسان کا سب سے بڑا رشتہ وہ خود ہی بنتا جارہا ہے۔ Self centered۔ اپنے ہی جذبات اور خواہشات کے حصار میں۔ ایسے میں کسی دوسرے انسان کے لئے چاہے وہ اسکا اپنا ہی رشتہ کیوں نہ ہو کہ لئے سوچنا یا وقت نکالنا ناپید ہو گیا ہے۔ وقت کی کمی کے باعث لوگ اپنے پیاروں کو توجہ نہیں دے پاتے۔ ان کے مسائل اور حال دل سے آگاہ نہیں رہ پاتے اور خدانخواستہ جب یہ رشتے بچھڑ جاتے ہیں تو وقت بھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔

آج اس کرہ ارض کا سب سے خوبصورت تحفہ اپنی زندگی میں سے کچھ وقت اور توجہ اپنے پیاروں کو دینا ہے۔ اپنے پیاروں کو وقت کا انمول تحفہ دیجئے ۔ اپنی شخصیت میں بدلاﺅ لائیے۔ غیر ضروری اُلجھنوں اورعادتوں کو خود سے نوچ پھینکیں وقت کو اپنے ہاتھ میں لیجیے۔ اپنے پیاروں کو ساتھ لیتے ہوئے اپنی زندگی کو پریشانیوں کی ڈگر سے ہٹا کر خوشیوں کے راستے پر ڈال دیجئے۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 283089 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.