اَب آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک
بھی کچھ نکال دے..
اکثر ہم لکھنے والوں کو کوئی ایک واقعہ ،خبر یا ایک جملہ اور بعض دفعہ کئی
واقعات اور خبریں اور بہت سی ایسی چیزیں جو اجتماعیت کے حوالے سے ہمارے
معاشرے میں موجود ہوتی ہیں ا تنا متاثر کرجاتی ہیں کہ ہم اُن پر غور کئے
بغیر رہ نہیں سکتے آج جب ہمارے پاس لکھنے کو بہت کچھ ہے توہم اِس مخمصے میں
مبتلا ہیں کہ کس کو موضوع بناکر اِسے اپنے کالم کا حصہ بنائیں اور اِسے
عوام کے سامنے اپنے انداز سے آشکار کریں کافی دیر سوچ بچار کے بعد ہم اِس
نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آج صرف ملتان میں پیش آنے والے اُس واقعہ کو ہی صفحہ
قرطاس پر بکھیردیں جس نے ہمیں اپناآج کا کالم لکھنے پر مجبورکیا۔
ہاں تو قارئین حضرات ...!وہ واقعہ یہ ہے جو ملتان میں کچھ اِس طرح پیش آیا
کہ”خبر کے مطابق گلگشت کے ایک رہائشی جس کا نام ظفر اللہ خان ہے اِس نے
اپنی ببتا بیان کرتے ہوئے کہاکہ گزشتہ کئی دنوں سے اِس کے گھریلو حالات
ٹھیک نہیں تھے اپنی اِن گھریلو پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے اِس نے
ہر طرح کا جتن کر لیا مگر اِن سے چھٹکارے کی کوئی اُمید نظر نہیں آئی تو
بالآخریہ پیر غوث محمدسکندرکے آستانے پر پہنچ گیا جہاں اِس نے پیرغوث
محمدسکندر کو اپنا ہاتھ دکھایا جس نے اِسے بتایا کہ اِس کی ہر پریشانی کا
حل اِس کے چلے سے نکل آئے گا مگر شرط یہ ہے کہ اِس کے لئے ہر حال میں مجھے
(پیر غوث محمد سکندر کو) چلہ کاٹناہوگااِس کے بغیر میرے گھریلوحالات کبھی
ٹھیک نہیں ہوسکیں گے اور جب پیر صاحب بخیروعافیت سے چلہ سے فارغ ہوجائیں گے
تو سوفیصد میرے گھریلوحالات بہتر ہوجائیں گے پریشان حال ظفر نے بتایا کہ
میں کچھ دنوں کے بعد پیر غوث محمد سکندر کے آستانے پر ایک مرتبہ پھر حاضر
ہوگیاتو پیر صاحب نے مجھے بھرے مجمع سے علیحدہ کمرے میں بلاکر بتایاکہ میرے
گھر میں سونے سے بھری دیگ ہے جسے وہ نکال دیں گے۔ظفر کا کہناہے کہ پیر صاحب
کے منہ مبارک سے اتنا سُناتھا کہ مجھ سے نہ رہاگیا اور میں اُس دن کا بے
چینی سے انتظار کرنے لگاکہ پیر صاحب کب میرے گھر میں اپنے قدم مبارک
رنجافرمائیں اور میرے گھر میں موجود سونے سے بھری دیگ میرے حوالے کرکے مجھے
پریشانیوں سے نجات دلائیں اور پھر بالآخر وہ دن بھی آہی گیا جب پیر غوث
محمدسکندراپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ میرے گھر تشریف لائے اور مجھ سمیت میرے
تمام گھر والوں کی دل کی دھڑکنیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تیز سے تیز تر
ہوتیں گئیں ۔
اگرچہ اِس سارے عمل کے دوران پیر صاحب نے میرے تمام اہل خانہ کو گھر سے
باہر بھجوادیاتھا مگرپھر بھی ہم سب اُس مبارک اور بابرکت گھڑی کا بے چینی
سے انتظار کررہے تھے جب سونے سے بھری دیگ ہمارا مقدر بدل دے گی اور گھریلو
حالات ٹھیک ہوجائیں گے اور ہم خوشحال زندگی کی جانب لوٹ آئیں گے مجھ سمیت
اہل خانہ ابھی یہ حسین خواب دیکھ ہی رہے تھے کہ یکایک پیر غوث محمد سکندر
نے ہم سب کو اپنے قریب بلایا اور ہمیں بتایا کہ اُنہوں نے اپنی کرامت سے
سونے سے بھری دیگ تو نکال لی ہے جو اَب ہمارے سامنے ہے مگر اِسی کے ساتھ ہی
اُنہوں نے ہمیں دیگ کے قریب آنے اور اِسے ہاتھ لگانے سے اپنی گرجدار آواز
میں سختی منع بھی کردیااور کہاکہ میں یہ دیگ تمہیں نہیں دے سکتااِس کو حاصل
کرنے کے لئے پہلے دیگ کا صدقہ جو 100تولے سونایا اِس کے برابر رقم جو ایک
کروڑ 29لاکھ70ہزاربنتی ہے مجھے (پیر غوث محمد سکندر کو) فوراََ اداکرنی
ہوگی تب کہیں جاکر تم (ظفر خان اور اہلِ خانہ )اِ س سونے سے بھری دیگ کے
مالک اور حقدار بن سکتے ہو یہ سُنتے ہی میں نے کہیں نہ کہیں سے (یہ سوچ کر
کہ جب دیگ ہاتھ لگ جائے گی تو میں جس جس سے ادھار لے رہاہوں میں اُنہیں یہ
رقم واپس کردوں گایوں)پیر صاحب کی مطلوبہ رقم کا بندوبست کردیااور انتہائی
ادب و احترام سے میں نے یہ رقم ابھی پیرحضرت غوث محمدسکندر کے نرم وگداز
دستِ مبارک پر رکھی ہی تھی کہ پیر غوث محمد سکندر اور اِن کے چیلے فوراََ
ہی غائب ہوگئے۔ اِس کے بعد پیش آنے والے المناک واقعہ پر مدعی ظفر خان کا
کفِ افسوس کے ساتھ کہتاہے کہ پیر نے سونے کی دیگ تو گھر سے نکال دی جوکچھ
دیر کے بعد(یعنی پیر کے غائب ہونے کے ساتھ )ہی گھر سے غائب ہوگئی تب سے آج
تک نہ تو وہ پیر ہی اَب کہیں دکھائی دے رہاہے اور نہ گھر سے نکلنے والی
سونے کی دیگ ہی ہاتھ آئی ہے اَب گھریلوحالات اور پریشانیوں کی وجہ سے سو سے
ہزار اور ہزار سے لاکھ اور لاکھ سے کروڑ بنانے کے چکر میں پڑنے والے ظفر
خان کا یہ کہنا ہے کہ میں گھریلوحالات کو ٹھیک کرنے کے لئے اللہ پر بھروسہ
کرنے کے بجائے پیر غوث محمدسکندر جیسے جعلی اور ٹھگی پیروں کے جھانسے میں
آگیااور اپنے کم کو زیادہ کرنے کے چکر میں اپنی تھوڑی بہت عمر بھر کی جمع
پونجی بھی لٹابیٹھاہوں جومیری اور میرے اہلِ خانہ کا سہاراتھی۔شاید ایسے ہی
لوگوں کے متعلق کلمنز کا یہ قول ہے وہ کہتاہے کہ” یہ ٹھیک ہے کہ بدحالی سے
خوش حالی کی طرف جانامشکل ہے لیکن خوش حالی سے بدحالی کی طرف آنا آسان
ہے“ایسے ہی جیسے ملتان کاظفر خان ہے جو اپنے جزوقتی گھریلوحالات اور
پریشانیوں کا اللہ پر بھروسہ کرکے اِن سے نبرد آزماہونے کے بجائے غوث
محمدسکندر جیسے جعلی اورٹھگ باز پیر جس نے اِسے سونے کی دیگ کا لالچ دیا
اور اِس سے کروڑوں روپے بٹور کرچلتابنااور اِسے زندگی بھر کا ایک ایساداغ
دے گیا جسے دیکھ کر یہ اور اِس کے اہلِ خانہ تاحیات روتے رہیں گے اِسی لئے
تو کہاجاتا ہے کہ بعد کی پشیمانی سے پہلے کی احتیاط بہتر ہے اورہرکام کرنے
سے پہلے سوچ لو اور وہ کام کرو جسے کرنے کے بعد پچھتانا نہ پڑے۔آج ہم سوچ
رہے ہیں کہ بیچارے ظفر خان کی طرح ہماری حکومت اور حکمران بھی تو ہیں جو
اپنی پریشانی اور ملکی حالات کا رونا کسی پیر فقیر کے سامنے تو نہیں روتے
مگر اتنا ضرور ہے کہ یہ اپنی کیفیت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت دنیاکے
دیگر مالیاتی اداروں کے سامنے روتے ضرور ہیں اور یہ ادارے بھی اِس پیر غوث
محمد سکندر ٹھگ بازکی طرح ہیں جو حکومت کو یہ تو کہہ رہے ہیں کہ تمہارے
یہاں سونے کی دیگ ہے یہاں توافسوس یہ ہے کہ اَب تک اِنہوں نے کوئی دیگ
تونہیں نکالی مگر یہ ادارے دیگ نکالنے کا جھانسہ دے کر ہمارے حکمرانوں سے
اَب تک اربوں کھربوں کا سودجو دیگ کا صدقہ ہے ضرور وصول کرچکے ہیں۔ |